ملک کے صدر مقام دہلی میں
ایک لڑکی کی عصمت ریزی کے واقعہ ٔ پر جس جذباتی انداز میں اور جوش و
خروش سے ان سطور کے لکھے جانے کے وقت زبردست منظم احتجاج ہورہا ہے وہ
اپنی نوعیت کا منفرد یوں ہے کہ اس احتجاج کا تعلق (براہ راست یا بظاہر)
کسی سیاسی جماعت یا فرد یا کسی سماجی ادارے یا افراد سے نہیں ہے لیکن
پھر بھی اس احتجاج نے دہلی کو دہلاکر رکھد دیا ہے لیکن سوال یہ ہے اتنے
زبردست احتجاج کی وجہ کیا صرف ایک لڑکی عصمت ریزی پر عوامی غم و غصہ ہے؟
یہ بات بظاہر ناقابل فہم اور یقین ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک ناقابل
تردید حقیقت ہے کہ عوام آئے دن کی بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرپشن اور روز
مرہ کی زندگی کے مسائل کے شکار ہونے کو اب تک بڑے صبر وسکون سے برداشت
کرتے آرہے ہیں ان حالات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی سی چنگاری
شعلوں کو بھڑکانے کا سبب ہوجاتی ہے بقول مخدومؔ محی الدین مرحوم
’’سینکڑوں لاکھوں عوام‘‘۔ ’’سینکڑوں لاکھوں دھڑکتے ہوئے دل‘‘۔ ’’جانے
کس موڑ پر یہ دھن سے دھماکہ بن جائیں‘‘۔ بظاہر لگنا یہی ہے کہ ’’کشمکش
زندگی سے تنگ‘‘ آئے ہوئے لوگ (’’زندگی کے درد کی ایسی قبا بن جانے پر
جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگاکرتے ہیں‘‘) اسی بہانے سڑکوں پر نکل
آئے ہیں جو حکمرانوں کے لیے نوشتہ تقدیر ہے۔
عصمت ریزی کے صرف ایک واقعہ کا اس قدر سنگین بنا جانا قطعی ناقابل فہم
ہے جبکہ دہلی میں ہی 2010ء میں (414ٌ اور 2011ء میں (450) میں عصمت
ریزی کے واقعات ہوئے ہیں تو صرف ایک پر ہی اتنا ہنگامہ کیوں؟ اگر کہا
جائے کہ یہ انسانی ضمیر کے جاگنے کا مسئلہ ہے تو پھر بھی بات کچھ سمجھ
میں نہیں آتی ہے۔
ملک کی ممتاز دانشور، ادیبہ بلکہ ہمارے ملک کی سب سے زیادہ نڈر و بے
خوف حق گو خاتون اروندھتی رائے نے سوال کیا ہے کہ ملک کے لوگوں کا ضمیر
کشمیر اور گجرات میں ہزاروں مسلمانوں لڑکیوں اور مسلم خواتین کی عصمت
پر کیوں خاوش ہیں؟ کشمیر میں ملک کی محافظ فوج کے جیالوں نے وردی میں
ملبوس ہوکر ڈیوٹی کے دوران ہزاروں لڑکیوں اور عورتوں کی آبرو لوٹی (اکثر
صورتوں میں ان کو ہلاک کردیا گیا خاص طور پر شوپیان کے واقعہ کا حال
دنیا جانتی ہے) (’’ر۔ا ‘‘) اور بربریت کا یہ عمل کشمیر میں آج بھی ہر
دن کہیں نہ کہیں ہوتا ہے۔ سنی پور میں بھی ہماری افواج کے جوان منی پور
کی لڑکیوں اور عورتوں کی عزت لوٹا کرتے ہیں۔ انہوں نے مہاراشٹرا کی بھی
مثالیں دیں اور کہا کہ دلت یا غریب عورت کی عزت لوٹا لی جائے تو سب
خاموش رہتے ہیں جبکہ کسی امیر یا اونچی ذات کی خاتون اس ظلم کا شکار
بنے تو ہنگامہ کیوں ہوتا ہے؟ اسی طرح اونچی ذات یا امیر مرد کسی کی عزت
لوٹے تو کوئی آواز کیوں نہیں اٹھتی ہے؟ اروندھتی رائے نے اس سرمایہ
دارانہ اور متعصب ذہنیت کی شدید مذمت کی ہے اور محدود سوچ اور مرعوب
ذہنیت کے افراد کے لیے یہ بلاشبہ حیرت انگیز بیان ہے۔
عام طور پر یہ مانا جارہا ہے کہ یہ ساری ہنگامہ آرائی بغیر منصوبے یا
کسی کے منظم کئے بغیر یہ سب کچھ ہوگیا۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ کسی
خفیہ منصوبے کے تحت کسی تنظیم، گروہ اندر ہی اندر خفیہ کارروائی یا
انتہائی راز دارانہ طریقوں سے یہ مظاہرے منظم کئے لیکن یہ باتیں ترین
قیاس و قابل فہم اس لیے نہیں ہیں کہ راز کے راز رہنے کی بھی ایک حد
ہوتی ہے لیکن جب تعداد ہزاروں میں ہوتو پھر کسی راز کا راز رہنا ممکن
نہیں ہے اس لیے اس سلسلے میں کسی خفیہ تنظیم، گرو ہ یا سامنے نہ آنے
والے منتظمین کی جانب سے کسی خفیہ طریقے سے خفیہ منصوبے کے تحت ایسا
کچھ کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ احتجاج، ریالیاں اور مظاہرے لوگوں کے غم و
غصہ کے اظہار اور ہر دل میں پرورش پانے والے جذبے کا نتیجہ ہے۔ حکومت
سے ناراضگی کے جذبے نے لوگوں میں ہم آہنگی اور ہم خیالی پیدا کردی ہے
اسی جذبے نے پہلے چند لوگوں کو کسی فوری جذبے کے تحت متحدہ اقدام پر
راضی کیا پھر تو سب ’’چلو تو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ مثال بن گئے
اور ’’لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں (ایک نہیں بلکہ کئی) بنتے گئے ‘‘اور
عوام کا غم و غصہ اور حکومت کے خلاف جذبے نے سینکڑوں لاکھوں عوام کو
’’دھن سے دھماکہ‘‘ بنادیا۔
اس ساری کارروائی میں میڈیا کا رول بھی اہم رہا عوامی جذبات سے کھیل یا
ان کا استعمال کرنے والے ٹی وی چینلز نے لوگوں کوبتادیا کہاں جمع ہونا
ہے کیا کرنا ہے۔ لوگوں کا بھاری تعداد میں جمع ہونا آسان ہوگیا۔ میڈیا
بہر حال ’’رجحان ساز (Trend Setter)ہوتا ہے۔ (رجحانات صحت مند ہوسکتے
ہیں اور غیر صحت مند بھی ہوسکتے ہیں) ہمارا میڈیا تو غیر صحت مند
رجحانات کا ہی علم بردار ہے میڈیا نے بھی مظاہروں کو شدید سے شدید تر
بنانے میں اہم حصہ لیا۔
ہمارے ملک حکومتیں (خواہ وہ ریاستی ہوں یا مرکزی) عام طور پر وہی کرتی
ہیں جو ان کی مرضی میں آتا ہے بلکہ عام طور پر عوامی مطالبات کو
نامنظور کرنا بھی ان کی خاص عادت بلکہ طرز حکمرانی ہے چنانچہ مظاہرہ
کرنے والوں کے مطالبات پر اگر شروع ہی میں توجہ دی جاتی اور ان کا عملاً
نفاذ نہ کیا جاتا لیکن رسمی طور پر بھر پور توجہ کی جاتی تو مظاہرین کو
مطمئن کیا جاسکتا تھا۔ برسراقتدار اور حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی عدم
دلچسپی کااظہار کیا مظاہرین کا سارا معاملہ دہلی کی ظالم، سخت گیر اور
نااہل پویس سے رہا جس نے معاملات بگاڑے حد تو یہ ہے کہ مرکز کے زیر
انتظام پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کو خود دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا ڈ گست
نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے خود سری اور اور قوت کا مظاہرہ دہلی پولیس
کی عادت سی ہے ان مظاہرین کیلئے جگہ جگہ راستوں کو بند کرکے عوام الناس
کو بھی پولیس نے خاصہ پریشان کیا اور مظاہرین سے عوامی ہمدردی میں
اضافہ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے کھلی چھوٹ دینے کا یہ
نتیجہ ہے۔
ایک لڑکی کی آبروریزی کا مسئلہ جس طرح سنگین بنایا گیا ہے اس کی مثال
شائد ہی کہیں ملے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس حادثہ کا
دورانیہ اتنا مختصر تو نہیں ہوسکتا کہ جائے حادثہ پر پولیس کے پٹرولنگ
دستوں کے گزرنے کا سوال ہی نہ ہو۔ بہر حال اس واقعہ سے پولیس پٹرولنگ
کے کارآمد ہونے یا پولیس کی فرض شناسی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اب بھی
ستم ظریفی کی انتہاء ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ اس پر بڑا فخر کرہے ہیں کہ
ہم نے ملزموں کو بہت جلد گرفتار کرلیا۔
ان سطور کی اشاعت تک حالات کیا صورت حال اختیار کرتے ہیں اس تعلق سے
پیش قیاسی آسان نہیں ہے تاہم دو باتیں ہر حال میں خصوصی توجہ کی مستحق
ہیں۔
ایک تو یہ کہ اروندھتی رائے نے جن خیالات کااظہار کیا ہے وہ ایسے نہیں
ہیں کہ ان کو آسانی سے نظر انداز کیا جائے جرم سے ہی جرم کی ترغیب ہوتی
ہے سنگھ پریوار کے غنڈے مسلم کش فسادات میں مسلمان لڑکی یا خواتین کی
عزت برباد کریں یا کشمیر میں ہندوستانی فوج اور دوسری سیکوریٹی فورسس
کے سپاہی مسلمان لڑکیوں عورتوں کی آبروریزی کریں یا کسی طرح ان کی
توہین کریں تو ان فوجیوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ضروری ہے یہ
حکومت کشمیر کی کمزوری اور نااہلی ہے کہ وہ مرعوبیت کی وجہ سے کشمیری
خواتین کی بے عزتی افوا ج کے ہاتھوں برداشت کرتے ہیں اور کوئی کارروائی
نہیں کرتے ہیں۔ یہی سوال راقم الحروف نے فاروق عبداﷲ سے جو اس وقت جدہ
آئے تھے بھری پری صحافتی کانفرنس میں کیا تھا (جس کا مناسب جواب نہیں
ملا) اب تو کشمیری اور منی پوری خواتین کی حفاظت کے لیے موثر اور سخت
انتظامات ضروری ہوگئے ہیں۔
حکومت ہند اور ریاستی حکومتیں( خاص طور پر مرکزی حکومت) یہ نوشتہ دیوار
پڑھ لے کہ عوام کے جذبات اتنے شدید ہیں کہ ایک چنگاری شعلے بھڑک سکتے
ہیں عوام کے غم وغصہ کا حکومت ہند اندازکرے۔ ترقی کے نام پر ٹیکس لگاکر
مہنگائی بڑھانا اور کرپشن کے فروغ، عوام کے لیے ناقابل برداشت ہیں
حکومت ہند حسنی مبارک سے بدترنہ سہی لیکن ہندوستانی عوام، مصری عوام سے
زیادہ باشعور زیادہ جذباتی اور طاقتور ہیں وہ کسی بھی جگہ ’’تحریر
اسکوائر‘‘ بناسکتے ہیں اس کی جھلک دہلی میں دیکھی جاچکی ہے۔ |