پی پی کی نئی پیکنگ میں پرانا مال بیچنے کی تیاری

بلاول زرداری نے 27 دسمبر کی شام گڑھی خدا بخش میں جلسہ عام سے اپنے خطاب میں عدلیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، بلاول زرداری نے عدلیہ پر برسنے سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے وقت کے قاضی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو رات کی تاریکیوں میں اٹھنے والا قائد عوام کا جنازہ نظر نہیں آتا، آپ کے پاس پکوڑے کی قیمت، سموسے کی قیمت، چینی کی قیمت، سی این جی کی قیمت مقرر کرنے کا وقت ہے لیکن آپ کے پاس میری ماں کے قاتلوں کو سزا دینے کا وقت نہیں؟

بلاول زرداری نے بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی عدم گرفتاری اور انہیں سزا دینے میں حکومتی ناکامی کا تمام تر ملبہ عدلیہ پر گرانے کی کوشش کی، حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی حکومت 5 برسوں میں اس کیس کا چالان تک مکمل نہیں کرسکی۔ ان کی حکومت کے زیر کنٹرول ایف آئی اے نے کم از کم 8 مرتبہ کیس کے چالان جیسی بنیادی دستاویز کو تبدیل کیا۔ جب عدالت میں چالان ہی پیش نہ ہو تو عدالت فیصلہ کیسے دے سکتی ہے؟

عدلیہ نے ہی اسی کیس میں سابق صدر مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کرکے ان کی پاکستان میں جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا تھا لیکن یہ پی پی حکومت ہی تھی جس نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ملک سے بھگایا اور آج تک اس کی گرفتاری کے لیے کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جہاں تک بھٹو ریفرنس کی بات ہے تو اس کیس میں بھی حکومت نے بابر اعوان کو وکیل بنایا اور پھر خود ہی انہیں برطرف بھی کردیا، اب کئی ماہ سے اس کیس کی پیروی کے لیے وکیل مقرر نہیں کیا جارہا تو کیا اس کے باوجود عدلیہ کو موردالزام ٹھہرانا درست طرز عمل ہے؟

بلاول زرداری نے چیف جسٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کا کام انصاف کرنا ہے یا حکومت؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ کی حکومت کا کام عدالتی فیصلوں پر عمل درآمدکرنا ہے یا انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانا؟ جب حکومت خود ہی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کو ترجیح دے اور اسے اپنے 5 سالہ دور حکومت میں تمام تر اختیارات کے باوجود اپنی پارٹی لیڈر کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی توفیق نہیں ہو تو پھر عدلیہ کو ٹارگٹ کرنا اور اپنی ناکامیوں کو عدلیہ کی جھولی میں ڈالنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟

بلاول زرداری پُرجوش تقریر کرنے میں تو کامیاب ہوگئے مگر انہوں نے اپنی 5 سالہ ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا۔ پی پی کے دور حکومت میں کرپشن کے ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، دنیا کی کرپٹ ترین اقوام میںپاکستان کا درجہ بڑھنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ خود قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے دنیا کے سامنے برملا اعتراف کیا کہ کرپشن سے ملک کو یومیہ 12 ارب کا نقصان ہورہا ہے۔ مشرف دور میں پاکستان کے کل عوامی قرضے 32 سو ارب سے بڑھ کر 67 سو ارب ہوگئے مگر پی پی دور میں 14500 بلین تک جاپہنچے۔ پی پی کے ہی دور حکومت میں ڈالر کی قیمت 62 سے بڑھ کر 97 روپے ہوگئی.... ملک بھر میں دہشت گردی بڑھی، صرف کراچی میں ہزاروں افراد پی پی کی مفاہمتی سیاست کی بھینٹ چڑھے۔ اس دوران سینکڑوں جیالے قتل ہوئے، لیکن بلاول زرداری اپنی والدہ کے قاتلوں کے لیے عدلیہ پر انگلی اٹھاتے وقت ان سب کا ذکر بھول گئے۔

بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی دہرایا، اپنے دور حکومت میں لوگوں سے یہ تینوں ہی چیزیں چھیننے کے بعد وہ کم از کم اس نعرے کا ذکر نہ کرتے۔ 2008ءمیں 13 روپے کلو ملنے والا آٹا اب 35 روپے کلو تک پہنچادیا گیا ہے، اس وقت دنیا میں آٹے کے سب سے زیادہ نرخ پاکستان میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پاس سوائے اس کارنامے کے کہ اس نے 5 برس مکمل کرلیے ہیں کے سوا کچھ نہیں جو وہ عوام کو بتاسکے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کو پی پی پی گزشتہ الیکشن میں جتنا کیش کراسکتی تھی کراچکی اب وہ 5 برس کے بعد پھر اس کارڈ کو استعمال کرنے کا سوچ رہی ہے۔ تو یہ اس کی خام خیالی ہی ہے۔ اب لوگوں کو نعروں اور سہانے مستقبل کے خواب دکھلاکر بے وقف نہیں بنایا جاسکتا۔ جذباتی نعرے لگاکر عوام کو پرانے خواب بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ لوگ خواب اس وقت دیکھتے ہیں جب انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو۔

بلاول زرداری کی تقریر جوشیلی ضرور تھی لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی، البتہ چہرہ نیا ضرور تھا۔ صدر زرداری نے بلاول کو سیاست میں متعارف تو کروادیا ہے مگر فرنٹ پر صدر مملکت ہی رہیں گے۔ ان کی تقریر سے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنایا جارہا ہو۔ جیسے پیپلزپارٹی نئی پیکنگ میں پرانا مال بیچنے کی تیاری کررہی ہو، لیکن پی پی قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی نوجوان نسل سمجھ دار بھی ہے اور باشعور بھی.... خاندانی اقتدار کا سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلایا جاسکتا۔ آیندہ عام انتخابات اب زیادہ دور نہیں رہے، آزاد عدلیہ کی نگرانی میں شفاف انتخابات کے انعقاد کی توقع ہے، اس میں فیصلہ ہوجائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے اور پی پی نے اپنے 5 سالہ دور میں جو بویا اب وہی کاٹے گی، کاٹنے والے نرم و نازک ہاتھ چاہے بلاول بھٹو زرداری ہی کے کیوں نہ ہوں!
Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.