باتوں میں نرمی، تازگی ، نازک
مزاجی اور حسنِ اخلاق کی چاشنی یکجا کر دیا جائے تو ایک نام ذہن میں آتا ہے
اور وہ نام ہے صوبہ سندھ کے تیسویں گورنر محترم جناب عشرت العباد خان،جنہیں
سب سے کم عمر گورنر کا اعزاز تو حاصل ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ طویل المدت
گورنر ہونے کی سعادت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ لوگوں سے عقیدت و محبت اور عزت سے
پیش آنا تو جیسے جناب کی گھٹی میں شامل ہے۔ ان کی ان تمام لوازمات کا میں
تو متعرف ہوں ہی ساتھ ساتھ پاکستان کے لوگوں کی بھی یہی رائے ہے۔ اکثر جب
موضوع بحث ان کے حوالے سے چل پڑتا ہے تو کسی نے بھی ان کے خلاف بات کرنا
مناسب نہیں سمجھا جیسا کہ عموماً ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی معاملے پر تو لوگوں
کو اختلافِ رائے ہو ہی جاتا ہے مگر صاحبِ مضمون کیلئے کسی طرف سے کوئی آواز
نہیں آتی ، یہی خاصہ ہے جناب کا کہ ہر ایک کو اپنا سمجھتے ہوئے نرم مزاجی
کے ساتھ اپنے منصب پر بُرا جمان ہیں۔ خدا انہیں لمبی مدت کیلئے سندھ کے
لوگوں پر قائم و دائم رکھے۔ (آمین)
محترم گورنر سندھ جناب عشرت العباد خان صاحب 02مارچ 1963ءکو پیدا ہوئے اور
نارتھ ناظم آباد میں جناب کی رہائش ہے۔ تعلیم کے دوران اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن
اے۔پی۔ایم۔ایس۔او کے لیڈر رہے، بعد میں اور متحدہ قومی موومنٹ میں شامل
ہوئے جب سے آج تک اسی پلیٹ فارم کے سرگرم رُکن ہیں،ابتدائی تعلیم کراچی میں
حاصل کی اس کے بعد M.B.B.S ڈگری ڈاﺅ میڈیکل کالج سے حاصل کیا، 27 دسمبر
2002ءکو گورنر سندھ کے عہدے پر تعینات ہوئے ،( واضح رہے کہ گورنر سندھ میں
قائم تمام جامعات کے جامعات کے چانسلر بھی ہیں، اور بلاشبہ انہوں نے اپنی
بُرد باری سے تعلیم کے شعبے میں اپنے گراں قدر نقوش قائم کئے ہیں) اور جب
سے اب تک عوام الناس کی فلاح و بہبود بشمول صوبے کی فلاح و بہبود اور ترقی
کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ہر طرح کی صورتحال اور حالات سے خوش اسلوبی سے
نمٹنے کی صلاحیت ان میں موجود ہے جو ان کا خاصہ بھی ہے۔
ہم سب کو یہ تو معلوم ہی ہے کہ گورنر صوبے کا آئینی سربراہ اور صدرِ مملکت
کا نمائندہ ہوتا ہے جس کی معیاد پانچ سال ہوتی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لیکر
آج تک 29افراد گورنر سندھ کے عہدے پر کام سر انجام دے چکے ہیں مگر ڈاکٹر
عشرت العباد کان وہ واحد گورنر ہیں جنہوں نے طویل ترین عرصہ تک عہدہ گورنر
پر فائز رہ کر ایک نئی تاریخ اور مثال رقم کی ہے۔ گورنر عشرت العباد کی فہم
و فراست کی وجہ سے آج تک ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان جتنی بھی
ڈیڈ لاک ہوئیں ان کو اپنی تمام تر کوششوں کے ذریعے بحال کیا اور سیاسی درجہ
حرارت کو کم کرنے میں اپنی فہم و فراست اور تدبّر کا استعمال کیا ، ملک میں
جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے میں گورنر صاحب کا کردار فراموش نہیں کیا
جا سکتا۔ موصوف سب سے طویل عرصے تک گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے اپنے دس سال
مکمل کر لیئے ہیں اور انہوں نے اب تک دو صدور، پانچ وزرائے اعظم اور تین
وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بھی کام کرنے کا منفرد ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان دس برسوں
میں انہوں نے صوبہ سندھ کی ترقی و خوشحالی، صوبے میں امن و استحکام ، بھائی
چارگی کے فروغ ، عوامی مسائل کے حل، تعلیم، صحت اور سرمایہ کاری ، کھیل و
ثقافت، اور سب سے بڑھ کر ترقیاتی کاموں میں جس طرح دن رات کام کیا ہے وہ
اپنی مثال آپ ہے۔ ہر مسلک اور مکتبہ فکر کے لوگ اس کا برمال اعتراف کرتے
نظر آتے ہیں،مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پیدا
کرنے میں ان کی ذاتی کوششیں بھی شامل ہیں۔عشرت العباد خان کو طویل عرصے تک
غیر متنازعہ گورنر کا اعزاز بھی ملا اور تاحال وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن
طریقے سے انجام دینے میں مصروف ہیں۔ مسائل چاہے تاجر برادری کی ہو یا کوئی
عوامی سب کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر پورا بھی اترتے
ہیں۔ ان کے ان تمام کاموں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے انہیں نشانِ امتیاز سے بھی
نوازا جا چکا ہے۔
کراچی میں گورنر سندھ کے نام سے ایک انسٹی ٹیوٹ بھی قائم ہے جس کا نام
ڈاکٹر عشرت العباد خان آف اورل ہیلتھ سائنس،(DIKIOHS) کراچی ہے۔ جہاں پر
ڈینٹل ٹیکنالوجی اور ڈینٹل ہائی جن کا کورس بڑے اعتماد کے ساتھ پڑھایا جاتا
ہے۔ اور کیوں نہ ان کے نام کا انسٹی ٹیوٹ قائم ہوتا کیونکہ وہ خود تعلیم
اور تعلیمی میدان میں بہتری کے لئے ہمہ وقت جد و جہد میں مصروفِ عمل رہتے
ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وطیرہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے دس سالہ دور میں شبانہ
روز عوامی بھلائی کے کاموں میں مصروف رہے اور آج بھی ہیں، کام چاہے کسی بھی
نوعیت کا ہو اسے مکمل کرنے کی جب ٹھان لیتے ہیں تو نہ رات دیکھتے ہیں اور
نہ دن ہمہ وقت دورے کرکے جلد از جلد تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ صوبے کے
تمام عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور عوامی ترقی و خوشحالی کے لئے بلا
امتیاز رنگ و نسل، قومیت و زبان ، عقیدہ و مسلک سب کی خدمت کو اپنی اوّلین
ذمہ داریوں میں شمار کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ ہر دلعزیز بھی ہیں اور عوام
انہیں سر آنکھوں پر بٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔
ان کا ایک اور کارنامے کا تاریخ ساز پہلو آپ کو بتاتا چلوں جو کہ ان کی
بہترین صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے جب آپ نے صومالی قزاقوں سے جس
طرح اپنی شبانہ روز کی کاوشوں کے بعد انصار برنی صاحب کے ساتھ ملکر
پاکستانی لوگوں کو چھڑوانے کے لیے نہ صرف کوششیں کیں بلکہ ان لوگوں کو ان
کے گھر تک بھی پہنچایا۔ یہ کام انسانیت دوستی کی بہترین مثالوں میں سے ایک
ہے۔ اور اسی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر بھی اس کاوش پر زبردست پذیرائی ملی،
جس دلجمعی کے ساتھ یہ سارے کام انجام دیئے گئے بلاشبہ ان کی بہترین کاوشوں
میں ایک کامیاب عمل ہے۔ سیلاب زدگان کے دکھ درد میں انہیں بھی تنہا نہیں
چھوڑا بلکہ ان کا دکھ بانٹنے ان کے ہی علاقے میں جاکر ان کی مالی، خوارک،
رہائش اور دیگر ضرورتوں کو پورا کیا۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کوئی
ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی گورنر فنکاروں کے لئے ٹرسٹ بناتا، یہ منفرد
اعزاز بھی ڈاکٹر صاحب کو حاصل ہے کیونکہ انہوں نے نہ صرف فنکاروں کی مدد
جاری رکھی بلکہ فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے باقاعدہ ٹرسٹ بھی قائم کیا
اور اپنی طرف سے ایک خاطر خواہ رقم اس ٹرسٹ میں جمع کرایا۔ نہ صرف فنکاروں
بلکہ دانشوروں، اور کھلاڑیوں کی بھی فلاح بہبود کیلئے کام کر چکے ہیں اور
آج بھی کر رہے ہیں ، یہ تمام احسن اقدام ہیں جن کی بدولت یہ کہا جا سکتا ہے
کہ ان کے دور میں یہ تمام کام بھی قابلِ تحسین ہیں۔
کراچی میں بڑے بڑے پارکس ، فلائی اوورز، پُلیں، شاہراہیں، انڈر پاسسز، اوور
ہیڈ برجز عوام کیلئے بنوائے گئے ، ان کاموں میں بھی موصوف ہر اوّل دستے کا
کردار نبھا تے رہے اور ایسے مزید کام اب بھی جاری و ساری ہیں ،عوامی بہبود
کیلئے ان کی محنتوں ، کاوشوں، ترقی و خوشحالی کا سفر ہنوز جاری ہے ۔ خدا
عوام کے سروں پر ایسے قابلِ قدر رہنما کو تادیرسلامت رکھے۔ مختصراً راقم یہ
کہنے میں حق بجانب ہے کہ ایسے رہنما نصیب سے ملا کرتے ہیں۔ایسی شخصیات پر
لکھنے کی سعی کی جائے تو لکھاری کا قلم کہاں رُکتا ہے اس لئے قلم کے زور کو
روکتے ہوئے اس شعر پر قناعت کرنا چاہوں گاکیونکہ اس جائزے کے تمام پہلوﺅں
کا احاطہ یہ شعر خود کر رہا ہے۔
روشنی دِکھا دوں گا اِ ن اندھیر نگروں میں
اِک ہوا ضیاﺅں کی چار سُو چلا دوں گا |