علامہ طاہر القادری کی آمد ....کچھ خوش گمانیاں ،کچھ بدگمانیاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علامہ طاہر القادری ان دنوں ہر جگہ زیر بحث ہیں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ۔آپ جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔علامہ طاہر القادری کی زندگی میں کئی اہم ترین موڑ آئے ۔ان کی شخصیت اور خوش قسمتی کا آغاز ایک خوبصورت ”حسنِ اتفاق “سے ہوا ۔یہ حسن اتفاق ”اتفاق مسجد“ کی امامت وخطابت اور شریف فیملی کی عقیدت سے ہوتا ہوا شریف فیملی کی عنایات واحسانات تک جا پہچا ۔شریف فیملی نے علامہ کو حسب استطاعت نوازا ،وسیع وعریض خطہ اراضی الاٹ کیا ،مراعات دیں۔طاہر القادری کی شخصیت کی اڑان اور اٹھان کی بنیاد یہ ”حسنِ اتفاق“ بنا ۔اس کے بعد ان کی زندگی میں کئی طرح کے مواقع آئے کبھی وہ سندھی ٹوپی زیب تن فرماتے اور ان کے جملہ تلامذہ ومتعلقین بھی اسی ٹوپی کی ترویج وتشہیر میں مصروف عمل دکھائی دیتے ۔وہ پہلے ایک ناکام وکیل تھے ،پھر پروفیسر بنے ،بعدا زاں ڈاکٹر کہلائے ،پھر علامہ کا لقب پایا اور ان دنوں شیخ الاسلام کہلاتے ہیں ۔طاہر القادری نے عوام وخواص کی نظروں میں آنے کے لیے کئی کارنامے سرانجام دئیے اور کئی طرح کے سوانگ رچائے جن میں ان کے معرکة الآراءخواب سب سے زیادہ قابل ذکر ہیںجن کے بارے میں بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ان میں کچھ جھوٹ کی آمیز ش اور کچھ گستاخی رسول کا پہلو دَر آیا تھا ورنہ وہ خواب ایسے تھے جنہوںنے علامہ صاحب کو ”خوابوں کا شہزادہ“جیسا پرکشش عوامی خطاب دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ۔علامہ طاہر القادری پر انتہائی ظالمانہ اور ماہرانہ انداز سے قاتلانہ حمہ ہوا جس پر بعد میں تحقیقات کر کے بلاوجہ اس کا بھانڈہ پھوڑا گیا ورنہ اس قاتلانہ حملے کی وجہ سے علامہ عوامی ہمدردیا ں حاصل کرنے اور عوام الناس میں ایک مظلوم ترین انسان کہلانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئے تھے ۔علامہ طاہر القادری نے پرویز مشرف کے مشہور زمانہ ریفرنڈم میں کھل کر مشرف کی حمایت کی اور ویسے بھی شریف فیملی کی کشتی میں سوار ہو کر انہوں نے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے جس سفر کا آغاز کیا تھا پرویز مشرف کا کندھا استعمال کر کے انہوں نے اس منزل اور انقلاب کو پانے کی اپنی سی سعی کی لیکن اس میں انہیں خاطرخواہ کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے پہلے تو سیاست کو خیر باد کہا ۔علامہ کے سیاست کو خیر باد کہنے کے فیصلے کے بارے میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کااکلوتا درست اور صائب فیصلہ کیا جبکہ بعض لوگ اس فیصلے کے صائب ہونے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ علامہ تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ صرف ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ تائب ہونے کا صائب فیصلہ فرما لیا ۔علامہ نے تحقیق وتصنیف کی دنیا کا رخ کیا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر بنانے کی ٹھانی کیونکہ ہمارے ہاں مدینہ منورہ کے گلی کوچوں کی ہوا سے سرفراز ہو کر اگر چائنہ کا مال بھی آجائے تو اسے بھی متبرک سمجھا جاتا ہے لیکن ہائے افسوس کہ علامہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو انہوں نے کینیڈا میں جا کر ڈیر ے ڈال لیے جس پر بعض لوگ ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا “قسم کی پھبتیاں کستے ہوئے پائے گئے ۔کینڈا کی مبارک فضاؤں سے علامہ کی تحقیقات وتصنیفات کی بھرمار ہونے لگی تو پہلی دفعہ ”منہ بولی تصنیفات وتحقیقات“کی ترکیب اردو زبان میں استعمال ہونے لگی اس سے قبل” منہ بولا بیٹا “،”منہ بولا بھائی “اور ”منہ بولی بہن “ جیسی کئی تراکیب سے اردو زبان کا دامن بھرا ہوا تھا لیکن ”منہ بولی تصنیفا ت وتالیفات “کی ترکیب ذرا اچھوتی ،اجنبی اور نووارد تھی خیر علامہ کی ”منہ بولی تصنیفات وتحقیقات “ نے بہت تہلکہ مچایا اور دنیا بھر سے انہیں داد وتحسین کا خوب خواب خراج دیا جانے لگا ۔

”دہشت گردی “ چونکہ عصر نو کا سکہ رائج الوقت تھا اس لیے علامہ نے سینکڑوں صفحات پر محیط ایک فتویٰ جاری کر کے ان عالی بارگاہوں تک رسائی حاصل کر لی جہاں بہت سوں کے پر جلتے ہیں اور یوں شریف فیملی کے چہیتے علامہ طاہر القادری ،پرویز مشرف کی رفاقت کے راستے سے گزرتے گزرتے دہشت گردی کے خلاف فتوی بازی کی جنگ کی سیڑھی کے ذریعے بہت اونچی بارگاہوں تک جا پہنچے ۔انہوں نے دنیا کے سامنے ایسی ”لچک “کا ”مظاہر ہ“ کیا کہ اپنے تو اپنے پرائے بھی ان کے معترف ہو گئے ....اعتدال پسندی کے ایسے کرشمے ان کے ہاتھ سے ظاہر ہوئے کہ وہ مخلوط تقریبات میں دکھائی دینے لگے .... رواداری کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ ان دنوں ان کی کرسمس کے کیک کاٹتے ہوئے اور پادریوں کے جھرمٹ میں بہت سی تساویر منظر عام پر آنے لگیں ....روشن خیالی کا یہ عالم کہ رقص وسرود اور راگ ،رنگ اور موسیقی کو مشرف بہ تصوف کر لیا ....ان سے لوگوں کی عقید ت ومحبت ایسی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتے ویڈیوکلپس میں ان کی سامنے لوگ سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں ....تنہا پرواز کا ایسا مزاج کہ کوئی ایک عالم دین حتی کہ ان کا اپنا بریلوی مکتبِ فکر ان کا ہمنوا نہیں ....ٹی وی چینلز پر اپنے مقبول عام پروگراموں میں وہ اایسی ایسی احادیث مبارکہ بیان کرتے ،ان کے لبوں سے علم وتحقیق کے ایسے ایسے پھول جھڑتے ہیں کہ عوام الناس ہی کیا اہل علم بھی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ۔البتہ انہوں نے دنیا بھر میں جو تعلیمی اور تنظیمی نیٹ ورک قائم کیا اس کا تحسین نہ کرنا ناانصافی کہلائے گا۔

چند دن قبل ہوایوں کہ ایک صبح جب ہمارے علاقے کے لوگ بیدار ہوئے تو ہر دیوار پر سرخ رنگ سے ” 23دسمبر“اور اس کے سامنے سوالیہ نشان لکھا ہوا پایا ۔21دسمبر کی قیامت آنے والی پیشین گوئی کی وجہ سے پہلے ہی تشویش پائی جا رہی تھی ۔اس پراسرار وال چاکنگ نے لوگوں کو حیران کر دیا چند دن کے تجسس کے بعد اس”23دسمبر؟“کے سامنے جلی حروف میں ”نیا ڈرامہ “ کا لفظ لکھا ہوا نظر آیالوگ یہ سمجھے شاید کوئی نیا ڈرامہ ریلیز ہونے لگا ہے لیکن اگلی شب اسے مٹانے کی کوشش کی گئی اور پھر وال چاکنگ ،اشتہار بازی کا ایک طوفان آگیا اور عقدہ کھلا کہ علامہ طاہر القادی کینیڈا سے تشریف لا رہے ہیں ۔”سیاست نہیں ریاست بچاو ¿“کے خوشنما اور پرفریب نعرے کی بنیاد پر جب سے ان کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا اس وقت سے قارئین کی طرف سے اس موضوع پر لکھنے کا مسلسل تقاضہ ہو رہا ہے ۔کسی کا خیال ہے کہ طاہر القادری شریف فیملی کی نظروں میں آنے سے لے کر پرویز مشرف کا منظور نظر بننے تک اور عوامی اور بین الاقوامی پزیرائی پانے تک زندگی بھر میں شاندار ریکارڈ قائم کیے اس لیے ان کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان دنوں وہ کس کے ”چہیتے اور لاڈلے“ ہیں۔علامہ جس طمطراق سے تشریف لائے اس کو دیکھ کر ہر کسی کا اپنا ہی تجزیہ اور تبصرہ ہے لیکن سب سے زیادہ تین طرح کی آراءکا اظہا رکیا جا رہا ہے ایک رائے یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی چونکہ جزوی ہی سہی اس خطے سے انخلاءکا ارادہ کیے ہوئے ہیں یا اگر انخلاءکا ارادہ نہ بھی ہو تب بھی وہ اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنے احکامات کی تعمیل کے خواہاں ہیں اور وہ گزشتہ ایک عشرے سے وہ وزیر اعظم کے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ ایوان صدر سے رابطہ کیجیے ایوان صدر جاتے ہیں تو کہا جا تا کہ ہم نے اختیارات وزیر اعظم کو سونپ دئیے پھر وزیر اعظم کی طرف لوٹتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں طاقت اور اختیار واقتدار کا مرکز تو راولپنڈی میں ہے وہ جب راولپنڈی یا آبپارہ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ بہت مضبوط اور بہت آزاد ہے ۔انتہائی فرمانبردار حکومتیں ہونے کے باوجود امریکیوں کو جب اس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے تو اگر کوئی سرکش اور باغی قسم کی حکومت آجاتی ہے یا کچھ ایسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جو امریکی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہوں تو یہ صورتحال امریکیوں کے لیے زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے اس لیے وہ حفظ ماتقدم کے طورپر یا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے لیے فتویٰ سازی کی فیکٹریاں لگانے والوں اورفکری ونظریاتی محاذ پر کمک پہنچانے والوں کو نوازنے کا فیصلہ کیا اور علامہ کی آمد اور ان کی سرگرمیاں اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔

دوسری رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ حافظ حسین احمد کے بقول نگرانوں کی نگرانی کے انتظامات کیے جارہے ہیں اور پاکستان میں حکومتیں بانٹنے والوں کے بارے میں اس بدگمانی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید انتخابات کے التواءکے لیے یا نون لیگ اورپی پی کے سرکش عناصر کا راستہ روکنے کے لیے یہ ساری منصوبہ بندی کی جارہی ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اسلام پسندی کے عنصر یا کسی حقیقی اسلامی انقلاب کی چاپ سنائی دینے کے بعد علامہ کی ”شکل “میں اسلام پسندوں اور انقلاب کے لیے بے تاب طبقوں کو لالی پاپ دینے کی کوشش کی ہو ۔علامہ کے بارے میں ان بدگمانیوں کا اظہار کرنے والوں کو ان کے بھاری بھرکم اخراجات ،بے تحاشہ تشہیر ،پاکستان آمد کی ٹائمنگ شکوک وشبہات میں ڈالتی ہے اور اگر علامہ کی قسموں کو دیکھا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی کے ایماءپر پاکستان میں جلوہ افروز نہیں ہوئے بلکہ پوری خلوص اور حسن نیت سے انہوں نے ”انقلاب “برپا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ انقلاب کی کوشش بھی ان کے مشہور زمانہ خوابوں میں سے کسی خواب کا نتیجہ ،کوئی نیا سوانگ ،زندگی کا ایک اور موڑ اور ایک انوکھا تجربہ ہے ....اللہ رنگ برنگے تجربات کے لیے مشق ستم بننے والی اس قوم پر اپنا رحم فرمائے اور اسے بچانے کا نعرہ لگا کر نقصان پہنچانے والوں سے اس کی حفاظت فرمائے ۔آمین
Abdul Quddoos Muhammadi
About the Author: Abdul Quddoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddoos Muhammadi: 120 Articles with 130201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.