شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان
اور نہایت رحم والا ہے
میانوالی شہر ملکِ پاکستان کے چند اُن اہم شہروں میں سے ایک شہر ہے جسکی
الگ پہچان ہے۔میانوالی شہر کی اہم شخصیات ملکِ پاکستان کی سیاسی اورزندگی
کے ہر شعبہ میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔جن میں سے جناب مولانا عبدالستارخان
نیازی(مرحوم)، نواب آف کالاباغ امیر محمد خان(مرحوم)سابق گورنر،ڈاکٹر
شیرافگن خان نیازی (سابق وفاقی وزیر)،عمران خان( چیئرمین پاکستان تحریکِ
انصاف)،نواب آف کالا باغ ملک حمادخان (وفاقی وزیر)، عبیداﷲخان شادی خیل(ضلع
ناظم)،گل حمیدخان روکھڑی(سابق صوبائی وزیر)،انعام اﷲ خان(وفاقی وزیر)،ذکیہ
شاہنواز(مشیرِوزیراعلی پنجاب)،ملک فیروز جوئیہ(صوبائی وزیر)،علی
حیدرنورخان(صوبائی وزیر)،حمیرحیات خان روکھڑی(ایم این اے)،عامر حیات خان
روکھڑی(مرحوم)سابق صوبائی وزیر،عطاءاﷲ عیسی خیلوی(گلوکار)،مصباح الحق(کپتان
پاکستان کرکٹ ٹیم)، سردار سبطین خان(سابق صوبائی وزیر) اور نہ جانے کون کون
سی اہم شخصیات ہیں جو اس وقت میرے علم میں نہیں آرہیں۔یہ چند وہ شخصیات ہیں
جو میانوالی شہر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اور ان سے بھی زیادہ
شخصیات ملکِ پاکستان کے ہر ادارہ میں اعلی جگہوں پر اپنی ذمہ داریاں بڑی
خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں۔
ہر دورِحکومت میں میانوالی شہر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات صوبائی و
قومی اسمبلیوںمیں موجود رہے ہیں۔میانوالی کی عوام کے ووٹوں کی طاقت سے
جیتنے والے لیڈرجب صوبائی و قومی اسمبلیوںمیں جاتے ہیں تو جو وعدے وہ
میانوالی کی غریب عوام سے کر کے جاتے ہیں وہ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔یہاں
پر مقصد لیڈروں کی سیاست کو ٹھیک یا غلط بیان کرنا نہیں۔ یہاں پر مقصد
میانوالی شہر کی قسمت اور لوگوں کے دیکھے گئے خوابوں کو بیان کرنا ہے۔
میانوالی شہر کے علاقے معدنی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی عدم
توجہ کا باعث بنا ہوا ہے۔میانوالی کے منسلک علاقہ چاپری کمرمشانی جو کہ
سلیکا سینڈ پتھر سے مالامال حصہ ہے۔ اس پتھر سے (منرل) شیشہ کا سامان، سوپ
فیکٹریوں کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کے نمائندوں اور سیاسی
لیڈروںنے کبھی یہا ں پر یہ نہیں سوچا کہ کوئی گلاس فیکٹری، سوپ فیکٹری
لگائی جائے جس سے اس علاقہ کو ترقی مل سکے، لوگوں کو روزگار مہیا
ہو۔میانوالی کے اور علاقہ پائی خیل میں ڈولومائیٹ پتھر (منرل) موجود ہے جو
صرف اور صرف پاکستان اسٹیل ملز کراچی کو دیا جاتا ہے لیکن حکومتی عدم توجہ
کے باعث بند پڑا ہے۔ سیکٹروں لوگوں کا روزگار اس کے نہ چلنے کی وجہ سے ختم
ہوگیا ہے۔ لیکن اس پتھر کے یہاں پر موجودگی کے باعث بھی یہاں پر کوئی اسٹیل
ملز نہیں جو کہ اس علاقہ کے لئے لمحہِ فکریہ ہے معاشی نظام روک گیا ہے۔ اگر
یہاں پر اسٹیل ملز ہوتی تو آج یہ قیمتی پتھریوں ضائع نہ ہورہا ہوتا۔اس کے
ساتھ خیرآباد کا علاقہ ہے جہاں پر بے شمار مقدار میں جپسم موجود ہے جو کہ
سیمنٹ فیکٹریوں، کھاد فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کی
طرف سے بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر کوئی انڈسٹری موجود
نہیں۔جس سے لوگوں کو روزگار گورنمنٹ کی سطح پر میسر نہیں۔اس کے علاوہ
میانوالی کے علاقہ موسیٰ خیل (مرمنڈی) میں لاکھوں ٹن مقدار میں اعلیٰ قسم
کا نمک موجود ہے جو بہتر پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے عدم توجہ کا باعث بنا
ہوا ہے۔ گورنمنٹ کے اداروں اور سیاسی لیڈروں کی عدم توجہ اور بہتر حکمتِ
عملی نہ ہونے کی وجہ سے ملک اور میانوالی شہر کو معاشی طور پر اربوں کا
نقصان ہو رہا ہے اور میانوالی میں مسلسل بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا
ہے۔میانوالی میں کوئلہ، ریت، نمک، جپسم، آئرن، ڈولومائیٹ، سلیکا سینڈ اور
نہ جانے کون کون سے ذخائر موجود ہیں ،جو کہ حکومتی عدم توجہ کے باعث ہزاروں
افراد کے رزق کے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اور علاقوں کا مستقبل خطرہ میں پڑا
ہوا ہے۔ یہاں پر مزدور طبقہ دوسرے علاقوں میں روزگار کے لئے دربدر کی
ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اتنے سارے ذخائر موجود
ہونے کے باوجود بھی چند ایک پرائیویٹ فیکٹریوں کے علاوہ گورنمنٹ کی کوئی
فیکٹری، اسٹیل ملز ، انڈسٹری موجود نہیں جو کہ میانوالی کے روشن مستقبل کے
لئے لازمی ہے۔اگر اس طرح ہی میانوالی کو نظر انداز کیا گیا تو شہر اور اس
کے بسنے والوں لوگوں میں خوشحالی آسکتی ہے؟میانوالی معاشی طور پر ترقی کر
سکے گا؟ میری گزارش میانوالی شہراور اس سے منسلکہ علاقوں کے سیاسی لیڈروں
سے کہ خداراہ بے شک عوام آپ کو ووٹ دیتے ہیں اور یہ حق بھی ہے کہ وہ اپنے
نمائندوں کو ووٹ دیں اور کامیاب بنائیں۔لیکن نمائندوں کوبھی سوچنا چاہیے کہ
وہ جن لوگوں کے ووٹوںکی طاقت سے آگے جا رہے ہیں ان کے روشن مستقبل کرنے کے
لئے بھی تو ایسے اقدامات کریں جو خود ان کے علاوہ آنے والی نسلوں کے لئے
مفید ثابت ہوں۔ معاشی مسائل جو کہ سیاسی شخصیات اور حکومتی اہلکاروں کی
مداخلت سے ہی بہتر ہو سکتی ہے۔ میں نے اپنے سابق کالم میں بھی تعلیمی
اداروں پر بحث کی تھی کہ یہاں پر لاءکالج اور نہ ہی میڈیکل کالج موجود ہے
جبکہ اسکی تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے میانوالی شہر اور منسلکہ علاقوں کے
طالبعلم آج بھی دوسرے علاقوں پڑھ رہے ہیں۔ نہ ہی کوئی کیڈٹ کالج اور نہ ہی
یونی ورسٹی کا کیمپس موجود ہے۔ جو کہ طالبعلموں کے روشن مستقبل کے لئے بہت
لمحہِ فکریہ ہے۔ اور یہ طالبعلموں اور میانوالی شہر کے ساتھ زیادتی
ہے۔ہمارے میانوالی کے سیاسی شخصیات ہر دورِ حکومت میں اعلیٰ وزاتوں پر فائز
رہے ہیں کیا کسی نے بھی میانوالی کی ترقی کے لئے کوئی اہم کردار ادا کیا
ہے۔اگر یہ سب لوگوںکے دلوں پر راج کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے میانوالی
کو معاشی طور پر آگے لے کر جائیں۔صنعتوں، اسٹیل ملز، فیکٹریوں کا قیام عمل
لایا جائے تاکہ میانوالی کے غریب شہری محنت و مزدوری کے لئے دوسرے شہروں
اور ملکوں کی بجائے گھروں میں ہی رہ کر روزگار تلاش کر سکیں۔ طالبعلموں کے
لئے تعلیمی ادارے بنائے جائیں۔جن میں سے یونی ورسٹی کیمپس کی اشد ضرورت
ہے۔مریضوں کے لئے باقاعدہ اعلیٰ تشخیصی ہسپتال موجود نہیں۔جہاں پر شہریوں
کو مکمل علاج دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سیکٹروں مریضوں کو چیک کرنے کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے۔ پرائیویٹ
ہسپتالوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اور یہ صر ف اور صرف حکومت
کی عدم توجہ کی وجہ سے ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ناقص انتظامات اور ڈاکٹروں
کی عدم موجودگی کی وجہ سے مریض پرائیویٹ ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔
میانوالی شہر اور منسلکہ علاقوں میں جدید آلات، اعلیٰ ڈاکٹروں اور سٹاف پر
مشتمل ہسپتالوں کا قیام عمل لایا جائے۔ جہاں پر ہر بیماری کا علاج ممکن
ہو۔دوسرے شہروں میں مریضوں کو ریفر کرنے کی بجائے ایسے اقدامات اور
ٹیکنالوجی میانوالی کے سرکاری ہسپتالوں میں لائی جائے جس سے ہر کسی کو علاج
یہی پر دستیاب ہو۔ جب تک لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملیں گے اس وقت
تک کوئی بھی خود کو خوشحال نہیں کہ سکتا۔لہذا ہم سب کو روشن مستقبل کے لئے
اپنے تمام لیڈروں سے مطالبہ کرنا ہوگااور خود کو بھی ان مسائل کے حل کرنے
کے لئے سوچنا ہو گا۔ میری گزارش ہے جناب عمران خان، چیئرمین پاکستان تحریک
انصاف سے کہ میانوالی میں کسی بھی جلسہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ
میانوالی شہر کے شہری ہر کسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن آپ سب کو بھی ان کے
مستقبل کے لئے کوئی حکمت عملی بننا ہوگی۔ خالی نعروں اور وعدوں سے آپ سب
جیت تو سکتے ہیں لیکن اصل جیت تو لوگوں کے دلوںپرراج کرنا ہے۔ اوران کے
دلوں پر راج کرنے کے لئے ہر لیڈر کو ذاتی طور پر سوچنا ہوگا کہ میانوالی
شہر کی تعلیمی اور معاشی ترقی اور بقاءکے لئے ان چیزوں کاقیام ضرروی
ہے۔مجھے اُمید ہے کہ اس پیغام کے بعد کوئی نہ کوئی حکمت عملی اپنائی جائے
گی۔ اﷲ تعالیٰ سے نیک مقاصد کے حل کے لئے دُعا مانگنی چاہیے اور نیک امید
رکھنی چاہیے۔ |