آئندہ الیکشن ایک امتحان

فخرالدین جی ابراہیم جیسی بے داغ اور غیر جانبدار شخصیت الیکشن کمیشن کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو تو کسی کو شک نہیں رہ جاتا کہ اس بار الیکشن کو شفاف طریقے سے اور دھاندلیوں سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہوگی اور شاید چیف الیکشن کمشنر بھی عمر کے اس حصے میں کسی قسم کا داغ اپنی ذات پر لگنے نہیں دیں گے۔چوراسی سالہ اس چیف الیکشن کمشنر کے حوصلہ کو داد دینی پڑے گی کہ اس عمر میں بھی اسی جوا ں عزمی اور بہادرانہ اندازکے ساتھ شفافیت کے عزم کو لیکر ایک مشکل ترین محاذ پر کھڑے ہیں جس طرح سے ضیاء الحق کے پی سی او ‘پر حلف لینے سے انکار کے وقت ڈٹ کر ایک آمر کا سامنا کیا تھا۔ گورنر سندھ رہے یا پی سی بی میں کہیں بھی خود پر کوئی داغ نہ لگنے دیا‘ غرض ہر محاذ پر جہاں اس ملک کو شفافیت کی ضرورت آن پڑی وہاں پر فخر الدین جی ابراہیم کو پکارنا پڑا۔ اور اب ان کے سامنے ایک ایسا محاذ ہے جس پر معمولی سی غلطی یا غلط فہمی بہت سے مسائل کھڑا کر سکتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ قبلہ نے چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی حاصل کر لی ہے ۔ پرانی حلقہ بندیوں پر ہی الیکشن کروانے کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے کراچی میں فی الحال کسی صورت حال کے بگڑنے کے خدشات کو بھی ختم کر دیا ہے جبکہ شہر قائد میں فوج کی مدد سے گھر گھر ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے بعد کچھ جماعتوں کے ووٹر لسٹوں کے حوالے سے تحفظات کے ختم ہونے کی بھی امید کی جا سکتی ہے ۔

چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کو تعاون کے یقین دہانی سے ایک جانب یہ یقین ہوچلا ہے کہ فوج ہر صورت جمہوریت کی ریل گاڑی کو رواں دواں رکھنا چاہتی ہے اور ملک میں شفاف طریقہ سے انتقال اقتدار کی خواہاں ہے تو دوسری جانب عوام کو یہ بھی کسی حد تک تسلی ہے کہ کسی کشیدگی یا نقص امن و امان کی صورت میں الیکشن کے موقع پر فوج ہر دم سو ل انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی مدد کے لیے تیار ہوگی اور عوام پر سکون ماحول میں اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے اور ممکن ہے کہ دھاندلیوں کی روک تھام کے لیے بھی الیکشن کمیشن پاک آرمی سے تعاون طلب کرے ۔

الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کو بروقت منعقد کروانے اور کسی صورت بھی کسی التوا ء کر برداشت نہ کرنے کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کی گرمی میں تیزی تو آرہی ہے مگر دال میں کچھ کالا ضرور ہے جس کو صرف ان جماعتوں کے سربراہان ہی دیکھ پا رہے ہیں یا کوئی اندرونی خوف ہے۔ اس لیے پی پی پی حکومت کے لیے یہ امتحان کا وقت ہے کہ وہ شکوک کے تابوتوں کو دفن کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو الیکشن کے حوالے سے حتمی طور پر تیاری کے احکامات جاری کرتے ہوئے نگران حکومت کے قیام کی تاریخ کا اعلان کردے۔

دوسری جانب الیکشن کے حوالے سے ایک بڑا امتحان آصف علی زرداری صاحب کا بطور کو چیئرمین پی پی پی اور بطور صدر الیکشن کروانا عوام اور سیاسی لیڈران کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا کر سکتا ہے جس سے الیکشن کی شفافیت کے حوالے سے الیکشن سے قبل ہی انگلیاں اٹھنی شروع ہو سکتی ہے ۔ ضروری ہوگا کہ صدر مملکت اپنے سیاسی عہدے کو آئندہ الیکشن تک چھوڑتے ہوئے غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں بصورت دیگر اگر آئندہ الیکشن میں پی پی پی پھر سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتی ہے تو ممکن ہے کہ 1977 کے الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پھر سے دیکھنی نہ پڑ جائے اور اپوزیشن کی جانب سے صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب پر سرکاری ذرائع اور اپنے عہدے کی طاقت کے استعمال کے الزامات لگتے نظر آئیں۔ ایسے میں آصف علی زرداری صاحب کس طرح سے خود کو غیر جانبدار رکھتے ہوئے ایک شفاف اور دھاندلیوں سے پاک الیکشن کے انعقاد کے لیے اقدامات کرتے ہیں یہ آئندہ چند دن میں عوام کے سامنے آہی جائے گا۔

ایک غیر جانبدار نگران حکومت کا قیام بھی الیکشن کی شفافیت اور الیکشن نتائج پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے‘ یہ ارض پاک جو اب کسی صورت جمہوریت کی جانب گامزن ہے ضروری ہے کہ اس بار نگران حکومت میں وزیر اعظم ‘ وزرائے اعلیٰ یا دیگر وزیر سبھی اس طرح سے منتخب کیے جائیں کہ ان کے دامن پر کسی قسم کی چھنٹیں نہ ہوں ۔ سب سے بڑھ کر نہایت ہی ضروری ہوگا کہ نگران حکومت میں کوئی بھی کسی سیاسی جماعت کا جیالا‘ متوالا یا رکھوالا نہ ہوبلکہ دور دور تک سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے اس کی کسی قسم کی دوستی بھی نہ رہی ہو۔ یہ نگران حکومت کا قیام ہی ہے جو عوام الناس و خواص کی نظروں میں موجودہ حکمرانوں کی عزت کو بڑھا نے یا گھٹانے کا سبب بن سکتا ہے ۔

مختصراً اس بار الیکشن کو شفاف طریقے سے منعقد ہونے ہی میں جمہوریت اور ملک و قوم کے وقار کی بقاء ہے اور سیاستدانوں کی حقیقی جیت بھی۔
NADEEM H. R
About the Author: NADEEM H. R Read More Articles by NADEEM H. R: 36 Articles with 37520 views I have passed MSC and going for PhD very soon. .. View More