آوازدے رہی ہے تمہیں ممکنات کی دُنیا

اس میں شک نہیں کہ کسی بھی ملک ، قوم اورریاست کے مستقبل کاانحصاراُس ملک، قوم اورریاست کے نوجوانوں پرمنحصرہے ۔ اگراُس ملک یاقوم کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کوبرﺅے کارلاکرملک کامستقبل سنوارنے کی کوششیں کریں تویقینااُس ملک یاقوم کامستقبل روشن ہوسکتاہے ۔ کسی بھی ملک کےلئے نوجوان ایسے ہیں جیسے کہ آسمان میں چمکتے ستارے۔آسمان میں بے شمارستارے ہوتے ہیں ، کچھ ستاروں کی چمک اتنی زیادہ ہوتی ہے اُس کی روشنی سے زمین پربسنے والے انسان فیض یاب ہوتے ہیں جبکہ کچھ ستاروں کی چمک کم ہوتی ہے ۔اسی طرح ہرنوجوان کی صلاحیتیں الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہیں ۔اکثروبیشترسُنااورکہاجاتاہے کہ طلباءکواپناکیئریئراُسی میدان میں بنانے کاموقعہ فراہم کرناچاہیئے جس کی طرف اُس کارجحان ہوتاکہ وہ اپنے اندرپنہاں صلاحیتوں کابھرپورمظاہرہ کرسکے۔ کچھ نوجوانوں کارجحان تعلیم کی طرف بالکل کم ہوتاہے لیکن عملی زندگی میں وہ خود اپنے لیے ایسی راہیں تلاش کرکے ایساکام کرجاتے ہیں جس پرعام آدمی کایقین کرپانامشکل ہوتاہے۔بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ طلباءکی منشاءکے برعکس یعنی جس شعبے ،مضمون یافیلڈکی طرف اُس کارجحان نہیں ہوتاہے اُس کی طرف اُسے زبردستی دھکیل دیاجاتاہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ اس طرح کی کارکردگی پیش نہیں کرپاتا جس طرح سے وہ اپنے پسندکے شعبے میں انجام دے سکتاتھا۔ میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہرنوجوان میں اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں کاخزانہ پنہاں رکھاہواہے لیکن اُس کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرکے اُسے اُس کے رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی طرف مائل کرنے سے ہی اُس کی صلاحیتوں کافائدہ ملک وقوم کوپہنچ سکتاہے۔ اب سوال پیداہوتاہے کہ طلباءکی صلاحیتوں کی نشاندہی کون کرے ؟۔اس معاملے میں طلباءکے والدین، اساتذہ اورسماج کادانشورطبقہ ہی باہمی روابط سے اُن کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

کوئی بھی طالب علم جب چھوٹی جماعتیں پاس کرکے اگلی جماعتوں کی طرف بڑھ رہاہوتاہے اُسے معلوم نہیں ہوتاکہ اُسے کون سے مضامین رکھنے چاہیئں جواُس کے مستقبل کوسنوارنے میں کام آئیں گے ،اس کے لیے لازمی ہے کہ تمام والدین اوراساتذہ کوچاہیئے کہ وہ طالب علم کی صلاحیتوں کے عین مطابق طالب علم کی مضامین رکھوانے میں رہنمائی کریں اورسب سے اہم کہ اس طالب علم کاایک Goal یعنی مقصد(منزل) مقررکیاجائے اوراسی کے مطابق اُس کواضافی جانکاری فراہم کرنے کااہتمام کیاجائے۔یہ بھی خیال رکھاجائے کہ طالب علم پرکسی بھی قسم کادباﺅ نہ ڈالاجائے تاکہ وہ اطمینان سے بغیر کسی جھجھک کے اپنی منزل کی جانب اپنے قدم بڑھانے کاباقاعدہ آغازکرسکے اوراسے اپنی منزل کاسفرطے کرنے میں کسی قسم کی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔

جب ایک نوجوان اپنی منزل کے سفرکاآغازکرلیتاہے تواُسے راستے میں مختلف نوعیت کے حالات سے گذرناپڑتاہے ۔دشوارگذارمرحلے بھی آتے ہیں اورآسان ترین لمحات بھی ۔دشوارگذارمرحلوں سے کس طرح گذرناہوتاہے وہ سب حالات سکھادیتے ہیں بشرطیکہ اُس نوجوان کے ارادے میں دم ہوناچاہیئے۔ بقول شاعر
مشکلوں سے جوڈرتے ہیں وہ ذلیل وخوارہوتے ہیں
بدل دے جووقت کی رفتاراُسے خوددارکہتے ہیں
یوں توڈوبتی ہیں ہزاروں کشتیاں ملاحوں کے بھروسے
چپوجوخودچلاتے ہیں وہی اکثرپارہوتے ہیں۔

میرامقصدمضمون کے ذریعے نوجوانوں کوچنداہم نوجوانوں کے مصمم ارادوں سے آشنائی کراناہے جنھوں نے زندگی میں مشکل ترین حالات کاسامناکرکے اپنی صلاحیتوں کالوہامنواکراپناایک منفردمقام بنایا۔

ڈاکٹرشاہ فیصل:ریاست جموں وکشمیرسے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کانام کسی تعارف کامحتاج نہیں ۔وادی کشمیرکے ایک سرکاری سکول سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان نے بارہویں جماعت کے بعدایم بی بی ایس کےلئے کوالیفائی کیااورتین چاربرس ڈاکٹری کی تربیت حاصل کی لیکن انہیں سکون نہیں ملا۔پھروالدہ کی اجازت سے آئی اے ایس کی تیاری کرناشروع کردی چونکہ والدصاحب کی وفات ہوچکی تھی ۔ شاعرمشرق علامہ اقبال اورفیض احمدفیض کی شاعری سے حددرجہ متاثرشاہ فیصل نے عوام کی خدمت کےلئے آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹیوسروسز)کی تیاری کےلئے ایک سال کاتعین کیااورکسی بھی کوچنگ سنٹرسے تربیت نہیں لی۔ خودہی کتابوں کامطالعہ کیااوربلاآخرسال2010 میں ہندوستان بھرمیں اہم امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے ریاست جموں وکشمیرکانام فخرسے بلندکیااوریہ ثابت کیاکہ اگرریاست جموں وکشمیرکے چاہیں توملکی اوربین الاقوامی سطح پراپنانام پیداکرسکتے ہیں۔

ڈاکٹرشاہ فیصل ایک لیکچرکے دوران کہتے ہیں کہ
”میں نے جب دوستوں وغیر ہ سے کہاکہ میں آئی اے ایس کروں گاتوانہوں نے کہاکہ کشمیری آئی اے ایس نہیں کرسکتے ، میں نے اُنہیں چیلنج کیاکہ اگلے برس پہلے پچاس میں میرانام ہوگا“

ڈاکٹرشاہ فیصل طلباءسے کہتے ہیں کہ
”اگرآپ نے کے اے ایس یاآئی اے ایس بنناہے تواقبال کی شاعری پڑھو، اورانڈیاکوجانو۔1500روپے کی اخباریں ایک سال میں پڑھو، ایک نیشنل اخبارروزانہ پڑھواورملک کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کرلو، اورہمت اورحوصلہ رکھواوراپنے اندریقین کوپالوکہ میں کامیاب ہوجاﺅں گا“

شاہ فیصل کی کامیابی سے اب بے شمارجموں وکشمیرکے طلباءKAS،اورIAS مسابقتی امتحان میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوارہے ہیں۔ جن میں جتندرگوسوامی ،بھدرواہ۔سحریش اصغر، اعجازاحمد، ڈاکٹرشاہداقبال، اعجازقیصر، مدثرحسین، محمداشرف، وغیرہ قابل ذکرہیں۔

محمدشاہ نوازچودھری۔حال ہی میں آل انڈیایوتھ کانگریس کی طرف سے ریاست جموں وکشمیرمیں پردیش یوتھ کانگریس کے انتخابات کرائے گئے جس میں ریاست کے نوجوانوں کی اکثریت نے شاہ نوازچودھری کوپردیش یوتھ کانگریس کا ریاستی صدرمنتخب کیا ۔کانگریس جماعت کے اس تنظیمی انتخاب کااصل مقصدقابلیت کی بناءپرنوجوانوں کی تقرری کرناتھاتاکہ باصلاحیت نوجوان سیاسی میدان میں آئیں اورکانگریس جماعت کے پلیٹ فارم سے عوامی خدمت کابیڑہ اُٹھائیں۔ محمدشاہ نوازچودھری پردیش یوتھ کانگریس کے ریاستی صدرمنتخب ہونے سے قبل آل انڈیایوتھ کانگریس کے قومی سیکرٹری کے عہدے پراپنی ذمہ دارایاں سرانجام دے چکے تھے جس کے باعث آل انڈیایوتھ کانگریس کے قائد راہل گاندھی کوشاہ نوازکی صلاحیتوں سے آشناتھے ۔راہل گاندھی جانتے تھے کہ شاہنوازکوجوبھی ذمہ داری سونپی جائے گی وہ جانفشانی سے اُس کوپوراکرنے کی کوشش کریں گے لہذااُنہوں نے شاہ نوازچودھری کوریاست جموں وکشمیرکے نوجوانوں کوبیدارکرنے کی ذمہ داری سونپی اورگاﺅں گاﺅں جاکرنوجوانوں کی ممبرشپ کرنے کاحکم دیاتاکہ باصلاحیت نوجوانوں کی تلاش کی جاسکے ۔اپنی ذمہ داریوں کوبلاجھجھک شاہنوازنے قبول کیااورریاست کے مختلف دوردرازعلاقہ جات میںجاکر نوجوانوں میں بیداری لانے کےلئے کافی تگ ودوکی جس کاثمرآج ہم سب کے سامنے ہے ۔نوجوانوں کی اکثریت نے شاہنوازچودھری کی نوجوانوںکے مسائل تئیں فکراورعوام کی خدمت کے جذبے کوکافی سراہااورپھرممبرشپ مہم کے دوران بڑھ چڑھ کرشاہنوازکی حمایت کی۔آج جبکہ شاہ نوازچودھری پردیش یوتھ کانگریس ریاست جموں وکشمیرکے ریاستی صدرمنتخب ہوچکے ہیں ۔شاہنوازکی اس کامیابی سے پوری ریاست کے نوجوان نہ صرف خوش ہیں بلکہ انہیں بھی اپنی پروازآسمانوں میں دکھائی دینے لگی ہے ۔چندسال قبل کس کویقین تھاکہ ضلع پونچھ کے علاقہ سرنکوٹ کایہ نوجوان بہت جلدترقی کی بلندیوں کوچھولے گا۔کسی کویقین ہویانہ ہوشاہ نوازکویقین تھاکہ وہ ایک دِن ضروربلندیوں کوچھوئے گا۔شاہنوازچودھری کی کامیابی اُن کی محنت، مشقت، دیانتداری کانتیجہ ہے ۔یوتھ کانگریس کے انتخابات اورشاہنوازچودھری کی کامیابی سے ریاست کے نوجوانوں میں ایک خوشی کی لہرپائی جاتی ہے اوراُن میں بھی کامیابی کے حصول کی جدوجہدکاجذبہ پیداہوگیاہے جوکہ ریاست جموں وکشمیرکے مستقبل کےلئے نیک شگون ہے ۔شاہنوازچودھری جہاں بھی جارہے ہیں اُن کاوالہانہ استقبال کیاجارہاہے اورنوجوان اپنے قائدکی کامیابی سے سرشارنظرآرہے ہیں۔شاہنوازچودھری نے جموں یونیورسٹی سے ایل۔ ایل بی یعنی قانون کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ قانون کی تعلیم نوجوانوں کو کس قدرانصاف حاصل کرنے اورانصاف فراہم کرنے کادرس دیتی ہے اُس کااندازہ شاہنوازچودھری کے جموں یونیورسٹی میں دوران تعلیم طلباءکے حقوق کےلئے کی گئی جدوجہدسے ہوجاتاہے ۔شاہنوازحق کی لڑائی لڑتاتھا جس پراُس وقت کے وائس چانسلربھی اُس کوداددیتے تھے۔ بقول صدرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی پروفیسرشہاب عنایت ملک ۔

”شاہنوازجموں یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کررہاتھاوہ میرے قریب اُس وقت آیاجب پروفیسرامیتابھ مٹوجموں یونیورسٹی کے وائس چانسلرتھے اورمیں اسسٹنٹ ڈین سٹوڈنٹ ویلفیئرتھا۔Law اسکول سے شاہنوازCultural سیکرٹری بھی تھا۔اسے پڑھائی کے دوران ہی ادب اورآرٹ سے بھی دلچسپی تھی اس کے علاوہ طلباءکی سیاست میں بھی مصروف رہتاتھا۔ اُس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بڑوں سے مشورہ ضرورکرتاتھااورانہیں عزت دینابھی جانتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب طلباءکے مسائل سے متعلق بات کرتاتھاتوبڑے دلائل کے ساتھ اپنی بات بھی منواتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ پروفیسرامیتابھ مٹوبھی ہمیشہ اچھے کاموں کے لیے شاہنوازکوشاباشی دیتے تھے ۔ شاہنوازیونیورسٹی میں ہمیشہ سچ کاساتھ دیتاتھا“۔

اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کہ شاہ نوازچودھری کو غریب عوام کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہمیشہ حق وسچ کی لڑائی لڑنے کاموقعہ فراہم کرے ۔

علی اکبر ناطق: ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ اس نام سے واقف ہوں یاکچھ لوگ اس شخص کوذاتی طورپربھی جانتے ہوں لیکن ہوسکتاہے کہ بیشتراس نوجوان پاکستانی نامورشاعرکی زندگی کے بنیادی حقائق سے آگاہی نہ رکھتے ہوں۔ علی اکبرناطق اوکاڑہ پاکستان کے رہنے والے ہیں اوران کی زندگی کاآغازایک مزدورکی حیثیت سے ہوا۔ مزدورکی زندگی میں علم وتعلیم کاعمل دخل کچھ زیادہ نہیں ہوتا اورنہ ہی فنون لطیفہ اورفائن آرٹس کے ساتھ دلچسپی اوروابستگی ہوتی ہے ۔مزدوراکثر فکرمعاش، فکرروزگارکے باعث زندگی کی رنگینیوں ، زاویوںجنھیں گردشِ ایام کہتے ہیں سے لطف اندوزہونے سے محروم رہتے ہیں حالانکہ وہ گردشِ ایام سے سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں۔ علی اکبرناطق کے والدمزدوری کرتے تھے ، داداصاحب کوگینٹھیاہوگیاتھا، گھرکے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے جس کے پیش نظرعلی اکبرناطق نے 15سال کی عمرمیں والدکے ساتھ مزدوری کرناشروع کردی حالانکہ اُس کے والدناطق کوتعلیم دلواناچاہتے ہیں ۔ علی اکبرناطق چونکہ گھرمیں بڑے بیٹے تھے اُنہوں نے دیکھاکہ گھرکاگذارہ نہیں چل رہاہے پھراپنے والدمحترم کیساتھ مزدوری کرناشروع کردی ۔میٹرک کے بعدتعلیم کاسلسلہ ٹوٹ گیالیکن کتابوں سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اوربعدمیں پرائیویٹ طورپرپڑھتے رہے اورمحنت ،دیانتداری اورلگن سے آج پاکستان کے معروف شعراءمیں شمارہوتے ہیں۔گذشتہ برس سال 2011 کے دسمبرمیں جموں یونیورسٹی میں منعقدہ ”جشن فیض “بین الاقوامی سیمی نارمیں بھی علی اکبرناطق نے اپناکلام پیش کیاتھاجس کوجموں کے معززین وادبی حلقوںنے کافی سراہاتھا۔

اب پیش ہیں علی اکبرناطق کے ساتھ پاکستانی ٹیلی ویژن پرایک انٹرویوکے چنداقتباسات
اینکرکے سوال کے جواب میں علی اکبرکہتے ہیں کہ
”میں چھوٹاتھاتوآم توڑتے تھے اورچٹنی بناکراورکبھی مرچوں اورکبھی ویسے ہی نہ ملی اورکبھی سوکھی ہی کھالی ، والدکی محنت اورجفاکشی پرروناآتاہے ، بڑے مشکل دِن دیکھے ہی، مجھے اوائل عمری میں ہی مزدوری کرنی پڑی لیکن میں نے کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا۔انہوں نے بتایاکہ مجھے بچپن سے ہی شاعری سے شغف ہوگیاتھااورمیں نے سب سے پہلی نظم مسجدکامیناربناتے ہوئے ، سیمنٹ کی بوری کے ٹکڑے کے ساتھ لگے کاغذکوپھاڑکرلکھی جس کاعنوان تھا”نام ونسب“جوکہ اس طرح تھی۔
نام ونسب
اے میرانام ونسب پوچھنے والے سن لے
میرے اجدادکی قبروں کے پرانے کتبے
جن کی تحریرمہہ وسال کے فتنوں کی نقیب
جن کی بوسیدہ سلیںسیم زدہ شوخ زدہ
آسیب زمانے کے رہے جن کا نصیب
پشت درپشت بلافصل وہ اجدادمیرے
اپنے آقاﺅں کی منشاتھی مشیت اُن کی
اگروہ زندہ تھے زندوں میں شامل کب تھے
مرنے پرفقط بوجھ تھی میت اُن کی
جن کومکتب سے لگاﺅتھانہ مقتل کی خبر
جونہ ظالم تھے نہ ظالم کے مقابل آئے
جن کی مسندپرنظرتھی نہ ہی زنداں ہی سفر
اے میرانام ونسبت پوچھنے والے سن
ایسے بے دام غلاموں کی نشانی میں ہوں۔

دوران انٹرویوناطق بتاتے ہیں کہ
”مزدوروں کیساتھ بڑابے رحمانہ سلوک ہوتاہے لیکن میں اورمیراوالدعلاقہ میں اپنے کام میںماہرتھے اورہم راج گیری یعنی میسن کاکام کرتے تھے ۔ ناطق نے کہاکہ اگرمزدوراپنے کام میں ماہرہے تووہ دوسرے پرحاوی رہتاہے اوراگرمزدورمیں کوئی خامی ہے تووہ منہ لٹکالیتاہے “۔

ناطق کہتے ہیں کہ
”میرے داداانڈیاسے آئے تھے اوریہاں پرمقامی لوگوں کے مقابلے میں انڈیاسے آنے والے کتابوں کی زیادہ توجہ دیتے تھے اورمیرے والدصاحب بھی کتابیں پڑھاکرتے تھے ۔ علی اکبرناطق
میرے دادا۔پڑھنے والاآدمی تھا۔و ہ بھی علاقہ میں۔جتنی کتابیں علاقہ میںپڑھی ہیں کسی نے نہیں پڑھیں تھیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے گھرکے سامنے ایک لائبریری تھی جس کاسنگ بنیادمحمدحسین آزاداورمولوی کریم الدین نے رکھاتھا“۔

ٹی وی اینکرعلی اکبرناطق کی جدوجہدسے متاثرہوکرکہتے ہیں کہ اگرمسجدکے گنبدبنانے والا، کیچڑاورگارے کاکام کرنے والاشخص اعلیٰ درجہ کاشاعربن سکتاہے تویقیناہرکوئی پڑھ سکتاہے ۔

علی اکبرناطق کہتے یں کہ
”اگرہم کتابوں کامطالعہ کرتے ہیں تواُس سے ہمارے اندربردباری پیداہوجاتی ہے اورمیں آٹھ گھنٹے کام کرتاتھاتواُس کے بعدسوتانہیں تھابلکہ کتابیں پڑھتارہتاتھا۔میں دوپہرکوجب 12 سے 1بجے کھانے کاوقت ہوتاتھاتب بھی کتاب پڑھتاتھااورکئی مرتبہ کھاناکھاتے کھاتے لقمہ بھول جاتے تھااوراس پرمجھے گاﺅں والے چھیڑاکرتے ہیں اورکہتے تھے کہ یہ پاگل”مبین “ ہے اوردماغی طورکھسک گیاہے“۔

وہ مزیدکہتے ہیں کہ
”میں نے آج تک کام کواپنے سرپرسوارنہیں کیاکیونکہ میں جانتاتھاکہ میری جان اس کام سے ایک دن چھوٹنی ہے جس کے لیے میں نے پرائیویٹ طورپرپڑھناشروع کیا، میری دسویں کے بعدکے امتحانات میں چارچارسال کاوقفہ ہے لیکن میں نے لگاتارکوشش کی کیونکہ مجھے سب کچھ آتاتھالیکن ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جانے کےلئے بحرطورڈگری کی ضرورت تھی “۔

علی اکبرناطق کہتے ہیں
”میراخواب تھاکہ میں لاہورکالج اوریونیورسٹی میں داخلہ لوں جوکہ میں نے حال ہی میں لاہوریونیورسٹی میں داخلہ لے کرپوراکیاہے “

علی اکبرناطق کے کلام کی پختگی پرایک نظرڈالیے !
غزل
ربطہ اتنانہ بڑھا
دِل کے گنہگاروں سے
ہم سلامت نہیںلوٹے کبھی درباروں سے
بک گئی دولتِ یعقوب یہاں پرارضاں
اتناآسان نہ گذرمصرکے بازاروں سے
صبح اُمیدنے چاہت سے پکارالیکن
فاصلے طے نہ ہوئے ہجرکے بیماروں سے
شب کے آوارہ مزاجوں کی خبرہے کس کو
راستہ پوچھ کے چلتے رہے دیواروں سے
منہ چھپائے لئے پھرتاہے عدووآب اپنا
بھرگیاتیرامقام میرے عزاداروں سے

علی اکبرناطق کہتے ہیں
”میں نے آج تک کسی کی بحراورزمین میں شعرنہیں لکھااورنہ میں نے آج تک کسی شاعرکی نظرشعرکیاکہ فیض کی نظر، منیرنیازی کی نظر۔ میں سوچتاہوں کہ اگرمیںکسی کی بحریازمین پرشعرلکھتاہوں یااُس جیسالکھناچاہتاہوں یالکھتاہوں تومیری اپنی شخصیت کہاں گئی “

لطیف جذبوں کے امین لوگ اکثرزندگی کی اس تلخ جدوجہدسے کتراجاتے ہیں اورکمزورواقع ہوتے ہیں لیکن علی اکبرناطق نے ثابت کیاہے کہ اچھی گفتار، اچھے خیالات ، نرم احساسات رکھنے کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ آدمی کے اندروہ سختی نہیںجوکہ حالات کامقابلہ کرنے کےلئے چاہیئے ہوتی ہے۔
(انٹرویوکی جھلکیاں انٹرنیٹ کی یوٹیوب ویب سائٹ سے ڈاﺅن لوڈکی ہیں)

ابرارالحق: موسیقی کے اِس درخشندہ ستارے کاجنم 21 جولائی 1968ءکونارووال (سیالکوٹ) مغربی پنجاب پاکستان میں ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گجرات اورراولپنڈی سے حاصل کرنے کے بعدسرسیدکالج راولپنڈی سے گریجوکیشن کی اورقائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادسے سوشل سائنسزمیں ماسٹرڈگری حاصل کی۔ابرارنے اپنے کیرئیرکاآغازاتھیسن کالج سے بطورمدرس کیامگرابرار گلوکاربنناچاہتے تھے لیکن اس کے گھروالے ابرارکوگلوکاری کی طرف جانے کےلئے اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن آخرکارابرارنے شش وپنج سے نکلنے کافیصلہ کرتے ہوئے گلوکاری کاپیشہ اپنانے کاحتمی فیصلہ کیااوراس میدان میں کودپڑے۔

ابرارکواپنے پہلے گانے کی ریکارڈنگ کےلئے لگ بھگ آٹھ برسوں تک میوزک کمپنیوں کے پاس جاکرمنتیں کرنی پڑیں لیکن وہ ہارانہیں کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے آشناتھااورجانتاتھاکہ میں ایک دِن ضرورکامیاب ہوجاﺅں گا۔اسی یقین کانتیجہ تھاکہ جب ابرارکی اس پہلی میوزک البم ”Billo De Ghar“لانچ ہوئی توراتوں رات ابرارکی قسمت بلندیوں پرپہنچ گئی۔اس البم کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس البم کی ایک کروڑساٹھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ابرارالحق بنیادی طورپراپنی مادری زبان پنجابی میں گاتے ہیں تاہم کچھ گانے اُردومیں اورکچھ پنجابی اورانگریزی کی آمیزش بھی ہیں۔ ابرار الحق کی آوازوموسیقی میں جومٹھاس پائی جاتی ہے وہ سُننے والوں کے دِلوں میں اُترتی ہی چلی جاتی ہے۔اب تک خدادادصلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے ابرارالحق نے بھنگڑا،پاپ اورفوک یعنی موسیقی کے تینوں میدانوں میں اپنی صلاحیت کے جوہردکھائے ہیں۔

ابرارالحق نے ایک انٹرویوکے دوران جذبہ حُب الوطنی کااظہاراس طرح کیاہے کہ” میں اپنے ملک کے خلاف نہیں سُن سکتا“۔انہوں نے کہاکہ ”مجھے صرف اگریہ خوشخبری دی جائے کہ پاکستان کامستقبل محفوظ ہے تومجھے اطمینان ہوجاتاہے “پاکستان بھرمیں ابرارالحق کونہ صرف ایک گلوکار، موسیقاراورگیت کارکے طورپرجاناجاتاہے بلکہ ایک فلاحی اورسیاسی شخصیت بھی تسلیم کیاجاتاہے۔

ابرارالحق کے اندرجوپاکستانی عوام کی مشکلات کودورکرنے اورقوم کودُنیاکی بہترین قوم بنانے کاجو جذبہ ہے وہ بہت کم لوگوں میں پایاجاتاہے ۔ملک کے بگڑے ہو ئے حالات اورعوام کی حالت زارکومدنظررکھتے ہوئے ابرار نے پاکستان میں عوامی فلاح کے جذبے کوفروغ دینے اورعوام کی خدمت کرنے کےلئے ایک فلاحی ادارہ ”سہارافارلائف ٹرسٹ“ قائم کیاہے ۔ فلاحی مشن کے تحت ہی نامورگلوکارنے نارووال میں صغٰری شفیع میڈیکل کمپلیکس بھی قائم کیاہے جہاں پرلوگوں کومفت علاج ومعالجہ کی سہولیت دی جارہی ہے۔ ابرارکے فلاحی جذبہ سے متاثرہوکرعوام بھی ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کوبڑھ چڑھ کرعطیات دیتے ہے ۔ ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کے تحت ابرار نے پاکستانی عوام کی وہ خدمت کی ہے جوبڑے بڑے سیاستدان نہیں کرپائے ہیں۔

پاکستان میں گلوکاری اورسماجی فلاح وبہبودکے علاوہ ابرار ایک سیاسی لیڈرکی حیثیت سے بھی عوامی خدمت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے گذشتہ برس 25دسمبر2011ءکوپاکستان کے نامورکرکٹروقدآور سیاسی شخصیت عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پارٹی کادامن تھام کربطورسیاست دان پاکستانی عوام کی خدمت کابیڑہ اُٹھایا۔تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل”یوتھ پارلیمنٹ “نامی غیرسرکاری تنظیم کے تحت وہ نوجوانوں کی قیادت کررہے تھے۔

ابرارالحق نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ صلاحیتیوں کامظاہرہ کرتے ہوئے مختلف تنظیموں کی طرف سے متعدد اعزازت بھی حاصل کئے ہیں ۔ابرارالحق کوجن اعزازات سے حوصلہ افزائی ملی اُن میں سال 2002 میں بہترین لوک گلوکارایوارڈ، 2001 میں بہترین پاپ سنگرایوارڈ، فرٹوسن میوزک ویوورزایوارڈ، سٹی زن ایکس لینسی ایوارڈاورمسلسل دوسال تک پاکستان کاسب سے مشہورگلوکارایوارڈکااعزاز، 2005 میں تمغہ امتیاز، اسلامی کانفرنس کاپہلاہیومنٹیرین ایمبسڈرایوارڈوغیرہ قابل ذکرہیں۔

غورکرنے کامقام ہے کہ ابرارالحق بیک وقت ایک، گلوکار، موسیقاراورگیت کار، سیاستدان ، سماجی فلاحی ادارے کے منتظم کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہاہے تواگرہم(نوجوان) محنت کریں توہم کامیابیوں کی بلندیوں کوکیوںنہیں چھوسکتے ہیں۔راقم نے مضمون کے ابتدائی حصہ میں تحریرکیاتھاکہ نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تعلیم اُسی میدان میں ہونی چاہیئے جس میں طالب علم کارجحان ہو۔ابرارالحق کارجحان گلوکاری کی طرف تھاجس کے باعث وہ مدرس ہوتے ہوئے بھی سنگیت کی طرف آنے کوبیتاب تھااورجب گلوکار ی میں شہرتِ دوام ملا تواپنے اندرخدمت خلق کے جذبہ کے تحت فلاحی تنظیمیں ، ہسپتال اورایک سیاستدان کے طورپربھی ملک کے لیے خدمات انجام دینے میں مصروف ہوگئے ۔

کچھ اشعارجن سے نوجوان تحریک پاسکتے ہیں اوراپنامعیارِ زندگی بہتربناسکتے ہیں۔
تونے چاہاہی نہیں تیرے حالات بدل سکتے تھے
تیری آنکھ کے آنسومیری آنکھ سے نکل سکتے ہیں
تم توٹھہرے رہے جھیل کے پانی کی طرح
دریابنتے تودورنکل سکتے تھے
٭٭٭
مٹادے اپنی ہستی کوگرکچھ مرتبہ چاہیئے
کہ دانہ خاک میں مِل کرگُل ِ گلزارہوتاہے
٭٭٭
سوچ کوبدلوستارے بدل جائیں گے
دِشاکوبدلوکنارے بدل جائیں گے
لوگوں کوبدلنے کی ضرورت نہیں
خودکوبدلولوگ سارے کے سارے بدل جائیں گے
٭٭٭
خودی کوکربلنداِتناکہ ہرتقدیرسے پہلے
خدابندے سے پوچھے بتاتیری رضاکیاہے (علامہ اقبال)
٭٭٭
کبھی مہک کی طرح گلوں سے اُٹھتے ہیں
کبھی دھوئیں کی طرح پربتوں سے اُٹھتے ہیں
ارے قنچیاں کیاہمیں خاک روکیں گی اُڑنے سے
ہم توپروں سے نہیں اپنے حوصلوں سے اُڑتے ہیں
٭٭٭
ہوتے ہیں جن میں حوصلے ملتے ہیں اُن کوراستے !
کامیابی نہیں ہے میرے دوستوبزدلوں کے واسطے !
٭٭٭
کامیابی اُن ہی کوملتی ہے جن کے سپنوں میں جان ہوتی ہے
پنکھوں سے کچھ نہیں ہوتا، حوصلوں سے اُڑان ہوتی ہے
٭٭٭
جنون ہوجس کے سرپہ سواراُس کے لیے فاصلے کیاہیں ساقی
ہراک بڑھتے قدم کے ساتھ یہ تمنانکلے بس اِک اگلاقدم اورہے باقی
٭٭٭
وقت خودجواب ہے اس پرسوال نہیں ہوتا
مٹی کی گودمیں دبے بناگلاب نہیں ہوتا
کامیاب ہونے کےلئے خودکوجلاناپڑتاہے
یوں ہی مُٹھیاں بندکرنے سے انقلاب نہیں ہوتا
٭٭٭
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 58150 views Ehsan na jitlana............. View More