حضرت شیخ الاسلام علامہ طاہر
القادری کے لاہور جلسہ کے بعد بڑے بڑے سیاستدان گھبراہت کا شکار ہوگئے ہیں
اس قدر پریشان ہیں کہ انہیں اپنا عروج زوال پذیر نظر آنے لگا ہے۔ جلسہ اور
اعلا ن اصلاحات برائے نظام سلطنت کے بعد تو طاہرالقادری میڈیا پر چھاگئے ۔
مختلف جماعتوں کے جلسوں اور میڈیا بریفنگ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ٹی
وی چینلز پرمذاکرے ہورہے ہیں ۔ اخبارات میں شائع شدہ خبروں کا نوے فیصد
جناب شیخ الاسلام سے نسبت رکھتا ہے۔ حمائت میں کم مخالفت میں زیادہ مواد
شائع ہورہا ہے۔ ہمارے تمام سیاستدان عوام اور ریاست کو یکسر نظرانداز کرتے
ہوئے مقدس مغربی جمہوری گائے کے تحفظ کے لیئے لنگوٹ باندھ کمربستہ سیاسی
رقابتوں سے آزاد ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یک سر نغمہ سراہمنوا ہوگئے ہیں ۔ کوئی
کہ رہاہے کہ ہم نے پانچ سال مفاہمت کی سیاست کرکے منتخب اسمبلی کوپہلی
مرتبہ اپنی مدت پوری کرائی۔ مگر جناب طاہرالقادری کے اعلان لاہور سے اس
مفاہمتی مرکب کے مزید اجزا کا عوام کو پتہ چل گیا ہے۔ حکومتی لوگ نشاط افزا
ماحول میں فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، یقینا جو
سمگلنگ کرائی وہ بھی برآمدات ہی تو ہیں۔ ملک کے عوام کو چالیس روپے کلو آٹا
فراہم کرنے پر موجودہ حکومت ہی تو مبارکباد کی مستحق ہے،پاکستان کے عوام کس
قدر خوش قسمت ہیں کہ آرام سے مریں۔غریب ایک کلو آٹا لاتا اور جورو بچوں کے
لیئے روٹی پکاتی یہ بھی مفاہمتی حکمرانوں کو پسند نہ آیا، گیس بند کردی،
کبھی ہم دیکھتے تھے بلکہ خود بھی ایسا کرتے تھے کہ مٹی کے تیل سے اسٹو یا
بتیوں والے چولھے جلاکر کھانے پکائے جاتے تھے۔ اب تو قبر کی مٹی نظر آتی ہے
تیل نہیں۔ پانچ سالہ ایوان قتدار بڑا فیض رساں ہوا جو لوگ ٹیکسیاں چلاکر
اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے اب و ہ آرام سے رضائی لیکر گاڑی میں سڑک کنارے
محو خواب ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک آدمی کو جب چار پانچ دن گاڑی میں آرام
کرتے گزرے گئے تو گھر والوں نے آکر اٹھایا کہ اپنی صورت تو دکھا جاﺅ۔ ایک
دوست نے کہا کہ آج انتخابات ہوں تو موجودہ حکمران طبقہ منتخب ہوجائے گا ۔
پوچھا وہ کیسے تو جواب مل کہ انکے ووٹ پکے ہیں پارٹی نے پانچ سالہ دور میں
اپنے کارکنوں کی اگلی پچھلی کسر پوری کردی۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا
کوئی کارکن حکومت سے شاکی نہیں۔ کیونکہ پارٹی اپنے کارکنوں کو نوازنے میں
بڑا نام رکھتی ہے۔ اگرچہ مخالف ووٹ کئی گنا ہیں مگر وہ درجنوں صندوقوں میں
بٹ کر کم ہوجاتے ہیں اور پی پی کے اپنے بکس میں جاتے ہیں۔مغربی جمہوری نظام
میں ووٹوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ پانچ سالہ مفاہمتی وزیر ایک چینل
پر محو مدح سرائی تھے کہ جناب عدلیہ ، فوج کون ہوتی ہے کہ انتخابات میں حصہ
لینے والوں کے کردار پر بات کریں یہ تو عوام کا فیصلہ ہوگا وہ جس کو اپنا
نمائندہ منتخب کر لیں کرلیں۔ وہ اس بات کو بھول گئے کہ یہ مملکت اسلامی
نظریہ حیات پر وجود میں آئی، قرداد مقاصد میں حاکمیت اعلی اللہ کی تسلیم
شدہ امر ہے۔ موجودہ نظام حکومت میں جاگیردار ، وڈیرے اور سرمایہ دار لوگ ہی
منتخب ہوسکتے ہیں۔ خود الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی سطح کے انتخابات
لڑنے والوں کے لیئے اخراجات کی حدین مقرر فرمائی ہیں۔ غالبا قومی اسمبلی کے
لیئے چوالیس لاکھ روپے ۔ اگرچہ کہ امیدوار اس سے بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
کون پوچھے کہ آخر یہ لوگ اتنی رقم بے تحاشا کیوں خرچ کرتے ہیں؟ آخر کوئی
مقصد تو ہوگا۔ یقینا جاگیردار سرمایہ دار گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ جب یہ
لوگ اقدار میں آجاتے ہیں تو اصل کے ساتھ سود در سود یوں وصول کرتے ہیں کہ
ملک کے عوام روٹی، روزگار، بجلی ، گیس اور تعلیم تک ایسے محتاج ہوجاتے ہیں
کہ بس وہ کہتے ہیں کہ اس جینے سے مرنا بہتر ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج
تک کے منتخب ہوکر آنے ولوں کے اثاثہ جات کا احتساب کیا جائے تو ایک بھی
کلین ہینڈ نہیں۔ تو یہ سب کچھ اس مغربی جمہوری پارلیمانی نظام کا کیا دھرا
ہے۔ یہ کہنا کہ عدلیہ اور فوج کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے ۔ یہ خیال
درست نہیں۔ عدلیہ شتر بے مہارحکمرانوں کو نکیل ڈالنے کے لیئے اپنا عادلانہ
کردار ادا کرکے عوام کے دکھوں کا مداوا کرتی ہے۔عدلیہ اگر آج آزاد وجود
رکھتی ہے تو اسکی اپنی ہمت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے جس میں عوام اور قانون
دان طبقہ شامل ہے۔ حکومت آزاد عدلیہ کے خلاف ہے۔ جب ملک اندرونی قتل و
غارتگری میں مبتلا ہو اور سیاستدان اپنی لاڈلی جمہوریت کے تحفط کے لیئے
روزانہ درجنوں قیمتی جانوں کو قربان کرتے رہیں تو فوج کس کی حفاظت کرنے میں
اپنا کردار اداکرے گی۔ فوج تو ملک کے عوام کی حفاظت کرتی ہے مگر جب عوام
کوہمارے سیاستدن بتدریج ختم کردیں گے تو فوج کے وجود کی کیا ضرورت ؟ لھذا
عوم کی حفاظت کے لیئے فوج اپنا کردار ادا کرے تو عوام اسے خوش آمدید کہیں
گے۔ سرمایہ دار وڈیرہ اس لیئے خوش آمدید نہیں کرے گا کہ اس کا یوم حساب آئے
گا۔یہی بات اگر علامہ طاہر القادری نے کہی ہے کہ انتخابات کا ہونا عوام اور
ملک کو درپیش مسائل کا حل نہیں جب تک نظام حکومت درست نہ ہو۔علامہ صاحب ایک
طویل عرصہ بعد اپنے وطن تشریف لائے۔انہیں جو ایک دم اتنی بڑی عوامی حمائت
حاصل ہوئی اس سے پرانے سارے ٹھیکیدر گھبرا گئے۔ کوئی کہ رہا ہے طاہر
القادری کی باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں، کوئی کہ رہاہے بیرونی ایجنٹ ہیں۔
کسی کا تیارکردہ منصوبہ لے کر آئے ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں بوکھلاہت کا
مظہر ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ عوام پہلے سے تنگ ہیں، ملکی وسائل
تباہ بجلی نہ ہونے سے صارفین پریشان ، صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر، گیس
کی وجہ سے صنعتیں اور گھریلوصارفین تباہ،تیل ، پٹرول سبھی کچھ پانچ سالہ
مفاہمتی اقتدارکی نظر ہوگیا۔ تو عوام نے طاہر القادری صاحب سے مفاہمت کرلی۔
چونکہ ایم کیو ایم بھی سرمایہ داروں اور وڈیروں کی جماعت نہیں وہ بھی شیخ
الاسلام کی اقتدا میں آگئی،رہی تحریک انصاف وہ پہلے ہی انصاف کی طالب ہے۔
چند ایک بڑے لوگ اس میں آئے ہیں مگر وہ ہیں کون ؟ زرداری سے مفاہمت نہ کرنے
والے۔ شور مچانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ سیاستدانوں نے اب تک جو لوٹ ما ر کی
ہے اس کاحساب تو عوام لیں گے۔ عوام کی حالت ابتر کرنے والوں کے لیئے
التحریر چوک بڑا ڈراﺅنا خواب ہے۔ قانون قدرت ہے کہ ظالموں کا یوم حساب بھی
آتا ہے۔عوام ایک انقلابی قائد کے منتظر ہیں جو انہیں ظالمانہ نظام سے نجات
دلائے وہ طاہر القادری ہو یا کوئی ملا عمر ہو۔ |