محمد توفیق احسن برکاتی
نام و نسب:-شیخ عبد الحق محدث دہلوی ابن شیخ سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ
فیروز بن شیخ موسیٰ بن ملک معزالدین بن آغا محمد ترک بخاری، شیخ محقق کی
کنیت ابو المجد ہے۔
خاندانی پس منظر:-شیخ محقق کے اجداد بخارا کے رہنے والے تھے ، سب سے پہلے
آغا محمد ترک تیرہویں صدی عیسوی میں سلطان علاء الدین خلجی کے دور حکومت
میں ۱۲۹۶ء میں ہندوستان تشریف لائے، آپ کی پیشانی میں عزت و کرامت کے آثار
ہویدا تھے، بادشاہ نے آپ کی عزت افزائی کی اور اعلیٰ عہدوں سے نوازا،
بادشاہ کے امرا کی ایک جماعت کے ساتھ گجرات کی مہم میں شرکت کی اور فتح کے
بعد وہیں اقامت پذیر ہوگئے، آپ کے ایک سو ایک بیٹوں میں ایک حادثے میں سو
لڑکوں کا انتقال ہوگیا اور صرف ملک معز الدین زندہ سلامت رہ گئے، شیخ محقق
کا خاندان انھیں سے چلا، آغا محمد ترک اپنے فرزند کے ساتھ دلی آگئے اور شیخ
صلاح الدین سہروردی کی خانقاہ میں معتکف ہوگئے، ۱۷؍ ربیع الاول ۷۳۹ھ کو
انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوے، ملک معز الدین نے کافی ناموری حاصل کی، اور
ان کے فرزند شیخ فیروز بھی خاندان کی عزت و بزرگی میں اضافہ کرتے رہے ، شیخ
فیروز بہرائچ کے معرکہ میں ۸۶۰ھ میں شہید ہوئے، ان کی حاملہ بیوی سے ایک
فرزند شیخ سعد اللہ پیدا ہوئے، ان کے دو بیٹے ہوئے، ایک کا نام شیخ رزق
اللہ اور دوسرے کا نام شیخ سیف اللہ والد ماجد شیخ محقق علیہ الرحمہ ، شیخ
سیف الدین ۹۴۰ھ مطابق ۱۵۱۴ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، آپ ایک خدا رسیدہ بزرگ
اور باکمال انسان تھے، علم و عمل کی بے شمار خوبیوں کے جامع تھے، شیخ امان
اللہ پانی پتی (متوفی ۹۵۷ھ/۱۵۵۰ء) نے خلافت عطا فرمائی، ۲۷؍ شعبان
۹۹۰ھ/۱۵۸۲ء کو انتقال فرمایا۔
ولادت:-ماہ محرم ۹۸۵ھ/۱۵۵۱ء کو شیخ محقق دہلی میں پیدا ہوئے، یہ اسلام شاہ
سوری کا زمانہ تھا، والد ماجد نے خاص تربیت و تعلیم کے ذریعہ آپ کے افکار و
اذہان کو منور ومجلیٰ کر دیا اور آپ کو علوم عقلیہ و نقلیہ، ظاہری و باطنی
میں کمال پیدا ہوگیا، دو تین مہینے میں قرآن شریف ختم کر لیا ، قریب ایک
مہینہ میں لکھنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، بارہ تیرہ سال کی عمر میں شرح شمسیہ اور
شرح عقائد جیسی دقیق اور معرکۃ الآرا کتابیں پڑھ لیں، اور پندرہ سولہ سال
میں مختصر و مطول اور اٹھارہ سال کی عمر میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ پڑھ
کر ان پر عبور حاصل کرلیا، علماے ماوراء النہر سے بھی اکتساب علم کیا اور
ہر علم و فن کے امام بن گئے، عبادت و ریاضت میں بھی یکتاے زمانہ تھے، علما
و مشائخ کی صحبت بابرکت کی طرف خاص التفات تھا ، یہ شہنشاہ اکبر کا دور تھا،
اسلامی رسومات کی پامالی، اور بدعات و خرافات کے فروغ میں حکومتی امداد و
سرپرستی نے آپ کو کبیدہ خاطر بنا ڈالا، اور اس ماحول سے تنگ آکر ۳۸؍ سال کی
عمر میں ۹۹۶ھ میں حجاز مقدس کا سفر اختیار فرمایا، وہاں کے علما و محدثین
سے صحیح بخاری و مسلم کا درس لیا، پھر شیخ عبد الوہاب متقی کی خدمت میں
حاضر ہوکر ان سے علم حدیث کی تکمیل کی اور علم طریقت و سلوک میں تبحر حاصل
کیا، مدینہ منورہ میں حاضری دی، بار بار زیارت رسول کریم ﷺسے مشرف ہوئے،
تین سال حجاز مقدس میں قیام کے بعد اپنے شیخ کے حکم پر ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان
واپس آگئے،اور دہلی میں مدرسہ قائم فرماکر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف و
خدمت حدیث میں ہمہ دم مشغول ہوگئے۔
شیخ محقق نے سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ سید موسیٰ گیلانی سے بیعت کی اور
خلافت سے نوازے گئے، ان کے علاوہ عبد الوہان متقی اور خواجہ باقی باللہ نے
بھی خلافت سے نوازا، آپ کو سلسلہ قادریہ ، چشتیہ، شاذلیہ، مدنیہ اور نقش
بندیہ کی خلافت ملی تھی لیکن قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا اور
ان کی ارادت و عقیدت کا مرکز شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ
علیہ تھے،آپ نے پندرہ سے زائد علوم و فنون میں ساٹھ سے زائد تصنیفات و
تحقیقات یاد گار چھوڑی ہیں جن میں اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ، لمعات التنقیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح،مدارج النبوۃ، جذب القلوب، اخبار الاخیار وغیرہا کو
غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی محققانہ عبارات آپ بھی ارباب علم و
تحقیق کے درمیان قابل استناد ہیں۔
وفات:-۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ/۱۶۴۲ء کو علم و تحقیق اور رشد و ہدایت کا یہ
آفتاب چورانوے سال کی عمر میں غروب ہوگیا، وصیت کے مطابق آپ کے فرزند شیخ
نور الحق نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کا مزار حوض شمسی سے جانب اتر نئی آبادی
اسلام پور مہرولی، دہلی۳۰ میں ہے جس پر گنبد بنا ہوا ہے۔ع: ابر رحمت ان کی
مرقد پر گہر باری کرے ۔ شیخ محقق علیہ الرحمہ کے مذکورہ احوال آپ کی خود
نوشت سوانح حیات جو اخبار الاخیار کے اخیر میں بطور تکملہ موجود ہے سے
ماخوذ ہیں اور کچھ باتیں رہ نمائے مزارات دہلی ص:۴۱ سے لی گئی ہیں-
شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی شخصیت بر صغیر ہند و پاک
کی مستند اور قابل اکرام تسلیم کی جاتی ہے اور آپ کی دینی، مذہبی، تجدیدی
اور تصنیفی کارنامے عالم اسلام میں مشہور و معروف ہیں، آپ کی عربی و فارسی
تصانیف دنیا کی مانی جانی لائبریریوں کی زینت ہیں۔ دنیا کی کئی زبانوں میں
ان کے ترجمے ہوئے اور ہر دور میں ارباب تحقیق و تدقیق آپ کی محدثانہ بصیرت،
علمی کمال، تحقیقی ذہانت، اور روحانی کمالات کا اعتراف کرتے آئے ہیں، آپ کی
حیات و خدمات پر کئی کتابیں لکھی گئی ۔ پی. ایچ. ڈی کے مقالات تحریر کیے
گئے۔آپ کی نظریات و معتقدات خالص اسلامی ہیں، آپ کا فکری و اعتقادی موقف
بڑا واضح، صاف و شفاف اور ستھرا ہے، یہ سب کچھ آپ کی تصانیف سے ظاہر و باہر
ہے۔ خالص عقائد کے باب میں بھی آپ نے تکمیل الایمان و تقویۃ الایقان نامی
کتاب تصنیف کی، اور اسلام سے متصادم ہر موقف، ہر نظریے اور ہر عقیدے کا رد
بلیغ فرمایا، بدعات و خرافات کے استیصال میں کبھی کسی تردد کا اظہار نہ
فرمایا اور نہ کسی لومۃ لائم کی پروا کی، آپ نے دور اکبری کا فتنوں بھرا
ماحول بھی ملاحظہ کیا، ایسے پر آشوب دور میں بھی مسلمانانِ ہند کو عقائد
حقہ پر مضبوطی سے ڈٹے رہنے کی تلقین کرتے رہے اور خود بھی بے پناہ عزم و
استقلال کا مظاہرہ فرمایا اور حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت میں مستحکم
چٹان کے مانند جمے رہے۔
شیخ محقق نے چورانوے سال کی عمر میں وفات پائی، اس عمر کا بیش تر حصہ کتب و
رسائل کی تصنیف وتالیف میں بسر ہوا، علم حدیث و اصول حدیث میں تقریباً
۱۳کتابیں اور شرحیں لکھیں جن میں ایک نمایاں نام اشعۃ اللمعات فی شرح
مشکوٰۃ کا آتا ہے، یہ فارسی زبان میں مشکوٰۃ شریف کی انتہائی جامع اور مکمل
شرح ہے، شیخ محقق نے یہ کتاب ۱۰۱۹ھ/۱۰۲۵ھ کے درمیان ۶؍سال کی محنت شاقہ کے
بعد مکمل کی، اشعۃ اللمعات فارسی چار جلدوں پر مشتمل تھی، جس کا اردو ترجمہ
دہلی اور لاہور میں شائع ہو چکا ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محقق علیہ الرحمہ کے اسلامی افکار و نظریات کی
ایک جھلک مذکورہ کتاب سے دکھا دی جائے تاکہ حق بیں نگاہیں ان کے اعتقادی
موقف کے حوالہ سے کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہوں۔
حضور سید عالم ﷺبلا شبہہ آخری نبی ہیں، اللہ عزوجل نے آپ کو علم ما کان وما
یکون عطا فرمايا هے، اس لیے آپ عالم اور عالم کی تمام حقیقتوں سے آگاہ ہیں،
آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا علم آپ کو دیا گیا، قرآن مقدس میں اللہ
عزوجل ارشاد فرماتا ہے: »وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ. وَکَانَ
فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا« اور تم كو سكھا ديا، جو کچھ تم نہ جانتے
تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔»وَمَاھُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْن«
اور يه نبي غيب بتانے ميں بخيل نهيں ۔ (القرآن)
مشکوٰۃ کی حدیث میں یہ ٹکڑا »فعلمتُ ما في السمٰوات والارض« خاص اہمیت کا
حامل ہے، جس کی شرح فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:
»پس دانستم ہر چہ در آسمانہا و ہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامۂ
علوم جزئی وکلی و احاطۂ آں«
یعنی حضور سید عالم ﷺنے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوگیا جو کچھ آسمانوں اور جو
کچھ زمینوں میں ہے، اس سے یہ مراد ہے کہ تمام جزئی و کلی علوم حضور کو حاصل
ہوگئے، اور حضور ﷺنے سب کا احاطہ فرمالیا۔
شرح کے اخیر میں تحریر فرماتے ہیں:
»پس ازاں دانست عالم راو حقائق آں را«
تو اس سے حضور ﷺنے عالم اور عالم کے تمام حقائق کو جان لیا۔(اشعۃ اللمعات،
ص:۳۳۳، ج:۱، نول کشور)
اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص:۴۴۴؍کی یہ عبارت بھی ملاحظہ کرلیں، فرماتے ہیں:
»یعنی احوال مبدا و معاد از اول تا آخر ہمہ را بیان کرد۔ «یعنی ابتدائے
آفرینش اور آخرت کے حالات اول سے آخر تک تمام بیان کردیے۔
اسی طرح حضور سید عالم ﷺکے اختیار کلی کے حوالے سے انتہائی جامع گفتگو
فرماتے ہیں:
»وملک وملکوت جن و انس و تمامہ عوالم بتقدیر و تصرف الٰہی عزوجل در حیطہ
قدرت و تصرف وے بودﷺ۔ترجمہ:جن و انس کے تمام ملک و حکومت اور سارے جہان خدا
وند قدوس کی عطا سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدرت و تصرف میں ہیں۔
(اشعۃ اللمعات، ص:۳۳۷، ج:۱)
سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اللہ کی عطا سے احوال عالم سے باخبر
ہیں، حاضر و ناظر ہیں، ہر جگہ تشریف فرما ہیں، تشہد کے اندر حضرت عبد اللہ
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں »السلام علیک ایھا النبی ورحمة
اللہ و برکاته«کے تحت فرماتے ہیں:
»وبعضے از عرفا گفتہ اند کہ ایں خطاب بہ جہت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرۂ
ہمہ موجودات وافراد ممکنات، پس آں حضرت در ذوات مصلیان موجود وحاضر است۔ پس
مصلی راباید ازیں معنیٰ آگاہ باشد و ازیں شہود غافل نبود،تابانوار قرب و
اسرار معرفت متنوروفائز گردد«
ترجمہ: بعض عارفوں نے فرمایا ہے کہ یہ خطاب (یعنی التحیات میں حضور ﷺکو
اسلام علیک ایھا النبی کہہ کر سلام عرض کرنا) اس وجہ سے ہے کہ حقیقت محمد
یہ موجودات کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ اس
لیے آں حضرت ﷺنمازیوں کی ذاتوں میں موجود اور حاضر ہیں، تو چاہیے کہ نمازی
اس نکتے سے باخبر اور آگاہ رہے، تاکہ قرب کے انوار اور معرفت کے اسرار سے
فیض یاب ہو۔ (اشعۃ اللمعات، ص:۴۰۱، ج:۱)
شیخ محقق نے مدارج النبوۃ جلد دوم میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ انبیاے
کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیات و زندگی کا ثبوت علماے امت کا اجماعی
مسئلہ ہے ، اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ انبیا اور شہدا کی زندگیوں کے
درمیان یوں فرق بیان فرمایا کہ مجاہدین و شہدا کی زندگی تو معنوی اور اخروی
ہے اور انبیا کی زندگی حسی اور دنیاوی ہے۔ اس بارے میں احادیث و آثار وارد
ہیں۔ اور اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں اولیاے اللہ کی زندگی بعد وفات کے
متعلق فرماتے ہیں:
»اولیاے خدا نقل کردہ شدند ازيں دارفاني به دار بقا و زنده اند نزد
پروردگار خود مرزوق اند و خوش حال اندر و مردم را ازاں شعور نيست، يعني
اولياے الله اس دار فاني سے دار بقا ميں منتقل هوگئے هيں، اپنے پروردگار كے
يهاں زنده ،رزق يافته اور خوش حال هيں، لوگوں كو اس كا احساس و شعور نهيں۔
(ص:۴۰۲، ج:۲)
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:
»يشفع يوم القيامة ثلثة الانبياء ثم العلما ثم الشھداء«
روز قیامت تین گروہ شفاعت کریں گے، انبیا پھر علما پھر شہدا، شیخ محقق شرح
مشکوٰۃ میں اس حدیث میں رقم طراز ہیں:
»تخصیص شفاعت بایں سر گروہ بہ جہت زیادت فضل و کرامت ایشاں است والا ، ہمہ
اہل خیر از مسلمانان را ثابت است و احادیث مشہور دریں باب وارد«
ان تینوں گروہوں کی تخصیص ان کی زیادت فضل و کرامت کی وجہ سے ہے۔ ورنہ
مسلمانوں میں سے تمام اہل خیر کے لیے شفاعت ثابت ہے اور اس باب میں احادیث
مشہور وارد ہیں۔ (اشعۃ اللمعات ، ص:۴۰۸، ج:۴)
مزید ارقام فرماتے ہیں:
»و انکار شفاعت بدعت و ضلالت است چناں چہ خوارج و بعض معتزلہ بداں رفتہ
اند«
یعنی شفاعت کا انکار بدمذہبی و گمرہی ہے جیسا کہ خوارج اور بعض معتزلہ اس
کے منکر ہیں۔ (ایضاً، ص:۴۰۸، ج:۴)
شب معراج حضور سید عالم ﷺدیدار ِ الٰہی سے مشرف ہوئے ، شیخ فرماتے ہیں:
»روایت حق سبحانہ تعالیٰ در دنیا نیز ممکن است و لیکن واقع نیست اتفاق، الا
حضرت سید المرسلین راﷺدر شب معراج کہ واقع است«
دیدار الٰہی دنیا میں بھی ممکن ہے مگر واقع نہیں ہے بہ اتفاق، ہاں! حضرت
سید المرسلین ﷺکے لیے شب معراج میں دیدار الٰہی واقع و ثابت ہے۔ (اشعۃ
اللمعات، ص:۴۲۴، ج:۴)
فاتحہ و ایصال ثواب کے متعلق اسی شرح مشکوٰۃ میں تحریر فرماتے ہیں:»تصدق از
میت نفع می کند اورا بے خلاف میاں اہل علم، وارد شدہ است دراں احادیث صحیحہ
خصوصاً آب«
میت کی طرف سے صدقہ کرنا اسے نفع پہنچاتا ہے، اس میں اہل علم کے درمیان
اختلاف نہیں۔ اس بارے میں صحیح حدیثیں وارد ہیں۔ خصوصاً پانی۔ (اشعۃ
اللمعات، باب زیارۃ القبور، ص:۷۹۷، ج:۱)
»جذب القلوب الی دیار المحبوب «شیخ محقق کی مقبول ترین کتاب ہے، جس کے
مسودے کی ابتدا ۹۹۸ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ہوئی اور اختتام ۱۰۰۱ھ میں
دہلی میں ہوا یہ کتاب سترہ ابواب میں منقسم ہے اسی کتاب میں ص:۲۲۰ پر
فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وسیلہ چاہنا حاجت پوری ہونے کا
سبب اور مقصد میں کامیابی کا باعث ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
»چوں توسل بانبیاے دیگر صلوات اللہ علیہم بعد از وفات جائز است، سید انبیا
بطریق اولیٰ جائز باشد«
یعنی جب دیگر انبیا علیہم السلام سے بعد وفات توسل جائز ہوا تو سید الانبیا
ﷺسے بعد وفات توسل بدوجہ اولیٰ جائز ہوگا۔
اور مشکوٰۃ کی شرح میں فرماتے ہیں:
»امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ شود بوے در حیات استمداد کردہ می شود
بوے بعد از وفات«
یعنی حجۃ الاسلام امام غزالی کا فرمان ہے کہ جس سے زندگی میں مدد مانگی
جائے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جائے گی۔ (اشعۃ اللمعات، ص:۷۱۵، ج:۱)
شیخ محقق رحمۃ اللہ علیہ کی صرف ایک مایہ ناز تصنیف اشعۃ اللمعات فی شرح
مشکوٰۃ سے ہم نے قارئین کے سامنے ان کے اعتقادی موقف اور افکار اسلامی کو
پیش کرنے کی ادنیٰ کوشش کی ہے، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ کے
معتقدات وہی ہیں جو اہل سنت و جماعت کے معتقدات ہیں اور شیخ محقق کے افکار
و نظریات کے خلاف اگر کوئی عقیدہ بیان کرتا ہے اور شیخ کو اپنا مقتدیٰ بھی
مانتا ہے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹاہے۔ اسی طرح شیخ محقق کے اعتقادی افکار ان
کی دوسری تصانیف میں بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
|