شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان
اور نہایت رحم والا ہے
پوری دنیا کے نوجوان نسل کا مستقبل ملک کے حکمرانوں کی بنائی ہوئی
پالیسوںپرسنوار بھی سکتا ہے اور بگڑ بھی سکتا ہے۔ نوجوان ایک ایسے آزاد بہاﺅ
والے پانی جیسا ہوتا ہے جو اپنا راستہ خود بناتا ہے، ہر چیز جو اسکے راستہ
میں رکاوٹ بنے وہ اپنی بھر پور رفتار و طاقت سے تباہ کر دیتا ہے۔ اور ایک
ایسے بڑے سیلاب کی مانند بن جاتا ہے۔جس پر قابو پانے کے لئے اور ملک کو
صحیح حالت میں لانے کے لئے کئی کئی مہنیے اور سال لگ جاتے ہیں۔
بے شک نوجوان نسل کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور عظیم لوگ بڑے دور کی
سوچ رکھنے والے لوگ اس بہتے ہوئے پانی پر قابو پانے کی صلاحیتں رکھتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ اس پانی پر کیسے بند باندھ کر اس کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے،
اس سے کیسے بنجر زمینوں میں ہریالی لائی جا سکتی ہے۔ اور ڈوبتے ہوئے ملک کو
کیسے اس قیمتی پانی سے رواں دواں کیا جاسکتا ہے۔ نوجوان نسل کی ضرورت ہر
طبقہِ فکر اور ہر مرحلہ پر ہوتی ہے۔
حکمران ہی کسی ملک کے نوجوانوں کا مستقبل روشن اور تاریک کرنے میں اہم
کردار ادا کرتے ہیں۔ اب ان حکمرانوں کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ جو
پالیسی بناتے ہیں اگر وہ تمام پالیسی نوجوان طبقہ کے ذہینوں اور ان کے
مفادات اور ملکی حالت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائیں تو کوئی شک نہیں کہ جب
ہمارا ملک اندرونی طور پر مضبوط رہے گا۔ کسی دوسری قوم و ملک کی ہمت نہیں
کہ وہ ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی، معاشی اور سماجی سطح پر اپنے طرف مائل
کرے۔جب ملک میں موجودتعلیمی نظام سب کے لئے ایک ہوگا، میرٹ کو ترجیح دی
جائے گی، زیادہ سے زیادہ کارآمد تعلیمی ادارے بنائیں جائیں گے، اساتذہ کو
سہولیتں دی جائیں گی، ملک میں انڈسٹری لگائیں جائیں گی، روزگار کے مواقع
دئیے جائیں گے۔روزگار کا حصول صرف عارضی سطح یا کسی پالیسی کے تحت نہ
ہوجبکہ مستقبل بنیادوں پر ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا نوجوان باہر جانے کے
خوابوں کو ترک کر دے گا۔
ہمارے طالبعلم جب پڑھائی مکمل کرتا ہے تو اسکا پہلا زندگی کا خواب اور مقصد
اچھا روزگار کا ملنا ہے۔ لیکن وہ جب ملک میں موجود صورت حال کو دیکھتا ہے
کہ بجلی و گیس موجود نہیں، گورنمنٹ کے اداروں میں پہلے ہی سے کتنے کتنے
سالوں سے ڈیلی ویجر اور کنڑیکٹ ملازمین نوکری کے نام پر ذلیل ہو رہے
ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ اور زیادہ بلوں کی بھر
مارنے پہلے ہی سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کروادیا ہے۔
ایسی صورت میں جس نوجوان نے اپنی تعلیم مکمل کی ہو اور وہ اپنی تعلیم کی
بنیاد پر ہر روز جو خواب یکھتا ہے کہ کسی روز اچھی نوکری مل جائے گی، گھر
والے روزانہ جو میری راہ دیکھتے رہتے ہیں ان کو بھی ایک دن خوشخبری سننے کو
ملے گی، پہلی تنخواہ جب ملے گی ، میں جاب میں آکر یہ کر دوں گا وہ کر دوں
گا کے سارے خواب ایک دم چکناچور ہو جاتے ہیں۔ اسی انتظار میں اسکا اگر ایک
یا دو ماہ بھی گزار جاتا ہے تو وہ کچھ ایسا دل برداشتہ ہو جاتا ہے کہ کسی
بھی جگہ پر اپلائی کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اور طرح طرح کے کاروباروں کے طریقے
سوچنے لگتا ہے اور جب نوکری بارے حصول کی طرح کاروبار میں بھی اسی طرح کا
حال دیکھتا ہے تو سوائے دربدر اور دھکوں کے علاوہ کہیں کا نہیں رہتا۔ اور
اسی طرح اسکا مستقبل حکمرانوں کی غلط پالیسوں اور معاشی نظام میں استحکام
نہ ہونے کی وجہ سے تاریک ہو جاتا ہے۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ خداراہ نوجوانوں کے مسائل پر توجہ دیں، ملکی معاشی
نظام کو بہتر کریں۔ حکمران یہ مت بھولیں جن نوجوانوں کے ووٹوں سے یہ جیت
سکتے ہیں تو ان ہی نوجوانوں کے ووٹ نہ دینے سے یہ ہار بھی سکتے ہیں۔ اگر
ملک کو تبدیل کرناہے تو پہلے تعلیم، میرٹ، روزگار اور معاشی نظام کو بہتر
کریں۔
اربوں روپوں کے معدنی ذخائر حکمرانوں کی عدم توجہ کے باعث ضائع ہو رہے
ہیں۔غیر ملکی اداروں کو مکمل پالیسی اور تحفظ کے تحت ان ذخائر تک رسائی کے
لئے مدد کی جائے تاکہ اس سے غیر ملکی لوگوں کا ملک پاکستان پر اعتماد بحال
ہو اور ساتھ ساتھ ملک معاشی طور پر بھی ترقی کی جانب گامزن ہو۔ ملک میں
موجود حکومتی اراضی کو جو بے کار پڑی ہے اسکو کارآمد بنانے کے لئے صنعتی
اداروں کی تعمیر کی جائے تاکہ روزگار کے مواقع پیداہوں۔
حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی ملک کی سا لمیت کے لئے
سوچنا ہوگا۔اپنے ذہینوں کو ملک کے مثبت مفاد کے لئے سوچنا ہوگا۔اگر ملکی
حکمران اور نوجوان نسل اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھائیں تو وہ دن
دور نہیں کہ جب دوسرے ملکوں کے سرمایہ کار، طالبعلم اور روزگار کے لئے لوگ
پاکستان کا رُخ کریں۔ |