23 دسمبرکولاہور میں تحریکِ
منہاج القرآن کے سربراہ جناب علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے فقیدالمثال
تاریخی عوامی جلسہءعام سے خطاب کے دوران جہاں عوام کو شعور ِ آگہی دینے کی
بھرپور کوشش کی وہاںیہ بات بھی سمجھائی کہ ریاست کو بچانے کے لیے آئین و
قانون کی بالادستی بہت ضروری ہوتی ہے ۔ جو لوگ نظام ِ حکومت کو اپنے ملک کے
بنائے ہوئے آئین کے تحت چلانانہیں چاہتے تو وہ لوگ کیونکر جمہوریت کی بات
کرتے ہیں ۔جب پاکستان میں انتخابات کا نظام ہی آئین کے تحت نہ ہو تو کس طرح
ملک میں جمہوریت قائم ہوسکتی ہے اور ایک غیر آئینی اقدام کو کس طرح آئینی
قرار دیا جاسکتا ہے ۔جب تک جمہوریت کو آئین ِ پاکستان کا طابع نہیں کیاجائے
گا تواس کے ثمرات سے عوام الناس کوکس طرح مستفید کیا جاسکتا ہے جمہوریت
کیسے قائم رہے سکتی ہے ۔قارئین کسی بھی کامیاب ریاست کے لیے ضروری ہے کہ اس
ریاست کا نظام مستحکم طریقے سے قائم و دائم رہے کیونکہ کسی بھی ریاست کو
چلانے کے لیے مؤثر وپائیدار اور انصاف کے اصولوں پر مبنی نظام ضروری ہوتا
ہے۔تاکہ ریاست کو سہی سمت پر لے جاکر سہی طورپر چلایا جاسکے ریاست کے ہر
شہری پر لازم ہے چاہے وہ ریاست کے کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یا پھر
ریاست کا ایک عام شہری ہر ایک کے لیے آئین و قانون کی پاسداری لازم ہوتی ہے
ریاست کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے لیے انصاف کا آسان اور فوری حصول ممکن
بنائے اور ہر صورت اس پر عمل درآمد کرائے۔ریاستی معاشرے میں تعلیم کی اہمیت
اتنی ہی اہمیت کی حامل ہونی چاہئیے کہ وہا ں موجود ہر طبقہ اسے اپنا شعار
بناکر اپنی زندگی گزارے کیونکہ پڑھا لکھا معاشرہ ہی کسی ریاست کو مستحکم
نظام کے ساتھ ایک کامیاب ریاست میں بدل سکتا ہے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ
ریاست کے تما م ادارے جو کسی بھی ریاست کے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں انھیں
مضبوط کرنے اور انہیںاپنا کام آزادی کے ساتھ غیر جانب دار طریقے سے انجام
دینے میں مدد فراہم کرے تاکہ ادارے بھی سہی طور پر اپنے کام کی انجام دہی
کو یقینی بنائیں ۔اداروں کا مستحکم ہونا اداروں کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے
اور ترقی کرتے ادارے ہی کسی بھی ملک یا ریاست کی ترقی کے ضامن سمجھے جاتے
ہیں ۔ لہذانظامِ حکومت میں سب سے اولین چیز آئین وقانون کی بالادستی اور
اسے مﺅثر طریقے سے بحال رکھنا ہوتا ہے ۔کوئی بھی ریاست اپنا آئین مرتب کرتے
وقت اس بات کا خیال رکھے کہ اسے اب ریاست کے تما م امور اس آئینی نظام کے
تحت دیکھنے اور چلانے ہیں کیونکہ کسی بھی چیز کو وضع کرنے کے لیے ،اسے
تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے اور اس کے مقاصد کو پہنچنے کے لیے ایک
نظام کی ضرورت ہوتی ہے ۔اللہ رب العزت نے تخلیقِ کائنات کے بعد اسے ایک
نظام کے تحت ہی چلایا اور جاری و ساری رکھاہوا ہے۔لہذا کسی بھی ریاست کو
غیرآئینی طریقے سے چلانا ریاست اور ریاستی عوام کے ساتھ کھلی دشمنی کے
مترادف ہے ۔اور ایسا شخص یا گروہ ملک دشمن ،عوام دشمن، انصاف دشمن کہلانے
کا حقدار ہوگا۔اور ریاست کی تباہی عوام کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرے گا ۔ناکام
ریاست کا تصور آئینی اقدامات سے دوری اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت میں
ہے۔اصولوں کے خلاف چلنا کسی طور بھی خیر کا سبب نہیں بن سکتا۔ یاد ریکھیں
جہاں آئین کی بالادستی نہ ہووہاں کرپشن ،انتخابی دھاندلی،اداروں کے درمیان
تصادم ،فرقہ واریات،دہشتگردی،ظلم وناانصافی،گرتی کمزور معشیت ،اندرونی و
بیرونی دشمنوں کی یلغار ،غرض یہ کہ بے شمار واقعات و سانحات رونما ہوتے
ہیںجو قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں جس کے بعدکچھ نہیں بچتا نہ سیاست نہ ریاست
۔ |