ڈاکٹر عبدالغنی فاروق
(کھوئی ہوئی بینائی دوبارہ پانے کا ایک بے مثال واقعہ)
یہ حیرت انگیز اور ایمان افروز واقعہ مجھے سردار غلام جیلا نی صاحب نے
سنایا ۔ سردار صاحب وحدت روڑ لا ہور پر بجلی کے سامان کے تاجر ہیں اور میرے
گھر کے قریب ہی رہتے ہیں ۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے ۔ بڑے پر وقار ،
سنجید ہ ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باعمل مسلمان ہیں۔ انھو ںنے بتایا کہ وہ
موضع گورا، تحصیل پلندری ، ضلع سدھونتی کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے
ہیں ۔ گورا گاﺅں راولپنڈی سے 96 کلو میٹر جانب مشرق واقع ہے۔ پولیس کالج ،
سہالہ سے آزاد پتن جانے والی سڑک ادھر کو جاتی ہے ۔ سردار صاحب نے واقعہ
کچھ یو ں سنایا : ”میرے گاﺅں میں ریٹائرڈ کےپٹن محمد صدیق خان بڑے ہی نیک
انسان ہیں ۔ وہ انسانی ہمدردی کے پیکر مجسم، فوج سے ریٹائرڈ منٹ کے بعد گا
ﺅ ں ہی میں زمیندارہ کر تے اور رفاہی کامو ں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
رشتے میں میرے پھو پھا ہیں ۔ ان کی والدہ محترمہ مسماة مہر جان ( زوجہ حسین
خان مر حوم 85 سال کی بزرگ خاتون ہیں ۔ وہ اگرچہ ان پڑھ ہیں لیکن قرآن
پڑھنا اور پڑھانا ان کا عمر بھر محبوب ترین مشغلہ رہا ہے ۔ قرآن سے ان کے
شغف کا یہ عالم ہے کہ 1985ءمیں انھو ں نے تقریباً ستر سال کی عمر میں اصرار
کر کے اپنی پوتیوں سے اردو پڑھنا سیکھی ۔ پو تیا ں کالج میں پڑھتی تھیں اور
مذاق کرتی تھیں ” دادی اماں اب آپ اردو پڑھ کر کیا کریں گی؟“ وہ جواب دیتیں
کہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ سمجھنا چاہتی ہوں ۔ چنا نچہ انھوں نے واقعی اردو
پڑھنا سیکھ لیا اور دوسال میں پورا قرآن پاک ترجمے کے ساتھ ختم کر لیا ۔
خدا کا کرنا 1987ءمیں مہر جان کی بائیں آنکھ میں درد شروع ہو گیا جو بڑھتا
چلا گیا ۔ 1988 ءمیں موصوفہ اپنے دوسرے بیٹے محمد نذیر ( سرکا ری ملازم،
کالے پل، کرا چی ) کے پا س چلی گئیں۔ وہا ں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ آنکھ میں
کالا مو تیا اتر آیا ہے اس لیے آپریشن نہیں ہو سکتا ۔ جلد ہی دوسری آنکھ
بھی اسی کیفیت سے دوچار ہو گئی تو 1991 ءمیں الشفاءاسپتال راولپنڈی میں
دائیں آنکھ کا آپریشن ہوا لیکن بینائی میں چنداں فرق نہ پڑا اور ایک سال
بعد دونو ں آنکھو ں کا نو ر کافور ہو گیا ۔ مہر جا ن کی دنیا اندھیر ہو گئی
لیکن انھیں سب سے بڑا صدمہ یہ تھا کہ وہ قرآن کی تلا وت اور زیارت سے محروم
ہوگئی ہیں ۔ اس تصور نے انہیں ہلکا ن کر دیا وہ ماہی بے آب کی طر ح تڑپتی
رہتیں کیونکہ کلام پاک کی نعمت ان سے چھن گئی تھی ۔ انھو ں نے رو رو کر
اپنے بیٹے کےپٹن محمد صدیق سے التجا کی کہ وہ انھیں کسی لائق ڈاکٹر کے پا س
لے جا ئے اور علا ج کرائے تا کہ بینائی کی بحالی کی کوئی صورت نکل سکے ۔
ایک روز کےپٹن صدیق انھیں راولپنڈی کے الشفاءآئی سنٹر میں لے آئے اور وہاں
اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے ان کی آنکھو ں کا معائنہ کروایا ۔ سب کا بالاتفاق
فےصلہ تھا کہ آنکھو ں کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور اب اس کی
بحالی کا ہر گز امکان نہیں ۔ سب ڈاکٹروں نے مہر جان بی بی کو صبر کی تلقین
کی اور اللہ سے دعا کرنے کا مشورہ دیا ۔ لیکن مہر جان کا اصرار تھا کہ ہر
قیمت پر ان کا علا ج کر ایا جا ئے ، وہ بضد رہتیںکہ انہیں کسی دوسرے ڈاکڑ
کے پاس لے جایا جائے ۔ چنا نچہ ما ںکی آہ و زار ی اور اصرار سے متاثر ہو کر
کےپٹن محمد صدیق انہیں فوجی فاﺅنڈیشن اسپتال مورگاہ ( پنڈی ) لے گئے ۔ یہا
ں بھی سب ڈاکٹروں نے مکمل معائنے کے بعد یہی ما یو س کن رپورٹ دی کہ دماغ
میں بینا ئی کا سر چشمہ خشک ہو گیا ہے اور اب اس کی بحالی کسی صورت بھی
ممکن نہیں ۔ 1998 ءمیں مو ضع گورامیں آئی کیمپ لگا۔ ملک کے مختلف اسپتالو ں
سے معروف ماہرین امراض چشم یہا ں جمع ہوئے ۔ ان میں ڈاکٹر محمد منظور ملک (ملتان
آئی کلینک ) ڈاکڑ محمد ایاز ( واپڈا اسپتال راولپنڈی ) ڈاکٹر محمد اجمل اور
ڈاکٹر حمید (شیخ زید اسپتال ، لاہور) شامل تھے ۔ اما ں مہر جان کو کیمپ میں
لایا گیا ۔ وہ سب ڈاکٹروں سے فرداً فرداً ملیں اور اضطراب اور اصرار کے
ساتھ درخواست کی کہ ان کی آنکھو ں کا علا ج کیا جائے ۔ وہ تکرار کے ساتھ
کہتی تھیں ”اللہ مجھے بینائی کی نعمت دوبارہ ضرور فرمائے گا۔ میری زندگی کی
سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ میں قرآن پڑھتی رہوں اور جب دنیا سے کوچ کروں تو
میرے لب قرآن کی تلا وت کر رہے ہوں ۔ “ لیکن کسی بھی ڈاکٹر نے ان کو امید
کی بشارت نہ دی۔ سب نے تاسف اور دکھ کے ساتھ انھیں بتایا کہ ان کی بینائی
کے سوتے خشک ہو چکے ہیں ۔ جن کی بحالی کے دور دور تک امکانا ت نہیں ۔ ڈاکٹر
منظور ملک نے بتایا کہ جب وہ اماں مہر جان کی آنکھو ں کا معائنہ کررہے تھے
تو وہ درود پا ک کا ورد کر رہی تھی اور یقین و اعتما د سے کہہ رہی تھی کہ
اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں روشن کر دے گا -
1999ءکا رمضان آیا تو مہر جان کی بے قراری غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ۔ ان
کا زندگی بھر کامعمو ل تھا کہ وہ خصوصاً رمضان المبارک میں تلا وت کا غیر
معمولی اہتمام کرتیں اور کئی بار قرآن پاک ختم کر لیتیں تھیں ، لیکن بینائی
کے خاتمے نے انھیں زندگی کے سب سے بڑے لطف اور راحت سے دور کر دیا تھا۔ تب
انھو ں نے اپنی محرومی کا مداوا عجیب و غریب طریقے سے کیا ۔ عشق نے محبوب
سے ملا قات کا نیا ڈھنگ ایجا د کر لیا ، اماں مہر جا ن نے ایسا قرآن
منگوایا جس کے ہر صفحے پر ابھری ہوئی تیرہ سطر یں تھیں ۔ وہ یہ قرآن پا ک
گود میں رکھتیں ، اسے کھولتیں ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر ایک سطر پر
انگلی پھیر دیتیں ، اور تیر ہ بار بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر صفحہ مکمل
کر لیتیں....یو ں اس طریقے کے ذریعے 1999 ئ کے رمضان میں انھو ں نے دوبار
قرآن پاک ختم کر لیا ۔ اس رمضان میں اماں مہر جان کو کئی بار خواب آیا کہ
ان کی بینائی لوٹ آئی ہے ، لیکن جب وہ نیند سے بیدار ہوتیںتو ماحول بدستور
تاریک پاتیں ۔ تب رو رو کر آہ و زاری کر تیں، اللہ سے دعائیں کرتیں کہ
الہٰی میری بینائی بحال کر دیجئے تاکہ میں قرآن کے الفا ظ دیکھ اور پڑھ سکو
ں ۔ اس طر ح رمضان بھی گزر گیا ، عیدا لفطر آگئی ، گھر میںقریب و جوار کے
سارے رشتے دار اکٹھے ہو ئے لیکن اما ں مہر جان کے لیے کسی کو دیکھنا ممکن
نہ تھا ، تاہم وہ آوازوں سے سب کو پہچانتی اور سب کا حال احوال پو چھتی
تھیں ۔ 1999 ءکی عیدا لاضحٰی کے موقع پر سردار غلام جیلا نی اپنے گا ﺅ ں
گئے تو اما ں مہر جان نے انہیں بتایا ”پچھلے رمضان کے بعد شوال گزر ا،
ذیقعد آیا ۔ ایک رات میں سوئی ہوئی تھی کہ خواب میں آواز آئی ، تمہاری
بینائی بحال کر دی گئی ہے ۔ میں خوشی سے نہا ل ہو گئی ۔ بیدار ہو ئی تو
اندازہ ہوا کہ فجر کا وقت ہو رہا ہے ۔ وضو کیا، نماز پڑھنے لگی تو آنکھوں
کے سامنے روشنی محسوس ہوئی مجھے جائے نماز نظر آرہی تھی۔ نماز سے فارغ ہو
کر میں کمرے سے باہر صحن میں آئی تو ارد گرد کے مکا نا ت دکھائی دینے لگے ۔
” میں بے پایا ں خوشی سے سر شار ہوگئی لیکن میں نے ضبط کیا اور خاموش رہی ۔
طلو ع آفتا ب کے آثار واضح ہوئے تو مجھے ہر چیز نمایا ں طور پر نظر آنے لگی۔
گر دو نواح کے پہاڑ ، درخت ، آنے جانے والے لو گ سب دکھائی دینے لگے ....میں
نے سو چا ” یہ کوئی خوا ب تو نہیں؟ “ لیکن خیال آیا کہ یہ خواب نہیں“ حقیقت
ہے ۔ میرے مالک نے میری التجائیں سن لی ہیں اور قرآن پاک کی برکت سے مجھے
کھوئی ہوئی بینائی کی بے مثال نعمت دوبارہ مل گئی ہے ۔ تب میں دوبارہ اپنے
کمرے میں آئی ۔ قرآن پاک مجھے دور سے نظر آگیا ۔ میںنے دوڑ کر اسے اٹھا لیا
، سینے سے لگایا ، خوب چوما اور پھو کھول کر دیکھا تو اس کے مبار ک حروف
میرے سامنے جگمگا رہے تھے .... اب میں خو شی سے رونے لگی اور قرآن کو
والہانہ انداز سے چومنے لگی .... ” میرے رونے کی آواز سن کر میری چھوٹی بہو
کر یم جان بھا گ کر آئی اور پو چھا ’ کیا بات ہے ‘ خیر تو ہے ؟ ‘ میں نے
مسرت انگیز سسکیا ں لیتے ہوئے اسے بتایا کہ دیکھو میری آنکھیں ٹھیک ہو گئی
ہیں ‘ میری بینائی لو ٹ آئی ہے اور اب میںباقاعدہ دیکھ کر قرآن پڑھ رہی ہوں
۔ کریم جان بھی خوشی اور تعجب سے نہا ل ہوگئی۔ اس نے زور زور سے آوازیں دے
کر گھر کے سب افرا د کو بلا یا اور انہیں اس معجزے کی اطلاع دی ۔ سب حیران
اور مبہو ت تھے اور اللہ کی حمد و ثنا کرنے لگے ۔ جلدہی یہ اطلا ع سارے گا
ﺅ ں میں پھیل گئی اور سب لوگ آکر مجھے مبارک باد دینے لگے ۔ سب قرآن پاک کے
اس معجزے پر حیران بھی تھے اور مر عوب بھی .... بینائی کی بحالی پر میں نے
خو ب کسر نکالی اور چند دنوں میں قرآن پاک ختم کر لیا ۔ “
مہر جان کی مجمو عی صحت بالکل ٹھیک ہے البتہ عمر کی نسبت سے ضعف بڑھ گیا ہے
۔ اب وہ پہلے کی طر ح بچو ں کو قرآن نہیں پڑھاتیں لیکن دن کا بیشتر حصہ اس
عظیم اور زندہ کتا ب کی تلاوت میں گزارتی ہیں ۔
عبقری سے اقتباس |