تنقیدی نہیں تعمیری سیاست وقت کی ضرورت

پاکستان کی سیاست شروع دن سے ہی تنقید برائے تنقید ہی غالب رہی ہے اگر یہی تنقید ، تنقید برائے اصلاح ہو تی تو آج دنیا میں پاکستان کا ایک مقام ہو تا اس تنقید برائے اصلاح کے لئے عوام کی طرف سے ہر قسم کا تعاون کیا گیاہمارے سیاسی کلچر میں آج پینسٹھ سال ہونے کو آئے ہیں ابھی تک وہ سیاسی پختگی کیوں نہ آسکی جس طرح کی سیاسی پختگی باقی دنیا کے ممالک میں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں جمہوریت کے تسلسل کا بار بار ٹوٹنا اور سیاسی نظام میں تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید بھی بڑا فیکٹ رہا ہے اس کے علاوہ اور بھی اہم ایشو ز ہیں جن کی وجہ سے یہاں کے سیاسی لوگ عوام کو کچھ دینے کے بجائے ان کے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہیں پاکستانی سیاسی نظام اس لئے بھی فیل ہوتا جا رہا ہے کہ یہاں کی سیاست ملک کے صرف چار پانچ بڑے خاندانوں تک محدود ہے وہ جب چاہتے ہیں جس وقت چاہتے ہیں اس کا رخ موڑ دیتے ہیں سیاسی لوگوں میں عدم برداشت کی شدید کمی ہے وہ بہت جلد اقتدار حاصل کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں اور اپنے مخالفین پر اس قدر گند اچھا لا جاتا ہے کہ سوائے ان کے اقتدار کے خاتمے کے دوسرا کوئی راستہ نہیں بچتا عوام کو دینے کے لیے حکمرانوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے وہ دوسرے لوگوں کی ماضی کی غلطیوں کو اٹھا اٹھا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس سے وہ عوام کو مطمئن کر رہے ہیں مگر ایسا بلکل نہیں ہوتاکیونکہ عوام اب باشعور ہیں وہ سب جانتے ہیں موجودہ حکومت کا یہ المیہ پچھلے پانچ سالوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ عوام کے اصل مسائل کے بجائے دوسرے مسائل کو ناصرف ہائی لائیٹ کرتی ہے بلکہ اس پر اپنا قیمتی وقت اور پیسہ بھی ضائع کرتی نظر آتی ہے عدم برداشت کی دوسری تصویرمیں میاں شہباز شریف صاحب پنجاب میں بیٹھ کر صدر زرداری پر تنقید کر رہے ہیں اور وفاق سے ان کے جیالے قمر زمان کائرہ صاحب بڑے میاں صاحب پر اپنا غصہ نکالتے نظر آتے ہیں۔

اب کوئی ان سے پوچھے کے کیا ایسی تنقید کرنے سے عوام کے مسائل حل ہوں گے تو اس کا صاف سا جواب ہے کہ کھبی نہیں بلکہ عوام میں اور زیادہ مایوسی پھیلے گی عوام کو سب پتا ہے کہ کس نے کیا کچھ کیا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے لیے کچھ کیا جائے ناکہ اپنے آپ کو دوسروں پر تنقید کرنے کے لیے وقف کر دیا جائے کچھ دن پہلے کائرہ صاحب ٹی وی پر بڑے جوش سے کہہ رہے تھے کہ پی پی پی پر اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے پی پی پی کے لیڈرز پر کرپشن کا ایک بھی الزام ثابت نہ ہو سکا ہے انھوں نے بعض ایسے رہنماوں کے نام بھی لیے جن کی کرپشن کے ٹرائل ہو رہے ہیں کیونکہ جتنے بھی بڑے کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے ہیں ا ن میں سب سے آگے جنوبی پنجاب کے پی پی پی کے لیڈرز ہی ملوث پائے گئے ہیں اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی لوگ ہیں دوسری طرف چھوٹے میاں صاحب نے بھی ایک عجیب ہی بات کہہ دی جو وہ اکثر جوش میں آ کر کہہ جاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں اقتدار ملا تو صدر آصف علی زرداری کو سڑک پر لے آئیں گے اور ان سے کرپشن کا مال نکلوائیں گے اگرآپ اتنے بڑے لیڈر ہو کہ ایسی باتیں کریں گے تو عوام تو چھوٹے معاملات پر ایک دوسرے کا قتل کرنے لگیں گئے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے تنقید کی جائے لیکن ایک حد تک اس حد کو وہاں تک نہ لے جایا جائے جہاں تک ڈاکٹر بابر اعوان صاحب لے جاتے تھے جہاں تک فیصل رضا عابدی لے جاتے تھے کیونکہ آپ لوگوں کی باتیں عوام میں بڑا اثر رکھتی ہیں اگران میں پیا رمحبت شائستگی ہو گی تو عوام بھی ان سے اچھا اثر لیں گے-

اور ایک دوسرے پر اگر تنقید کرنی بھی ہے تو اس کو سیاست تک ہی محدود رکھا جائے تو بہتر ہو گا سیاسی تنقید میں سیاسی دوستوں کی فیملیز کو بھی لے کر آنا ہر گز سیاست کے لیے اچھا نہیں ہے اس سے نفرتیں بڑھتی ہیں اور اس حد تک چلی جاتی ہیں جہاں نفرت ہی نفرت ہوتی ہے اس سے پاکستان کو اس کے عوام کے مسائل میں اضافے ہو سکتا ہے نہ تو یہ حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ختم اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے ثمرات کو اپنے آپ تک محدود رکھنے کی بجائے اسے عوام کے لئے استعمال کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو فروغ دیا جائے تاکہ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کسی ایک فرد یا خاندان کے پاس رہنے کی بجائے بہت سے لوگ اس عمل میں شامل ہو سکیں جس کے لئے الیکشن کمیشن کاکردار اہم ہے اور حالیہ فیصلہ کے ان جماعتوں کوا لیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی لیڈر شپ کو جمہوری انداز میں منتخب کریں گی یا جو جماعتیں پارٹی الیکشن منعقد کرائیں گی اور اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے اور منافقت اور منافرت کی سیاست کے بجائے معاملات کو سیاسی اور تعمیری انداز میں حل کیا جائے تاکہ ملک کو ان اندرونی اور بیرونی خدشات سے نکالا جا سکے اس کے لئے کسی ایک فرد کو اکیلے کھبی بھی کامیابی نہیں مل سکتی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں خواہ وہ اسمبلی کے اندر ہوں یا اسمبلی سے باہر اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اگر ہم نے ابھی تک نفرت برائے نفرت کے کلچر کو ختم نہ کیا تو پاکستان کے حالات مذید خراب ہو سکتے ہیں اور خدانحواستہ ایسے وقت سے بچنے کے لئے ہمیں ابھی سے اس بارے میں کام کرنا ہو گا تاکہ وطن عزیز کو باقی دنیا کے برابر لایا جا سکے ۔
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.