معروف اردو نقاد ، فلسفی ڈاکٹر
محمد علی صدیقی بدھ ۹ ؍جنوری ۲۰۱۳ء کو کراچی میں انتقال کرگئے ، انا للہ
الیہ و انا علیہ راجعون !اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور
لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ، آمین ! آپ ۷ مارچ ۱۹۳۸ء کو امروہہ میں
پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی ۔ محمد علی صدیقی اردو کے
علاوہ کئی زبانوں کے ماہر تھے جن میں انگریزی ، فارسی ،فرانسیسی ، سرائیکی
و دیگر زبانیں بھی شامل تھیں ۔ ۲۰۰۳ ء میں آپ نے ’’مطالعہ پاکستان ‘‘ کے
مضمون میں پی ایچ ڈی کا مقالہ جامعۂ کراچی سے تیار کیا اور یوں وہ مطالعہ
پاکستان کے اس خاص موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے ’’دی لِٹ‘‘ بھی قرار
پائے ۔ڈاکٹر صدیقی ’’پاکستان رائٹرز گلڈ ‘‘ کے علاوہ کئی ادبی تنظیموں کے
فعال رکن بھی رہے جن میں ناروے اور دوحہ، قطر کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی
شامل تھیں۔
ڈاکٹر صدیقی اردو کے ایک ممتاز ناقد بھی تھے ،کراچی یونیورسٹی کے ’’مینجمنٹ
اوف سوشل سائنسز ‘‘ کے ڈین بھی رہے ،تقریباً چھ سال ’’ہمدرد یونیورسٹی ‘‘
سے بھی وابستہ رہے اور پھر ’’قائد اعظم اکادمی ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل ہوئے
،ایک سال کے لگ بھگ جامعۂ کراچی میں بھی پڑھایا ۔ڈاکٹر صدیقی نے ایک سو سے
زائد تحقیقی مضامین لکھے اور ۱۶ سے زائد کتب بھی تحریر کیں ۔ ۱۹۷۶ء میں آپ
کو ادبی اعزاز سے بھی نوا زا گیا اور ۲۰۰۳ ء میں حکومتِ پاکستان نے آپ کو
’’صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا۔آپ ’’کینیڈا ساؤ تھ
ایشین ایسوسی ایشن ‘‘ کے پہلے سیکریٹری بھی رہے ۔آپ کے فن پر بارہا پروفیسر
مجنوں گورکھپوری ، اختر حسین رائے پوری ، پروفیسر ممتاز حسین ، پروفیسر
مجتبٰی حسین ،ڈاکٹر علی جواد زیدی ، ڈاکٹر وزیر آغا ، فیض احمد فیض ، ڈاکٹر
گوپی چند نارنگ نے اظہارِ خیال کیا ۔حال ہی میں خالد احمد نے ڈاکٹر محمد
علی صدیقی کی تحریروں کا ایک جائزہ ’’ادراک ‘‘ کے عنوان سے شایع کروایا ۔آپ
کی اہم تصانیف میں ’’توازن ‘‘ ، ’’نشانات ‘‘ ، ’’قائد اعظم اردو ادیبوں کی
نذر ‘‘ ، ’’سر سید احمد خان ‘‘ ، کے علاوہ مرزا غالب ، علامہ اقبال اور جوش
ملیح آبادی پر بھی نادر تصانیف شامل ہیں ۔ |