پیر آف دھنکہ شریف کے تیسرے
سالانہ عرس پر خصوصی تحریر
مُرشد روشن ضمیر ، مردِ حق مرد خیبر، عبد رب العالمین ، فدائے رحمتہ
للعالمین محب غوث العالمین ، محبو ب المسملمین
بشیر حیسن ناظم
آپ ان بزرگان عظام اور اسلاف کرام میں سے تھے جنھوں نے والدین کریمین کی
خدمت کی برکت سے اعلیٰ روحانی مقامات حاصل کئے اور لاکھوں انسانوں کی صراط
مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی ۔ آپ پر حضور رحمتہ للعالمین کی خاص نظر
عنایت تھی اور حضور سیدنا ابو محمد میراں محی الدین عبدالقادر جیلانی حسنی
والحسینی ؒ سے براہ راست رابطہ تھا ۔ حضر ت علامہ اقبالؒ کا شعر:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی
زینت ِ بندگان خدا ، جمال الاولیاء، فرالاصفیاءپیکر زہد و تقوی حضرت الحاج
بابا جی سرکار ؒ پرکما حقہ صادق ہے۔ آپ نے اپنی حیات مستعار میں جبلی علاقے
میں نہ صرف فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کی بلکہ احکام الہٰی کے فروغ ، سنت
مطہرہ کی ترویج و اشاعت اور تصوف کے اسرار و رموز سے بھی پردے اٹھائے ۔
قارئین کرام! یہ حقیقت باہرہ ہے کہ انسان کے ہونٹوں پر اگر کوئی خوبصورت
ترین اور جان بخش ودلآویز لفظ رقص کرتا ہے تو وہ لفظ ”ماں “ ہے اور نہایت
ہی اجمل و احسن کلمہ اور ندا”امی “ ہے ۔ یہی وہ لفظ ہے جو امید درجاءاور
عشق و محبت سے لبریز ہے ۔ یہی وہ لفظ شیریں ہے جو اعماق قلوب سے اٹھ کر
زینت ِ زبان اور بہجت جان بنتا ہے ۔ ”ماں “ ہی سب کچھ ہے “ وہ ہمارے اندوہ
و غم میں ہماری ڈھارس ، تسلی و تشفی اور مرہم ہوتی ہے ۔ہمار ے مصائب و آلام
میں اللہ کے بعد آخری امید ، کمزوری اور ضعف میں ہماری زبردست طاقت و
توانائی ہوتی ہے ۔
”ما ں “ ہی سرچشمہ محبت ہے ‘ ماں ہی منبع ہمدردی ہے ‘ ماں ہی مصدر رحم وکرم
ہے ‘ ماں ہی انس و اُلفت ہے اور ماں ہی پیکر عفو و درگزر ہے۔ جو شخص ماں
کھو دیتا ہے وہ ایک ایسی پاکیزہ روح کھو دیتا ہے جو اسے ہر لمحہ اپنی پر
خلوص اور مستجاب دعاﺅں سے نوازتی ہے اور اس کے حفظ و امان میں متواتر کوشاں
رہتی ہے ۔ماں سے جدائی ایک روحانی ادارے سے انقطاع اورایک نورانی و عرفانی
انجمن سے وداع ہوتا ہے اور پاکیزہ مدرسے سے دوری اور دنیوی جنت سے محرومی
ہوتی ہے ۔
حضرت سرکار بابا جی پیر دھنکہ نے مادر محترمہ کی بقلب ِ صمیم خدمت کی ،ان
کو محبت کی نگاہوں سے دیکھا ،ان کے چہرے کو مطلع رحمت حق سمجھ کر اس پر نظر
ڈالی ، ان کی ممتا میں ڈوب گئے ۔ ان کے احترام اور تقد س کے سمندر میں
خواصی کی ۔ انہوں نے بسا اوقات بابا جی قبلہ ؒ کے ایام طفولیت میں ان کو
عقوبت کے پیار سے نوازا۔ یہ سزا، یہ عقوبتیں ، یہ مار پیٹ اصل میں بابا جی
کی اصلاح ِ احوال اور آئندہ فو ز و ظفر کے لئے تھیں ۔ ان کے اعلیٰ مدارج
روحانیہ کے حصول کے لئے تھیں ۔ قربت خداوند کے لئے تھیں۔ خوشنودی رسول
کونین کے لئے تھیں ۔ محبت اولیا ءکے لئے اور مﺅدت غوث الوراءکے لئے تھیں ۔
جس ماں نے حضرت بابا جی ؒ کو مارا پیٹا اسی نے دعائیں دیں کہ رحمت اللہ
تمہاری خدمت میں شاہان وقت اور بادشاہان عصر دعا کے لئے حاضر ہوں گئے ۔یہ
دعا حضر ت اماں جی رحمتہ اللہ علیہا نے وقت کی زلفوں کو تھا م کر دی تھی ۔
راقم الحروف نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ آپ کی خدمت میں ملک کی
مقتدر ہستیاں ، علمائے کرام ، صوفیہ عظام ، امیر کبیر ، وزرائے اعظم جن میں
محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ مرحومہ ، محترم المقام میاں محمد نواز شریف ،
غلام مصطفی جتوئی ، میر تاج محمد جمالی ،آفتاب شیر پاﺅ ، ڈاکٹر پانیزئی ،
بیشتر عسکری قائدین ، ممبر قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی شامل ہیں
نے حاضری دی اور آپ سے دعاﺅں کی استدعا کی ۔ سچ کہا ہے جو حضرت علامہ اقبال
نے کہا ہے :
دربار شہنشاہی سے بہتر
مردان ِ خدا کا آستانہ
حضر ت قبلہ بابا جی سرکار دھنکہ شریف تقریبا ً 1930 ءمیں جسگراں شریف میں
پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش اور ولایت کی نوید و خوشخبری ایک مرد حق کی زبانی
آپ کے والد محترم حضرت محمد اکبر ؒ کو جن کا تعلق زمیندار تنولی قبیلہ سے
تھا مل چکی تھی۔ اس خوشخبری نے حضرت محمد اکبر کو شاد مان و شاد کام کر دیا
۔
حضرت بابا سرکار ؒ کے والد محترم محمد اکبر ؒ طریقت میں سلسلہ چشتیہ کے
رہنما و پیشوا حضرت دیوان آل ِ رسول سجادہ نشین دربار و درگاہ خواجہ
خواجگان حضور معین الدین حسن سنجری ؒ تھے ۔تشکیل پاکستان کے بعد اجمیر شریف
میں حاضری کا سلسلہ منقطع ہو گیا توحضرت بابا جی سرکار ؒ سیدنا مہر علی شاہ،
حضر ت سرکار بابو جی ؒ گولڑہ شریف کی خدمت میں برائے رہنمائی منازل سلوک ،تزکیہ
نفس، تسخیر نفس ، امان اور تسکین و طمانیت قلب کے لئے حاضر ہونے لگے ۔ حضر
ت قبلہ بابو جی ؒ نے اپنی توجہ خاص سے حضرت بابا جی سرکار ؒ کو منازل سلوک
طے کروائیں اور آپ بحمداللہ تعالی ایک صحوی سالک و مشاہد بن کر مخلوق کی
روحانی خدمت پر مامور ہوئے ۔
کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ، حضرت قبلہ بابا جی سرکارؒ دوسرے
بچوں سے طبعاً مختلف تھے ۔ آپ غیر ضروری مشاغل سے پرہیز کرتے ، مقصد حیا ت
پر غور کرتے چونکہ گھر کا ماحول درویشانہ تھا۔ والدین راجع الی اللہ
والرسول تھے ۔بزرگان دین کے معتقد تھے اور عبادت گزار تھے ، اس لئے ان کے
نورانی رجحان و کردار نے بابا جی سرکارؒ پر نہایت ہی خوشگوار اثرات ڈالے ۔
تحصیل علم کے لئے حضرت بابا جی سرکا رؒ کو پرائمری سکول لساں نواب میں داخل
کرایا گیا ۔اس مدرسہ فیوض و برکات میں حضرت سید شیخ فرید شاہ صاحب بحیثیت
استاد متعین تھے ۔ انہوں نے باباجی سرکار ؒ کی پیشانی میں سعادت و ولایت کے
آثار کا چشم حقیقت سے مشاہدہ کر کے بابا جی سرکار ؒ کی طرف اپنی خصوصی توجہ
مبذول کی ۔ پرائمری سکول کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو استاد محترم نے آپ کے
والدین کو مزید دینی تعلیم کے حصول کا مشورہ دیا ۔آپ کے والد محترم نے اس
مشورے کو بہ سر و چشم قبول کیا اور آپ کو درس نظامی سے آراستہ و پیراستہ
ہونے کے لئے برصغیر پاک و ہند کے اشھر ترین جامعہ درس میاں وڈا مغلپورہ
لاہو ر میں داخلہ مل گیا ۔درس میاں وڈا کی روشنی و سناءچار دانگ عالم میں
پھیلی ہوئی تھی ۔ یہاں کے اساتذہ جامعہ الازہر مصر کے اساتذہ سے کسی صورت
میں کم نہ تھے ۔یہاں کا ہر استاد ملت کے مقدر کا ستارہ تھا ۔ان اساتذہ میں
حضرت شیخ حافظ محمد حفیظ ؒ کا شمار عالمان لوذعیت ویلمعیت میں ہوتا تھا ۔
وہ عالم معقول و منقول ہونے کے ساتھ تصوف کے گلزار کے پھولوں کی خوشبو سے
بھی مطیب تھے ۔حافظ صاحب قبلہ کی کرشماتی شخصیت نے حضرت بابا جی سرکار ؒ کو
بہت متاثر کیا اور آپ ان کے مرید ان خاص میں شامل ہو گئے ۔حافظ صاحب ؒ
سلسلہ سہروردیہ سے منسلک تھے ۔
حضرت بابا جی سرکار ؒ درس میاں وڈا سے تحصیل علم کے بعد 1957 ءمیں پاکستان
کے عروس البلاد کراچی میں تشریف لے گئے ۔ کراچی میں جانے کا مقصد تلاش معاش
تھا اور قوت لایموت کے حصول کے بعد دوسرامہتم بالشان مقصد زیارت مزارات
بزرگان عظام تھا ۔
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت بابا جی سرکار ؒ کو والدین کریمین سے
شدیدمحبت تھی وہ ان کو کسی بیماری ،کرب ، حزن یا غم میں نہیں دیکھ سکتے تھے
چنانچہ انہیں کراچی سے بار بار ان کے علاج و معالجہ اور عیادت کے لئے گھر
آنا پڑا ۔ کراچی کے بار بار آزار کش اسفار نے آپ میں ایک شان تحمل و برد
باری پیدا کر دی ۔
والدہ مرحومہ آپ سے متواتر اصرار کرتی رہتیں کہ حضرت بابا جی سرکار ؒ رشتہ
ازدواج میں منسلک ہو جائیں ۔آپ نے والدہ محترمہ کے حکم کی تعمیل میں 1960
ءمیں شادی کر لی ۔آپ کی رفیقہ حیات پیکر تقویٰ و تورع تھیں ۔بابا جی سرکار
ؒ کو اللہ تعالی نے ایک پاکیزہ اطوار اور پاک خُو بچے سے نوازا ۔جسے آپ نے
عبدالستار کے نام سے مسمی کیا ۔حضرت صاحبزادے صاحب اللہ تعالی کے فضل و کرم
سے تما م اسلامی فضائل سے مرصع ہیں۔ طبع میں عجز وانکساری کے جلوے ہیں ۔
اعمال و اشغال اسلامی وروحانی کے پابند ہیں ، سنت نبوی کے محافظ و مروج ہیں
، عشق مصطفی سے سرشار ہیں ، صاحب دیدہ بیدار ہیں ، ولایت اولیاءاللہ کے
نقیب ہیں اور ہر طرح سے مصیب ہیں ۔ان سے مل کے ،گفتگو کر کے اسلاف کی یاد
آتی ہے ۔حضرت صاحبزادہ عبدالستار مدظلہ ، حضرت بابا جی سرکار ؒ دھنکہ شریف
کے حقیقی وارث و جانشین ہیں اور اپنے نام کی نسبت سے مخلوق خدا کی ستاریاں
کرتے ہیں ۔ایں کار از تو آید و مردان چنیں کنند ۔
حضرت بابا جی سرکار ؒ نے والدہ کی مسلسل بیماری کے پیش نظر 1965ءمیں کراچی
کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا ۔مراجعت سے پہلے آپ نے حضرت عبداللہ شاہ
غازی ؒ کے مزار پر انوار پر حاضری دی ۔ ٹھٹھہ میں مکلی کے قبرستان میں
مدفون بزرگوں کے مزارات پر حاضر ہوئے ، پھر لاہو ر میں حضور داتا گنج بخش ؒ
کے مزار پر حاضری دی۔ اپنے استاد محترم حضرت حافظ محمد حفیظ کی ضریح مبارک
کی خاک آنکھوں سے ملی ۔ لاہور میں دیگر اولیائے کبار ؒ کے مزارات پر حاضر
ہوئے ۔پھر شہنشاہ ولایت ، پیکر نجابت و سعادت حضرت قبلہ عالم پیر سید مہر
علی شاہ ؒ کے مزار مرجع خلائق پر حاضر ہوئے ۔ آپ نے آپ کے مزار پر انوار پر
ساری رات گزاری اور روح پُر فتوح قبلہ عالم کے انوار سے مستفیز ہو کر گاﺅں
واپس چلے آئے ۔
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آپ والد محترم کے بعد اپنی والدہ مرحومہ و
مغفورہ کو ہی اپنی تمام امیدوں کا مرجع سمجھتے تھے ۔ان کی دعاﺅں اور خدمت
نے حضرت بابا جی سرکار ؒ کو خلق خدا میں معزز،مﺅقر ، مکرم ،معظم اور محتشم
بنا دیا تھا ۔ان کی علالت کے دوران میں ذرائع نقل و حمل سہل نہیں تھے ۔آپ
اپنی والدہ مرحومہ کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر جسگراں سے قلندر آباد کے
مستشفی (ہسپتال ) میں لایا کرتے اور انہیں نہایت ہی محبت سے دبایا کرتے ۔
مادر کریمہ آپ کودعاﺅں سے نوازتیں جو عرش الہٰی سے درجہ اجابت پاتیں ۔
کراچی سے مراجعت پر آپ نے لساں نواب کے ایک جبل اصلع (گنجے پہاڑ ) کو اپنی
رہائش و مجلس کا شرف بخشا ۔ ا س پہاڑ کی چوٹی کو آپ نے والد محترم کی رحلت
کے بعد مجلس و عبادت کے لئے منتخب کیا۔والد محترم کی رحلت نے آپ کی طبیعت
میں حزن و غم کاایک طوفان پیدا کر دیا ۔ آپ کو جزب و سرور نے اپنے دامن میں
لے لیا۔ دھنکہ شریف کی بے آب و گیاہ گنجی پہاڑی کی قسمت کو چار چاند لگ گئے
کہ اس پرایک عبد پروردگار اور غلام سید ابرار براجمان ہو گیا۔ اس پہاڑی پر
آپ نے زبردست مجاہدات کے ساتھ تجلیات الہٰیہہ کے مشاہدات کئے ۔پہاڑی کا ذرہ
ذرہ چاند سورج کی طرح چمکنے لگا اور حضرت بابا جی سرکار ؒ کی عبادت وریاضت
کا شاہد عادل بنا ۔
لساں نواب کی ایک پہاڑی اور حضرت بابا جی سرکار ؒ کی موجودگی کی لازم و
ملزوم ٹھہری ۔ باباجی سرکار ؒ اپنی موجودگی سے اس کی رونقیں دوبالا کرتے
اور یہ پہاڑی بابا جی سرکار ؒ کی زیارت سے مستفیض رہتی ۔اس پہاڑی پرجس
انداز اور طریقے سے پیر دھنکہ ؒ نے بندگی حق ادا کی اس پر آپ کو نہ صر ف
ارضی مخلوق نے خراج عقیدت پیش کیا بلکہ عرش والوں نے بھی مرحبا و حبذا کی
صدائیں بلند کیں۔ آپ نے اپنے خالق و مالک کی رضا جوئی کے لئے ہر وہ مجاہدہ
کیا جو ممکنات میں تھا ۔آپ نے گرمی و سردی کے شدائد جھیلے ، راہ سلوک کو طے
کرنے میں حائل عفریتوں کو پچھاڑا، گلزار تصوف سے کانٹوں کو اکھاڑا ،نفس کو
لا الہ الا اللہ کی ضربات سے مطیع و منقاد کیا۔ اس دوران میں نہ حبس گرما
کی پروا کی نہ بادو باراں کو خاطر میں لائے اور نہ ژالہ باری سے خائف ہوئے
۔حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ نے اٹھارہ سال تک محل و موقف عبادت کو غیر مسقف
(بغیر چھت ) کے رکھا ۔ آکر حضرت صاحبزادہ عبدالستار مدظلہ ، کے اصرار پر اس
محل ریاضت پر چھت ڈالی گئی ۔1998 ءمیں حضرت بابا جی سرکار ؒ کو بطحا و طیبہ
کی کشش نے اپنی طرف کھینچا ۔ آپ حج بیت اللہ اور زیارات مدینہ منورہ کے لئے
عازم سفر حرمین شریفین ہوئے ۔ حضرت صاحبزادہ عبدالستار آپ کی معیت میں تھے
۔انہوں نے آپ کو آپ کے ضعف اور شیخوخت کے پیش نظر تمام مناسک حج ویل چیئر
اور کندھوں پر اٹھا کر کرائے اور اس طرح دارین کے ثواب کی دولت سمیٹی ۔اس
سفر میں محترم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر بھی موجود تھے ۔بعد ازاں
آپ نے 2002 ءمیں عمرہ اداکیا اور 2005 ءمیں حج اکبر کی سعادت حاصل کی۔ اس
سفر میں آپ کے ہمراہ ملک ارشد صاحب بھی تھے ۔یہ حاضری حرمین آپ کی آخری
حاضری تھی ۔
انسان کی زندگی کے مہ وسال جتنے مقدر ہوتے ہیں گزر تے جاتے ہیں ۔ آخر ایک
وقت مقررہ پر اسے اپنے رفیق اعلیٰ کے جوار رحمت میں جانا ہوتا ہے ۔باباجی
سرکار ؒ نے اکتالیس سال یاد الہٰی ، ذکر محبوب الہٰی اور احکام حق تعالی کی
پابندی میں بتوفیق اللہ کامیابی سے گزارے ۔ وعدہ ملی پورا کیا ۔ مخلوق خدا
کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی ۔
18 فروری 2008 ءکو آپ کو معمولی بخار ہوا ۔کچھ کھانسی کا عارضہ بھی لاحق ہو
گیا۔20 فروری بروز بدھ کو ایک معالج کو بلایا گیا۔آپ نے فرمایا ہمارا علاج
ہو چکا ہے اب تم لوگ زور لگا لو۔بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات تین بجے آپ
نے اپنے لخت جگر صاحبزادہ عبدالستار سے راز ونیاز کی باتیں کیں ، انہیں
دعائیں دیں ۔جمعرات کی صبح کو سارا نظام ان کے حوالے کر کے فرمایا ”اب تم
جانو اور رب جانے ‘ہماری دعائیں اور فیض وبرکت تمہارے ساتھ ہیں ۔ تم ہاتھ
اٹھاﺅ گے تو اللہ ضرور کرم فرمائے گا۔“جمعرات کے دن پانچ بج کر پچاس منٹ پر
آپ نے اپنے سر کو جنبش دی اور خاموش ہو گئے ، یعنی عبد نے معبود کے وصال کی
دعوت کو قبول کر لیا اور ایک استغناءکے ناز سے مرحمت گاہ ربانی اور جلوہ
زار رحمانی کی طرف خراماں خراماں تشریف لے گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لیکر
آج آپ کاتیسرا سالانہ عرس ہے ، جس میں تمام مکاتب فکر کے حضرات موجود ہوں
گے،کچھ غیر مرئی مخلوق بھی ، موجود ہوگی جسے سرکی آنکھ سے نہیں دیکھا جا
سکتا ، اہل نظر دیکھ سکتے ہیں ۔ سب کے سب فیصلہ ربانی پر شاکر و صابر ہیں ۔
مجھ کو معلوم نہ تھا تیری قضا سے پہلے |