محترم علامہ طاہر القادری صاحب
میں یہ نہیں کہتا آپ صرف دین کا کام کریں اور سیاست چھوڑ دیں اس لیئے کہ
میں سیاست کو دین سے الگ نہیں سمجھتا میں اس بات کا قائل ہوں کہ، جدا ہو
دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی،لیکن جناب والاآپ کو اچھی طرح معلوم ہے
آج کی سیاست اور دین کا آپس میں دور کا بھی واسطہ نہیں،آج کا جمہوری نظام ،آج
کی سیاست خالص چنگیزیت ہے کیونکہ آج جمہوریت اور سیاست کو دین سے کلیتہً
الگ کردیا گیا ہے،جناب والا میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کیا موجودہ
جمہوری نظام کو fallowکر کے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لانا
ممکن ہے؟کیونکہ جناب والا یہ نظام جمہوریت جو ہم نے مغرب سے Importکیا ہے
اس میں ایک ان پڑھ جاہل،چور،ڈاکو،شرابی، جواری، زانی، بلیک میلر،بھتہ
خور،قاتل،وطن دشمن اوردیگر تمام خباثتوں کے حامل شخص کا ایک ووٹ ہے اور ایک
پڑھے لکھے،باشعور،امانت دار ،نیک، پارسا،محب وطن،عالم،مفتی اور آپ جسے شیخ
الاسلام کا بھی ایک ہی ووٹ ہے اور دونوں طرح کے لوگوں کے ووٹ کی طاقت بھی
برابر ہے ،یعنی پاکستان میں حکومت سازی ،قانون سازی اور آئین سازی میں Mr
Good اور Mr Badکی رائے وزن میں برابر ہے، یہی وجہ ہے اس ملک میں ایک ڈاکو
صدر بن جاتاہے اور ایک چور بھی،ایک ملک دشمن اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ
جاتا ہے اورایک زانی شرابی بھی،اسی لئے جناب والا مجھے حیرت ہوتی ہے، میرا
جسم کانپ جاتا ہے اور میرے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے جب میں آپ
یعنی وقت کے شیخ السلام کے منہ سے یہ بات سنتا ہوں کہ ” اگر یہ نظام
جمہوریت مغرب میں ایک انقلاب برپا کر سکتا ہے تو یہاں کیوںنہیں،اگر یہ نظام
یورپ اور امریکہ میں لوگوں کو امن دے سکتا ہے انصاف فراہم کرسکتا ہے تو
یہاں کیوں نہیں؟“قادری صاحب کہنے کو تو جمہوریت کے حق میں یہ ایک بڑی دلیل
ہے اور ایک عام آدمی اس دلیل سے متاثر بھی ہو جا تا ہے مگر جو لوگ دنیا سے
واقف ہیں اور ٹھنڈے دل ودماغ سے حالات کو جانچنے اور پر کھنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں وہ اس دلیل سے قطعاً متاثر نہیں ہو تے بلکہ جب کبھی کوئی تاریک
الزہن اور انسانی انداز زندگی سے بیزار شخص ان کے سامنے مغربی جمہوریت کے
حق میں یہ خلاف ِ اصل،بھونڈی اور سطحی دلیل دیتا ہے تو وہ دلیل کنندہ کی لا
علمی،تنگ نظری،بے شعوری،سطحیت،دین بیزاری اور مغرب زدگی پر بحث کرنے کی
بجائے صرف مسکرا دینا ہی کافی سمجھتے ہیں۔
جناب محترم قادری صاحب سب سے اہم اور سب سے بنیادی بات جو عوام اور اہلِ
علم آپ سے جاننا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام کی
تکمیل ہو گئی تھی یااس میں کوئی گنجائش چھوڑ دی گئی تھی کہ جسے بعد میں آنے
والے اپنی مرضی اورخواہش کے مطابق پورا کر لیں؟آپ چونکہ شیخ السلام ہیں اس
لیئے آپ یقیناً یہی کہیں گے استغفرواللہ کون بد بخت ہے جو یہ کہنے کی جرات
کرے کہ دینِ اسلام کی تکمیل نہیں ہوئی تھی۔اس کے بعد آپ لیکن لگائیں گے اور
فرمائیں گے ”دین تو مکمل ہے لیکن ہر دور کے مسائل اور ضروریات کے حل کے لئے
اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے “محترم !اجتہاد کا دروازہ یقیناً کھلا ہے لیکن اس
دروازے سے گزرنے کی اجازت صرف مجتہد کو ہے اور مجتہد کون ہوگا یہ بھی طے
شدہ مسئلہ ہے ، اس کے ساتھ یہ بھی طے ہے کہ مسلمان علمائ،مفتیانِ کرام اور
مجتہدین کوئی بھی اصول اور ضابطہ طے کرنے کیلئے علم وحی سے رہنمائی
لینگے،اور اگر وہ علم وحی سے رہنمائی لیئے بغیر اپنی مرضی اور خواہش کے
مطابق کوئی نظام وضع کریں گے تو وہ اسلامی نہیں بلکہ شیطانی نظام کہلائے گا
،محترم قادری صاحب آپ جانتے ہیںآپ نام تو اسلام کا لے رہے ہیں لیکن جمہوریت
جس کا راگ الاپارہے ہیں وہ از اول تاآخراسلام سے متصادم ہے،محترم قادری
صاحب فطین لوگوں کا ایک وصف خاص یہ ہوتا ہے کہ جب ان کے پاس عوام کے سوالوں
کا معقول جواب نہیںہوتا تو وہ کہتے ہیں اوہ ہو کیا مصیبت ہے کن احمقوں سے
واسطہ پڑا ہے ان میں ہماری سپرنگ کی طرح سیدھی بات سمجھنے کی بھی صلاحیت
نہیں ہے اس کے بعد اِن فطین حضرات نے اپنی جان چھوڑانے کےلئے قرآن پاک کی
ایک آیت یاد کررکھی ہے جس کی بنیاد پر وہ خود کو رحمٰن کے خاص بندوں میں
رجسٹرڈ سمجھتے ہوئے عوام کو جہالت کاطعنہ دے کر راہ فرار اختیار کر لیتے
ہیں،آپ یقیناً میرا اشارہ سمجھ گئے ہونگے اورجواب نہ ہونے یا نہ دینے کی
شکل میں کم از کم آپ یہ حربہ استعمال نہیں کریں گے۔
لوگ پوچھتے ہیں قادری صاحب کو اچانک کیا ہوا؟،پھر لوگ پوچھتے ہیں قادری
صاحب کا اصل ایجنڈا کیا ہے ؟ان دو سوالوں میںلفظ”اچانک“ اور” اصل“ ہی اصل
سوال ہے۔جناب ِوالا آپ کے پیروکار جواب دیتے ہیں لیکن ”اچانک اور اصل “کو
چھوڑ کر ،لہٰذا یہ دونوں سوال آپ کی اچانک آمد اور اصل ایجنڈے کی جانب پہلا
قدم بڑھانے کے وقت سے لیکر آج تک” لاجواب“ہیں،قوم آج آپ سے ان دو سوالوں کا
بھی جواب مانگتی اور ممکن ہے کل حساب بھی مانگے جس کیلئے آپ کو ذہنی طور پر
تیار رہنا چاہئے۔
جناب والا لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں اصلاحِ احوال،اسلامی انقلاب اور ریاست
بچانے کیلئے آپ کی نظرِکرم کہیں اور نہیں ٹکی آپ نے انتخاب کیا بھی تو ان
لوگوں کا کہ جنہوں نے گزشتہ ستائیس برسوں میں اس دھرتی کو کبھی سکھ کا سانس
نہیں لینے دیا ،وہ لوگ جو ربع صدی سے اس ریاست کے مظلوم عوام کو بوری بند
لاشوں کے تحفے پیش کر رہے ہیں،وہ لوگ جنہوں نے اس ریاست کی معیشت کو برباد
کر ڈالا،وہ لوگ جو ٹی ٹی کلچر کا انقلاب لائے،جنہوں نے بھتہ خوری کو جنم
دیا،وہ جو اپنے مخالف کو ٹارچرسیل میں لیجاکرتشدد کا نشانہ بناتے ہیں اس کے
سینے میں ڈرل مشین سے سوراخ کرتے ہیںاور پھر زندہ جلاڈالتے ہیں،وہ لوگ کہ
جنہوں نے قومیت اور لسانیت کی بنیاد پرفتنہِ عظیم برپا کر رکھا ہے،وہ لوگ
کہ جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کررکھی ہے اور اس ریاست میں ان کی
مرضی کے بغیر کسی اور کو جینے کا حق نہیں،جناب قادری صاحب آپ کا حلف، آپ کی
قسمیں اور آپ کا عمل ! بعد المشرقین ہے ان میں جناب،آپ اسلام کی بات کر کے
عوام کو اٹھاتے ہیں،ابھارتے ہیں جبکہ آپ کے پہلے حلیف کہ جن کے کندھوں پرآپ
سوار ہیں یا جو آپ کے کندھوں پر سوار ہیں وہ دن رات اس کوشش میں ہیں کہ اس
ریاست کو سیکولر کیسے بنایا جائے،وہ علماءدین کو برا بھلا کہتے ہیں،مدارس
کو بند کرانے کے منصوبے بناتے ہیں اور علماءحق کوچن چن کر قتل کرتے
ہیں،قادری صاحب آپ کا حلف، آپ کی قسمیں اور آپ کا عمل ! !؟؟
جنابِ والا میرا ایک دوست ہے جو کبھی آپ کے بہت قریب تھابعد میںوہ آپ کے
قریب تو نہ رہ سکا لیکن آپ کے قریب رہنے والوں سے اس تعلق آج بھی برقرار ہے
اس نے نومبر میں ایک ملاقات کے دوران مجھے اس فلم کی سٹوری سنانی چاہی جو
23دسمبر2012ءکو مینارِ پاکستان پر ریلیز ہونی تھی لیکن میں نے اس کی بات کو
مذاق سمجھا اور اس کی سٹوری مکمل ہونے سے قبل ہی یہ کہہ کر کہ میرے پاس
فضول باتیں سننے کا ٹائم نہیں میں نے اس سے اجازت چاہی تب اس نے مجھے کہا
تھاآج تمھیں میری بات کا یقین نہیں لیکن کل جب یہ فلم چلے گی تو تم بار بار
مجھ سے سٹوری سنانے کی التجا کرو گے اس وقت میں کہوں گااب میرے پاس وقت
نہیں ،پھر چند دنوں بعد ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور میں نے بڑی
منتیں کر کے اس سے سٹوری سنی آج فلم کا ہر سکرپٹ ہوبہوویسا ہی ہے جیسا اس
نے بتلایا تھا اگر یہ فلم ہٹ ہو گئی تو اس سے پاکستان کی سیاست کا نقشہ تو
شائد بدلے یا نہ بدلے البتہ پاکستان کا نقشہ بدلنے کا خطرہ ضرور موجود ہے
،محترم قادری صاحب یہی وجہ ہے کہ میںنے آپ کے سامنے چند نکات اور چندسوالات
رکھے اس امید کے ساتھ کہ ممکن ہے آپ اور آپ کے چاہنے والوں میں سے کچھ لوگ
اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحات نکال کر ان پر غور فرما لیں۔
محترم قادری صاحب میں آپ پر تنقید نہیں کرنا چاہتا ،اورمجھے آپ کی مخالفت
کا بھی کوئی شوق نہیں کیونکہ یہ دونوں کا م کرنے والے کر رہے ہیں،میںتو آپ
سے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ پہلے بھی آپ کو سیاست کا شوق ہوا
تھا آپ کے اس شوق کو آپ کے نوجوان کارکنوں نے اپنے جذبات سے بھڑکایاتو وہ
لاوا بن کے ابل پڑا تب آپ طوفان کی طرح نکلے آپ نے بڑے تاریخی جلسے کئے اور
بڑی زور دار انتخابی مہم چلائی مگر نتیجہ جو نکلا تھا وہ یقینا ابھی تک آپ
بھولے نہیں ہونگے ،آپ کی عزت تھی،رعب تھا،محبت تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت
کچھ تھا لیکن وہ سب کچھ ہی شوق سیاست نے نگل لیا تھا لیکن بھلا ہو آپ کے ان
دور اندیش اورمخلص ساتھیوں کا جنہوں نے رودھوکے آپ کو اقتدار کے بھیانک
کھیل سے نکال لیاتھا،پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ داغ دھل گئے تھے اور لوگوں کے
دلوں میں آپ کی محبت پیدا ہو گئی آپ نے یکسوئی سے تفسیر لکھی اور تعلیم کے
میدان میں بہت کا م کیا ،سب کچھ بالکل ٹھیک جا رہا تھا کہ ان ظالموں کی آپ
سے ملاقات ہو گئی اوروہ شیطان آپ کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئے،قادری صاحب
آپ کو کیا معلوم کہ 23دسمبر سے پہلے آپ کہاں تھے اور آج کہاں ہیں!آج آپ کے
اردگرد مخصوص لوگوں کا حلقہ ہے جو آپ کو خوابوں کی دنیا سے نکلنے نہیں دے
گا لیکن تحریک میں موجودپرانے اور مخلص کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شدید
پریشان ہے وہ جان چکے ہیں کہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اس کھیل سے ان کے
قائد اور تحریک منہاج القرآن کوکس قدر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے
تحریک کے کارکن اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ سکولوں ،کالجوں
،یونیورسٹیوں،مسجدوں،بازاروں اور دفتروں میں وہ عوام کے سوالوں کا تسلی بخش
جواب دینے اور عوام کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں، سوشل میڈیا پر مشرف ،زرداری
اوررحمٰن ملک کی ریٹنگ کم جبکہ ان کے قائد کی زیادہ ہو چکی ہے یہی وجہ ہے
کہ تحریک کے کئی سارے کارکنوں نے فیس بک سے غیر معینہ مدت تک رخصت لے لی
ہے،قادری صاحب اگر آپ سوچیں تو یقیناً آپ کواحساس ہو جائے گا کہ آپ کے اصل
دشمن اور آپ کے حقیقی مخالفوں نے آپ کے دوستوں کو استعمال کر کے آپ کے ساتھ
کتنی بڑی گیم کردی ہے،اے کاش آپ کو احساس ہو جائے اور آپ لوٹ آئیں!کیونکہ
لوٹ آنے میں ہی آپ کی اور آپ کے ساتھوں کی بہتری ہے،قادری صاحب لوٹنے کیلئے
آپ کے پاس وقت زیادہ نہیں ،اگر آپ نے تھوڑی سی بھی تاخیر کردی توپھرازالہ
ناممکن ہو جائے گا،آپ لوٹتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ اللہ پاک نے آپ کی غلطی
معاف کردی ہے اور اگر آپ اقتدار کی دلدل میں آگے بڑھتے ہیں تو ان لوگوں کا
کہا سچ ثابت ہو جائے گا جو کہتے ہیں قادری صاحب سے کوئی بڑی خطاہوئی ہے جس
کی وجہ سے اخیر عمر میں وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آگئے ہیں اور جنابِ والا
وہ بڑی خطا کہ جس کا لوگ ذکر کرتے ہیں آپ کو خود اچھی طرح معلوم ہے ،معلوم
ہے نا جناب؟
لہٰذا اب بس کریں کارکنوں کو امتحان میں مت ڈالیں،ماﺅں بہنوں بیٹیوں کا
زیور نہ بیچوائیں،بیٹوں اور بھائیوں نے بڑی مشکل سے سائیکلیں، موٹر
سائیکلیں،ٹیکسیاں،پلاٹ اوررکشے خریدے ہیں وہ بیچارے تو مخلص ہیں آپ کی آواز
پر یہ سب کچھ بیچ کر گھروں سے نکل آئیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دین
کیلئے یا کسی اور اچھے کاز کیلئے ایسا کررہے ہیں اور ایسا کرنے سے انکو
ثواب ملے گا لیکن ،لیکن جب اصل حقائق ان پر کھلیں گے تو ان کی حالت کیا ہو
گی؟ویسے بھی پیسے کی آپ کو کونسی کمی ہے جو ان غریبوںکوان کی جمع پونجی سے
محروم کرنے کا خیال آپ کے دل میں جنم لیتا ہے صرف اس لیئے کہ تقریر میں ان
سادہ لوح لوگوں کے قربانی کے واقعات سنا کر جذبات بھڑکائے جائیںتاکہ سامعین
مزید قربانی پر آمادہ ہو جائیں اور مخالفین جان لیں کہ جو کارکن سونا چاندی
قربان کر سکتے ہیں وہ قائد کے حکم پر جان بھی قربان کرنے کو تیار ہو جائیں
گے لہٰذا اس جماعت سے ٹکر مت لو اور ان سے ڈر کے جیو،اور پھر کیا کہنے ان
دینداروںکے جو اپنی زبان سے خود ہی کہنے لگیں ہم سے ٹکر مت لو ہم سے ٹکراﺅ
گے تو پاش پاش ہو جاﺅ گے اور یہ جملے کہتے وقت ان کے ذہن میں یہ بھی ہو کہ
صحابہ کرام بھی یوں کہتے تھے حالانکہ کہنے والے یہ جانتے ہیں کہ صحابہ کرام
کافروں کو ایسا کہتے تھے اور ہم جنہیں کہہ رہے ہیں وہ مسلمان ہیں لیکن ہم
انہیں اس لئے ایسا کہہ رہے ہیںکہ ہمارے دماغ میںشیطان نے یہ خباثت ڈال دی
ہے کہ ہم افضل مسلمان ہیں اور وہ جنہیں ہم للکار رہے ہیں وہ ہم سے گھٹیا
مسلمان ہیںاگرچہ ہم زبان سے اپنی افضلیت کا اعلان نہیں کرتے کیونکہ ایسا
کرنے سے ہمارا عاجزی اختیار کرنے کا ڈرامہ فلاپ ہو جاتا ہے،بہرکیف آخر میں
آپ سے ایک دفعہ پھر گزارش ہے کہ جس راستے پرآپ نکل پڑے ہیںوہ راستہ ٹھیک
نہیں ہے آپ جتنا جلدی ہوسکے اس راستے سے لوٹ آئیں، اسلامی فلاحی ریاست قائم
کرنے کا نہ یہ انداز ہے نہ یہ طریقہ اور نہ ہی یہ راستہ!
محترم قادری صاحب کہنے اور لکھنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے لیکن یہ صفحات
مزید گنجائش دینے سے گریزاں ہیں اور مجھ میں یہ صلاحیت نہیں کہ میں جناب کی
طرح دریا کو کوزے بند کرسکوں لہٰذا دریا بہتا رہے گا اور ہم اپنی ضرورت کے
مطابق کوزے نکالتے رہیں گے،کہتے ہیں یار زندہ صحبت باقی ،اللہ پاک ہم سب کو
ھدایت عطا فرمائے(امین)۔ |