Òان سطور کی اشاعت تک نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے تیسری
بار اپنے عہدے کا حلف لے چکے ہونگے۔
گجرات کے انتخابی نتائج یا بی جے پی نہیں نہیں مودی کی کامیابی بعد چند
سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان سوالات کا حتمی جواب شائد جلد نہیں مل سکے
لیکن پھر بھی مختلف مکتب فکر اپنے اپنے خیالات کااظہار کررہے ہیں ہم بھی
اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے خود کو مجبورپاتے ہیں۔
پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا 2014ء میں نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم آسانی
سے بن سکیں گے۔ یہ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب اتنا ہی مشکل ہے۔ یہ سوال
اہم یوں ہے کہ اگر نریندر مودی (اﷲ نہ کرے) وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو جس
طرح انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کہ پہلے دور میں گجرات کو ہندتوا کی تجربہ
گاہ بنادیا تھا اسی طرح وہ سارے ملک کو ہی ہندتوا کی ورکشاپ بنادیں گے اور
سیکولرازم کو ٹھنڈے بستے میں رکھ دیا جائے گا۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ وزیر
اعظم بن کر نریندر مودی کا رویہ اور بھی سخت ہوجائے گا۔ وزیر اعظم بننے سے
قبل انہیں اس عہدے کا امیدوار بننا ہوگا۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بننے کے
لیے ضروری ہے کہ مودی کی بی جے پی این ڈی اے کی قیاد ت کرتے ہوئے اسے قطعی
اکثریت دلادے اور خود بی جے پی زیادہ نشستیں جیت کر این ڈی پر اپنا دبدبہ
قائم کرے۔ اس صورت میں کوئی ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی کے ہی دیگر قدآور
قائدین مودی کی امیدواری قبول کرلیں۔ فی الحال ضرور حالات مودی کے حق میں
ہیں لیکن 16-15ماہ بعد سیاسی حالات، آر ایس ایس اور مودی کے حامی سرمایہ
داروں کا رویہ بدل سکتا ہے۔ سیاسی حالات، آر ایس ایس جیسے انتہا پسندوں اور
سرمایہ داروں کا رویہ و نظریات بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ اگر این ڈی اے
میں بی جے پی فیصلہ کن موقف حاصل نہ کرسکے تو زیادہ نشستیں جیتنے والی کسی
بھی علاقائی پارٹی کا رہنما بھی مودی کو چیالنج کرسکتا ہے۔ کانگریس کا آج
جو کمزور موقف ہے وہ کل مضبوط بھی ہوسکتا ہے اور 2014ء میں کانگریس کا موقف
فیصلہ کن نہ بھی ہوتو این ڈی اے کی حلیف جماعتیں اور دیگر ایسی جماعتیں جو
اس وقف یو پی اے میں شامل نہیں ہیں ہوسِ اقتدار میں یو پی اے میں شامل
ہوسکتی ہیں غرض کہ مودی کا وزیر اعظم بننا متعدد ’’اگر اور لیکن‘‘ کے تابع
ہے اور کیا ممکن ہے؟ کیسے ممکن ہے؟ ان سارے سوالات کا جواب 2014ء کے
پارلیمانی نتائج کے بعد ہی مل سکے گا۔
دوسرا اہم سوال گجرات کے مسلمان ووٹرس کا رویہ ہے اس سلسلے میں بہت ساری
متضاد باتیں کہی جارہی ہیں اس سلسلے میں ہمیں پہلے اس بات کی وضاحت کرنے
دیں کہ گجرات کا مسلمان کسی حال میں کسی صورت سے نریندر مودی کے مظالم بھلا
ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ گجرات کے مسلمان کے آگے کوئی ایسی وجہ نہیں ہے جو
وہ نریندر کی درندگی اور بربریت بھلاکر اس کو معاف کردیں۔ مودی نے تو کبھی
معذرت خواہی کی ہی نہیں ہے۔ بغیر معذرت طلب کئے شرمندگی وندامت کااظہار کئے
کوئی کسی کو معاف نہیں کرتا ہے تو بھلا گجرات کا مسلمان مودی کو کیسے معاف
کرسکتا ہے؟ اب رہی یہ بات کہ گجرات کے مسلمانوں نے مودی کو کیسے ووٹ دیا؟
اس سوال سے پہلے یہ سوال اہم ہے کہ یہ کس طرح معلوم ہوا کہ گجرات کے
مسلمانوں کے کتنے فیصد نے مودی کو ووٹ دیا اس قسم کے اعداد و شمار کا ملنا
ممکن نہیں ہے دوسرا قدرے غیر مستند طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن حلقوں میں
مسلمان ووٹڑس فیصلہ کن موقف رکھتے تھے وہاں کون جیتا؟ بی جے پی نے بے شک
ایسے زیادہ حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ
زیادہ مسلمانوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن اس پر
شبہ کرنے کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ خبر جن الفاظ میں اور جس انداز میں
جاری کی گئی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ ’’یہ مودی کی وسیع النظری والی سیاست کا
نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے 2002کو بھول کر اب آگے کی طرف دیکھتے ہوئے نریندر
مودی کے حق میں زبردست ووٹنگ کی ہے۔ مسلمان یہ جان گئے ہیں کہ گجرات کے
مسلمانوں کا کانگریس نے استحصل کیا ہے‘‘۔ میڈیا پرسنگھ پریوار کا جو زبردست
اثر ہے تو وہ بھلا اس انداز کی خبریں نہ دے گا تو کون دے گا؟ مسلمانوں نے
بی جے پی کو ووٹ بے شک دیا ہے ورنہ (19) (ایسے حلقوں میں جہاں مسلمان ووٹ
فیصلہ کن مانے جاتے ہیں) میں سے (12) میں بی جے پی کامیاب نہ ہوتی!
کانگریسی قائد ڈگ وجئے سنگھ نے اس سلسلے میں جو انکشافات کئے ہیں ان کے
بیان کو بھلے ہی صدفیصد تسلیم نہ کیا جائے لیکن اسے پورا کاا پورا مسترد
بھی کرنا ناانصافی ہے ۔ ڈگ وجئے سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں
کو ان کا ووٹ استعمال کرنے سے روکنے کے لیے ہر قسم کے ناجائز ہتھکنڈے
استعمال کئے مثلاً ڈرانا دھمکانا ووٹ دینے یا بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کے
خطرناک نتائج کی دھمکی دی گئی ووٹنگ کارڈ چھین لئے گئے ووٹ نہ دینے کے لیے
فی رائے دہندہ پرکشش رقم کی رشوت دی گئی۔ ڈگ وجے سنگھ نے یہ بھی انکشاف کیا
کہ مسلم اکثریتی حلقوں میں رائے دہی کا فیصڈ دیگر حلقوں سے کم ہے (اس بات
کی تصدیق بڑی آسانی سے ممکن ہے بی جے پی اس کی تردید متعلقہ اعداد و شمار
پیش کرکے کرسکتی ہے گوکہ ڈگ وجے نے ان الزامات کو ثابت کرنے کا اعلان کیا
ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر ڈگ کے پاس ثبوت ہیں تو وہ اسے الیکشن کمیشن کے
سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ انتخابی عذرداریوں میں استعمال کرسکتے ہیں۔ مسلمان
جماعتیں اور تنظیمیں اگر صرف ان حلقوں کا فیصد رائے دہی حاصل کریں جہاں
مسلمان خاصی تعداد میں ہیں تو مسلمانوں کی رائے دہی کا رجحان معلوم ہوسکتا
ہے۔ 2002ء اور 2007ء میں بھی سنگھ پریوار کی جانب سے مسلمانوں کو ڈرانے،
دھمکانے اور رشوت دے کر رائے دینے سے روکنے یا بی جے پی کووٹ دینے کے لیے
مجبور کرنے کے واقعات سامنے آئے تھے تو 2012ء میں بھی عین ممکن ہے۔
مسلمان اکثریتی حلقوں میں مسلم امیدوار کی ناکامی اور غیر مسلم امیدوار کی
کامیابی کی ایک اہم اور مصدقہ وجہ ایسے حلقوں میں متعدد مسلمان امیدواروں
کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے سے مسلم ووٹس کی تقسیم ہے۔ طاقتور مسلم
امیدوار مسلمانوں کے ووٹس تقسیم کرنے کی غرض سے ان کے خلاف ’’ڈمی‘‘ مسلم
امیدوار کھڑے کرواتے ہیں۔ مسلمانوں میں عدم اتحاد اور برادری کی بنیاد پر
ووٹ دینے کا رجحان اکثر بی جے پی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے یہی گجرات
میں ہوا ہے۔
گجرات کے جن مسلمانوں نے اپنی مرضی سے بی جے پی کوووٹ دیا ہے اس کی وجہ
کانگریس سے مایوسی اور بیزاری ہے کیونکہ کانگریس نے کبھی بھی خود کو ایک
اچھے متبادل کے طور پر پیش نہیں کیا ۔ اس بار تو کانگریس نے حد کردی
مسلمانوں پر زیادتی کی۔ کانگریس کے منشور میں 2002ء کا ذکر ہی نہ تھا۔
مسلمانوں کی بازآبادکاری، کیمپوں سے ان کے گھروں، کانوںِ کھیتوں، دیہاتوں
میں واپسی کا نام نہیں لیا گیا۔ ذکیہ جعفری سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں کی
گئی۔ راہل گاندھی اور سونیا گاندھی نے بھی مسلمانوں کا ذکر ضروری نہ سمجھا
تو بھلا مسلمان کانگریس کو ووٹ کیوں دیتے؟ ناراض ہوکر مسلمانوں نے منفی
ووٹنگ کی یا تو رائے نہیں دی یا کانگریس کو ووٹ نہ دے کر بی جے پی کے علاوہ
کو بھی ووٹ دیگر کانگریس کو نقصان پہنچایا لیکن نتیجہ میں بی جے پی کا
فائدہ ہوگیا۔ مختصر یہ کہ مسلم حلقوں میں بی جے پی کی کامیابی کی متعدد و
وجوہات ہیں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بھاری تعداد نے بی جے پی
کو ووٹ دیا ہے۔
مودی کی کامیابی سے فرقہ پرستی کو فروغ ہونے کے ساتھ سیکولرازم کو کمزور
ہوگیاہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی کی کامیابی کے فرقہ پرستی اور سیکولرازم پر
کیا اثرات مرتکب ہوں گے؟ مودی گجراتی عوام میں فرقہ پرستی کا زہریلا جذبہ
برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ گجرات میں مودی کی کامیابی سے ملک میں
سیکولرازم کے لئے خطرات برقرار ہی نہیں بلکہ مزید بڑھ گئے ہیں۔ سیکولرازم
جو پہلے ہی ملک میں روز بروزکمزور ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف فرقہ پرستی کے
فروغ سے ملک میں دو قومی نظریہ پر عمل زیادہ زور شور سے ہوگا۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہم نے سیکولرازم کو اپنایا اس پر خاطر خواہ عمل نہ
ہوسکا۔ دوسری طرف ہم نے دو قومی نظریہ کو جتنی سختی سے نظریاتی طور پر
مسترد کیا اس پر اتنی ہی شدومد سے عمل کررہے ہیں اور یہ عمل عرصے سے جاری
ہے۔ دو قومی نظریہ پر عمل سیکولرازم کی تکذیب ہی نہیں بلکہ سیکولرازم کو
دفن کرانے کے مماثل ہے۔
گجرات میں مودی نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے آج تک سیکولرازم کو گجرات سے
باہر رکھنے یا سرکاری حکمت عملی اور عوامی زندگی پر سیکولرازم کا سایہ تک
پڑنے نہ دینے میں زبردست کامیابی حاصل کرکے اپنی کامیابی کو ممکن بنایا ہے۔
گجرات میں مودی نے بی جے پی کو اپنے نام سے وابستہ اس تصور اور شہر ت سے
کامیابی دلائی کہ وہ ان کے محافظ ہیں کبھی وہ ’’میاں مشرف‘‘ سے مسلمانوں کو
ڈراتے ہیں تو کبھی ’’میاں احمد پٹیل‘‘ سے۔ ملک میں اس وقت سیکولرازم کو سب
سے زیادہ خطرات مودی کی ذات سے ہیں۔ اس نے نہ صرف سماج کو تقسیم کردیا ہے
بلکہ ایک طبقے کو دوسرے سے ڈراکر ان کو خوف زدہ کرکے خود کو ان کا واحد
محافظ بناکر پیش کیا ہے۔ ابھی یہ رجحان صرف گجرات تک محدود ہے لیکن اگر
مودی وزیر اعظم بننے تو وہ نفرت کے اس چلن کو سارے ملک میں مکمل طور پر نہ
سہی کسی نہ کسی حدتک کردیں گے۔ نہ صرف کانگریس بلکہ دوسری سیکولر جماعتوں
میں بھی سخت ہندوتوا نہ سہی نرم ہندوتوا پر ایقان رکھنے والے موجود ہیں۔
نرم ہندو توا ہی اپنی جگہ خاصہ بڑا خطرہ ہے۔ اس کے ساتھ اگر سخت ہندوتوا کا
بھی فروغ مودی جیسے ششی القلب افراد کی وجہ ہوتو سیکولرازم کی کمزوری سکرات
میں بدل سکتی ہے۔ مودی کی رسم حلف برداری میں سیکولرازم کے دعویداروں کی
شرکت ان کے چہروں سے سیکولرازم کی نقاب اٹھانے کے لیے کافی ہے۔ |