اسلامی شورائیت کے ہاتھوں سیکولرازم کی ایک اور پسپائی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(مصر کے ریفرنڈم میں اسلامی دستور کی تاریخی فتح)

مصر میں اسلام پسندقیادت کی کامیابی کو سیکولر جمہوریت پسندوں نے ابھی تک قبول نہیں کیا۔جب سے دین دار اوربیدارمغزقیادت قاہرہ میں ایوان ہائے اقتدارتک پہنچی ہے پوری دنیاکالادین عنصرعام طورپر اور امریکہ و یورپ کے سیکولرحکمران اور ان کی آلہ کاربدنام زمانہ خفیہ تنظیمیں خاص طور پر مسلسل ان کے خلاف تانے بانے بن کر ان کو اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کررہی ہیں۔مغربی میڈیااپنے انسانیت دشمن حکمرانوں کے دریا بھی عبورکرجاتاہے لیکن اسلامی قیادتوں کے سوئی ناکے پرسے بھی گزرنا اس کے لیے محال ہے۔خود سیکولرازم کی اقدار کی خلاف ورزی پرجب یورپ کے مختلف ملکوں میں سکارف اور نقاب پر پابندی لگی تو سیکولرمیڈیااس پر مجرمانہ طور پر خاموش رہالیکن اسلامی ممالک میں جمہوری اقدارپامال ہوں تو یہی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتاہے،اسرائیل،بھارت اورنیٹو کے ہاتھوں سینکڑوں خواتین جل مر جائیں تو کچھ نہیں لیکن کسی اسلامی ملک میں ایک خاتون کی بے حرمتی ہو جائے الامان والحفیظ۔یہی دوہرا معیار مغربی میڈیاکا مصر کے بارے میں بھی سامنے آیاہے اور جب سے مصر میں اسلام پسند حکمران برسراقتدارآئے ہیںطاغوتی حکومتوں کے خفیہ ادارے جہاں ان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف پیکار ہیں وہاں مغربی میڈیا،آزادی صحافت کے نام پر، نام نہاد عالمی برادری کامکمل ترجمان بن کر اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف کھل کر زہر اگل رہا ہے۔مصر کا حالیہ دستوری بحران مکمل طور پر ایک داخلی معاملہ ہے اور اس کا آئینی حل موجود ہے جس پر وہاں کی حکومت مصروف عمل بھی ہے لیکن امریکہ اور یورپ کے ممالک اپنے داخلی انتشاراپنے عوام سے چھپانے کے لیے دوسروں کی داخلی معاملات کو اچھالنے کی پالیسی پر کاربند ہیںاور عالمی تناظر میں مصر کے حکمرانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئے ہیں۔

حکومت میں آنے کے بعد مصر کے صدر مرسی نے دستورمیں کچھ اسلامی ترمیمات کی منظوری دی جس پر ملک کے سابقہ حکمرانوں کا پروردہ سیکولرطبقہ پھٹ پڑا اور اس طبقے کو بادی النظر میں خارجی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ملک میں ایک دستوری بحران پیداہو گیا ،رائج الوقت آئین کے مطابق مصر کے صدرنے اس معاملے پر عوام کے پاس جانے کافیصلہ کیااور ملک میں اس بحران کے حل کے لیے عوامی ریفرنڈم کااعلان کر دیا،گویالوہے کو لوہے سے کاٹنے کامنصوبہ بنایا۔یہ ایک واضع فرق ہے سیکولرقیادت اور اسلامی قیادت میں،ماضی قریب میںپاکستان کا سیکولر حکمران آئین وقانون کو پامال کرتے ہوئے مسجدوں تک پر چڑھ دوڑا تھا،ماضی قریب میںہی لیبیاکے سیکولرحکمران نے ہیلی کاپٹروں پر سے اپنے عوام پر گولیاں چلائیں،حال کے سیکولر حکمران ملک شام میں کس آئین اور قانون کے تحت اپنے ہی ملک کی بستیوں پر ہوائی جہازوں سے بمباری کررہے ہیں؟؟سیکولرازم کے پروردہ حکمران اپنے نظریے اور اپنے مغربی آقاو ¿ں کی طرح دورخے اور منافقت سے بھرپور انسان دشمن پالیسیوں پر کاربندرہتے ہیں جبکہ مصر کے اسلام پسندحکمرانوں نے ملکی بحران کے حل کوآمریت کی بجائے آئین و قانون میں تلاش کیااور اور دستوری راستے سے اس کا حل نکال کر دنیاکے سامنے پیش کیا۔آفرین ہے اس اسلامی ذہن کی قیادت پرجس نے فرعونیت کی بجائے شورائیت پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق قوم سے رائے طلب کی اور شاباش ہے اس عظیم قوم کو جس نے اپنے ہی منتخب کی ہوئی دین دار اور غزہ کاسالہاسال سے بندراستہ کھول دینے والی جرات مند قیادت پراعتمادکااظہارکرتے ہوئے صدر محمد مرسی کی تجویزکردہ ترمیمات کو اپنی آشیربادعطاکر دی۔

تحریراسکوائرقاہر پرمصر کے انقلاب کے بعد واقع ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اسلامی ذہن کے نمائندوں کی اکثریت مصری پارلیمان میں پہنچ گئی،مارچ 2012میں مصر کی پارلیمان نے آئینی کمیٹی منتخب کی،لیکن اپریل میں عدالت نے اس کمیٹی کو تحلیل کردیا چنانچہ مصری پارلیمان نے ایک اور کمیٹی منتخب کی تاکہ کچھ آئینی ترمیمات پر بنیادی قانون سازی کی جاسکے۔اس کمیٹی نے طویل مغزماری کے بعد30نومبر کو ایک آئینی مسودہ پیش کردیا۔مسودے کی اسلامی دفعات پر ملک کے سیکولرطبقات کی طرف سے بہت لے دے ہوئی اور صدر محمد مرسی کو بے پناہ تنقید کے ساتھ ساتھ غیرضروری و ناشائستہ جمہوری رویوں کو بھی برداشت کرنا پڑا۔حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صدر مملکت نے عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔صدر محمد مرسی کے اعلان کردہ ریفرنڈم کومصر کے الیکشن کمشن نے دو مرحلوں میں مکمل کیا،دوسرے اورآخری مرحلے کی رائے دہی ہفتہ مورخہ 22دسمبر کو17صوبوںمیںمنعقد ہوئی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق 64%عوام نے اسلامی ترمیمات کے حق میں رائے دی ہے ،جبکہ یہ شرح مغربی میڈےانے رپورٹ کی ہے ۔مصر کے اسلام پسندوں(اسلامک برادرہڈ) نے حمائت میں آنے والی آراءکی شرح 71%بتائی ہے،گویااس معاملے میں بھی مغربی میڈیا نے ڈنڈی مارکر قوم شعیب ؑکی مکروہ سنت کو تازہ کیاہے۔اس سے ایک ہفتہ قبل کی واقع ہونے والی رائے دہی کامرحلہ ان صوبوں میں تھا جہاں گزشتہ حکمرانوں کے اثرات بد ابھی پوری طرح زائل نہیں ہوئے چنانچہ رائے دہی کے پہلے مرحلے میں اسلامی ترمیمات کے حق میں آنے والی رائے کاتناسب صرف 57%رہا،اس کے باوجود بھی کہ یہ تناسب کوئی بہت زیادہ حوصلہ افزانہ تھا،دوسرے مرحلے میں اسلام پسند استقامت پزیررہے اور پہلے سے بہتر نتائج سامنے آئے۔اس طرح مجموعی طور پر ملکی عوام کی 71%اکثریت نے اسلامی ترمیمات کو پسند کیاہے۔ملک میں اکیاون ملین رائے دہندگان ہیں جن میں کم و بیش ایک تہائی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے،جوکہ ایک بہت بڑی تعدادہے۔ریفرنڈم کو شفاف بنانے کے لیے حکومت نے ڈھائی لاکھ کے قریب محافظ اہلکارتعینات کیے تھے اور رائے دہندگی کایہ عمل اعلی عدلیہ کے کچھ سینئر ججوں کی زیرنگرانی مکمل ہواہے۔اس سب کے باوجودبھی اسلامی ترمیمات کے مخالفین نے ریفرنڈم کے جانبدارانہ ہونے کاالزام لگایاہے اور مغربی میڈیا ان کے بے جا الزامات کو شہ سرخیوں کے ساتھ بیان کررہا ہے۔

اسلامی ترمیمات کے مخالفین” نیشنل سالویشن فرنٹ مصر“کاالزام ہے کہ اس طرح ملکی صدر کے پاس بہت زیادہ اختیارات آجائیں گے اور وہ آمر بن جائے گا۔کوئی ان سے پوچھے کہ جب یہ ترمیمات نہیں تھیں تو کیاگزشتہ سیکولر حکمران کسی بدترین آمر سے کم تھے؟؟؟ان لادین قوتوں کو بغیر آئین کے آمریت قبول ہے کیونکہ سابق صدر حسنی مبارک نے کم و بیش تیس سال حکومت کرکے آمریت کی بدترین مثالیں قائم کیں ،لیکن اگراسلام کی کچھ دفعات ان کے ناجائزقول و فعل پرقدغن لگاتی ہیں تو انہیں انسانی حقوق اور شہری آزادیاں یاد آجاتی ہیں۔جبکہ اسلام پسندوں کا کہناہے کہ یہ اسلامی ترمیمات پوری قوم کو باہمی عزت و احترام کی چھتری تلے جمع کر کے وحدت ملت کاباعث بنیں گی۔نئی ترمیمات کے مطابق صدر کی مدت چارچارسال کی دو باریوں تک بڑھادی گئی ہے، قانون سازی کو اسلامی شریعت کاتابع بنایاگیاہے اور قانون سازی کے لیے علماءسے مشاورت بھی تجویزکی گئی ہے،خاص طور پر کسی بھی قانون سازی کے لیے جامع الازہرجیسی تاریخی اہمیت کی حامل جامعہ کے جید علماءکو شریک مشورہ کیاجائے گا۔یہودیوں اور عیسائیوں کی قانون سازی کے لیے ان کی کتب اور ان کے ہی علماءبنیادی مصادر ہوں گے جبکہ نئی ترامیم میں سب مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادیوں کا بھی تحفظ کیاگیاہے۔سیکولر خیالات کے حامل لوگوں کو علماءکاعمل دخل بالکل بھی قبول نہیں ہے کیونکہ ان کے آقا ؤں کویہ خوف ہے کہ جب بھی امت مسلمہ کی قیادت علماءکے ہاتھ میں گئی تو وہ ان میں ایمان کی روح کوبیدار کردیں گے اور ظاہر ہے طاغوت یہ کیسے برداشت کرسکتاہے کہ بدرواحداور خیبرکے میدان پھر سے گرم ہوں۔

مصر میں اسلامی نشاة ثانیہ کا براہ راست مطلب دنیاکے نقشے سے اسرائیل کے ناپاک وجود کامٹ جاناہے۔ٹھیک ہے کہ اسرائیل کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن اس بدمعاش ریاست کاوجود بہت کچھ مسلمانوں کے خاندانی حکمرانوں اور سیکولرقیادت کا بھی مرہون منت ہے۔اس امت مسلمہ کی تاریخ شاہد ہے کہ اسے دشمن نے کم اور غداروں نے زیادہ نقصان پہنچایاہے۔غزہ امت مسلمہ کا ایک رستہ ہوا تازہ زخم ہے اور مصر سے ہی اس زخم کامرہم ممکن ہے،اور جس دن غزہ صحت مندہو چکاوہ دن اسرائیل کے تابوت پر آخری کیل ثابت ہوگاکیونکہ ایک زمانے سے فلسطین کی اکثریت نے بھی سیکولرقیادت کو پاؤں کی ٹھوکر سے مستردکررکھاہے اور غزہ کے علاوہ باقی فلسطین بھی حماس کی چھتری تلے آنے کامتمنی ہے اور یہ صورتحال عالمی ساہوکاروں کو قطعاََ بھی ناقابل قبول ہے۔پس یہ حق جوار مصر کی دین داراور جرات مند قیادت ہی اداکرسکتی ہے۔حالیہ ریفرنڈم کی روشنی میںآنے والے دنوں کاسورج اس خوشخبری کاامین ہے کہ کل امت مسلمہ کے آسمان سے جس طرح کیمونزم اور سوشلزم کے منحوس بادل چھٹ چکے ہیںاسی طرح بہت جلد سیکولرازم کاآسیب بھی نکلنے والا ہے اور مصر ،ترکی اور ایران کی قیادت سمیت کل امت کی مسنداقتدارپرخلافت علی منہاج نبوت کے وارثان جلوہ افروز ہوں گے اور کل انسانیت کے لیے آسودگی و راحت کاباعث بنیں گے،انشاءاﷲ تعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.