شخصی انقلاب

عمران خان صاحب کا انقلاب لانے والا سونامی تو تھم گیا مگر اب محترم ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی شکل میں ایک اور انقلاب آرہا ہے۔30اکتوبر2011والے عمران خان صاحب والے جلسے کو لیں یا 23دسمبر2012والے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب والے جلسے کو لے لیں،دونوں مینارِ پاکستان پر ہوئے اور دونوں میں لاکھوں کی تعدادمیں عوام نے شرکت کی اور تو اور دونوں پارٹیوں کے قائدین کا نعرہ بھی ایک ہی ہے اور وہ ہے انقلاب۔خیر اب عمران خان صاحب کے سونامی کی رفتار میں کمی واقعہ ہو گئی مگر اب جناب ِ محترم ڈاکٹر طاہرلقادری صاحب کی شائد باری ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واپس اپنے وطن پاکستان آنے میں تھوڑی دیر کر دی۔ڈاکٹر صاحب کچھ مہینے پہلے پاکستان تشریف لے آتے تو شائد پاکستان کی سیاسی صورت حال سے واقف ہو جاتے مگر اب تو الیکشن کو تین مہینے رہ گئے ہیں یعنی پانی سر سے گزر گیا ہے اب کیسے الیکشن کمپین ہو گی اور کیسے انقلاب آئے گا؟

قارئیں:انقلاب کھوکھلے نعروں اور لاکھوں کے جلسے کرنے سے نہیں آتا،ماضی میں بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ پارٹیاں کیسے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو پنڈال میں اکھٹا کر لیتی ہیںمثال کے طور پر اگر ایم کیو ایم یا اے این پی جِن کی پنجاب میں کوئی ساکھ ہی موجود نہیں ہے مینارِپاکستان کا گراﺅنڈ لوگوں سے بھرنے میں کامیاب ہو جائیں گے،جلسوں میں جانے والے وہی مخصوص لوگ میں جو ہر جلسے میں چلے جاتے ہیں چاہے جلسہ عمران خان کا ہو ہا طاہرالقادری کا ۔انقلاب لانے کے لیے جلسے جلوسوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک مہذب اور پڑھے لکھے معاشرے میں شخصی انقلاب آتا ہے نہ کہ سیاسی،یعنی معاشرے کا ہر شخص اپنے آپ کو ٹھیک کر لے،عہد کر لے کہ حرام نہیں کھانا بلکہ حلال روزی کما کر کھانی ہے،اپنی ذمہ داری ہر صورت پوری کرنی ہے نہ کہ کام چور بننا ہے،ایمانداری اور دیانتداری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہے کچھ بھی ہو جاہے اِس طرح مہذب معاشروں میں انقلاب آتے ہیں نہ کہ جلسے جلوسوں سے۔

عرب ممالک میں جو انقلاب آئے وہ شائد انقلاب نہیں بلکہ حکمرانوں کے صرف چہرے بدل دیئے گئے ہیں اب اگر پاکستان میں بھی اُسی طرح کا چہرے بدلنے والا انقلاب آیا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگاالبتہ حکمرانوں کی آپس میں ڈیل(مُک مکا) ہو جانے سے مختلف سیاسی پارٹیوں کو فائدے ہوں گے۔

23دسمبر والے جلسے کا حال آپ کے سامنے ہے۔ایم کیو ایم کے کچھ رہنما ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے جلسے میں شریک ہوئے جس کے بعد ڈاکٹر صاحب اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے رابطے اور گفتگو ہو رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ایک ایسی سیاسی پارٹی سے الحاق کرنا چاہتے ہیں جس پارٹی کی ساکھ سندھ کے علاوہ کسی صوبے میں نہیں ہے۔

اب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب انقلاب لانے کے لیے14 جنوری کا انتظار کر رہے ہیں بھلا پاکستان کا نظام کئی دہائیوں میں ٹھیک نہیں ہو سکا تو اب 18دنوں میں کیسے ٹھیک ہو جائےگا اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ملین مارچ اور عوامی پارلیمنٹ والی دھمکی سے بچنے کے لیے اتنے کم وقت میں سارا نظام کون درست کرے گا؟اگرسیاسی انقلاب لانا ہی تھا تو داکٹر صاحب کو پاکستان جلد لوٹ آنا چاہیے تھا۔اب کچھ لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اگر سیاست میں جگہ بنا لی تو کینڈا کی قومیت کا کیا ہو گا جو ڈاکٹر صاحب کے پاس ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے کو ہے اور آئندہ بھی حکومتی سیٹوں پر اپنے قدم جمانے کے لیے دوسری پارٹیوں کے رہنماﺅں کے ساتھ رابطے جاری ہیں اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے تگ ودور کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی عمران خان صاحب کا سونامی ٹھنڈا ہو گیا ہے اور اب طاہر القادری صاحب کی باری ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب پڑھے لکھے اور انتہائی قابل شخص ہیں جنہوں نے بے شمار ممالک میں جا کر تعلیمی لیکچرز بھی دیے اور اس وقت بھی منحاج القرآن یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔اگر مثبت طریقے اپنا کر ڈاکٹر صاحب عوام کی خدمت کرنا چاہیں تو وہ ان کے لیے ملین مارچ کی نسبت زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا۔
Muhammad Furqan
About the Author: Muhammad Furqan Read More Articles by Muhammad Furqan: 45 Articles with 84349 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.