پہلی صدی کے عظیم درویش کے
کمالات
بچپن کے حالات
حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ ایک ولی کا مل تھے ۔ آپ کو حضرت ام
المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا دودھ پینے کا شرف حاصل ہے ۔ کیو نکہ آپ
کی والدہ حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی کنیز تھیں اور ماں کی
مصروفیت کے اوقات میں آپ ان کو اپنا دودھ پلا دیا کر تی تھیں۔ اس طر ح جو
قطرات شیر بھی دہن مبار ک میں پہنچ جاتے تھے وہی تزکیہ باطن اور رفع منزلت
کا باعث بن جاتے تھے ۔ آپ نے حضور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے
مقدس پیالے سے پانی بھی پیا ہے ۔ ان کی گود میں بھی کھیلے ہیں او ر دعائیں
بھی لی ہیں ۔ آپ کی والدہ محترمہ جب آپ کو گو د میں لیا کر تیں برا بر یہ
دعا کر تی رہتیں کہ بار الٰہی ! میرے اس بچے کو مقتدائے خلق بنانا۔ آپ کا
نا م حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا رکھا ہوا ہے ۔ پیدا ہونے کے بعد جب آپ
کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے لا یا گیا تو انہوں نے آپ کی
خوبصورتی دیکھتے ہی فرمایا کہ اس بچہ کا نا م حسن رکھو ۔
ترکِ دنیا کا سبب
ممکن نہ تھا کہ جو بچہ سرکا ر دو عالم کے گھرمیں پرورش پائے ۔ ام المو منین
کا دودھ پےئے اور جو عہد نبو ت میں پیدا ہو وہ آگے چل کر سر آمد روزگار نہ
بنے ۔ آپ اپنی ذہانت کی وجہ سے بہت جلد علو م ظاہر ی میں کامل ہو گئے اور
ہو ش سنبھا لتے ہی بصرہ میں گوہرفروشی شروع کر دی اور اس تجا رت کو اتنی
وسعت دی کہ روم ایران تک جا نے لگے ۔ آپ بہ سلسلہ تجارت روم گئے ہو ئے تھے
۔ وہاں وزیراعظم سے ملا قا ت ہو ئی جو آپ کو شہر سے باہر لے گیا دیکھا کہ
میدان میں دیبا کا ایک شاندار خیمہ ہے ۔ جس کی ریشمی ڈوریاں طلا ئی میخوں
سے بندھی ہوئی ہیں ۔ فلاسفروں، طبیبوں اور مہ پار ہ کنیزوں کے انبوہ آتے
ہیں اور خیمہ کے قریب کچھ کہہ کر چلے جا تے ہیں ۔ چنا نچہ اس طر ح قیصر اور
قیصرہ بھی آئیں ۔ حضرت نے حقیقت پوچھی ،وزیر اعظم بو لا کہ اس خیمہ میں
شہزادہ کی لا ش رکھی ہے جو مجھ کو نہا یت محبو ب تھا ۔ یہ سب یہاں آکریہ
کہتے ہیں کہ اگر دولت سے ،فوج سے، علا ج سے تجھے بچا یا جا سکتا توضرور
بچالیا جاتا ۔ لیکن جس نے تجھ پر موت طاری کی اس کی مرضی کے خلا ف کوئی دم
نہیں ما ر سکتا ۔ یہ سنتے ہی آپ کا دل دنیا کی طرف سے سرد پڑگیا اور سب کچھ
چھوڑ چھاڑ کر عبادت ِ الٰہی میں مصروف ہو گئے ۔
خشیت ا لہٰی اور عجز و انکساری
اب تو یہ حالت تھی کہ را ت دن مجا ہد ہ و ریا ضت میں مصروف رہتے تھے اور
دنیا سے بالکل قطع تعلق کر لیا تھا ۔ ہیبت الٰہی اس درجہ غالب تھی کہ ہمہ
وقت لرزاں و تر ساں رہتے تھے اور کثیر البکا تھے ۔
ایک دفعہ مسجد کی چھت پر بیٹھ کر اس قدر روئے کہ آنسو پانی کی طر ح پر نا
لے سے بہہ نکلے۔ اسی طر ح کسی جنا زہ کی نماز پڑھائی تو دفن کے بعد ایسی
رقت طا ری ہو ئی کہ وہاں کی خا ک کیچڑ بن گئی اور فرما یا لو گو ! کیوں
بھولے ہوئے ہو ۔ اس عا لم سے کیوں نہیں ڈرتے جس کی ابتدا ءیہ قبر ہے ۔ آخر
تم سب کو یہ منزل پیش آنی ہے ۔ اس وقت قبرستان میں جتنے لو گ تھے سب زار
وقطار رو رہے تھے ۔ خو ف کی یہ شدت اور یہ اتقا ،ملا حظہ فرمائیے کہ شباب و
جوا نی میں نہیں عالم طفولیت میں آپ سے کوئی گنا ہ سر زد ہو گیا تھا تو جب
کوئی کپڑا پہنتے اس کے گریبان پر اسے ثبت کر دیتے اور پھر روتے روتے بے ہو
ش ہوجاتے۔ عجز و انکساری اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ خود کو ہر انسان کے کم
تر سمجھتے تھے ۔ ایک روز آپ نے لب دجلہ ایک حبشی شخص کو ایک عورت کے ساتھ
بیٹھے اور ایک صرا حی سے کچھ پیتے دیکھا ۔ خیا ل کیا کہ یہ شخص تو ضرور مجھ
سے بہتر نہ ہو گا۔ اتنے میں ایک کشتی غر ق ہو ئی اور اس نے فوراً کو د کر
چھ افرا د کو پانی سے نکال لیا اور کہا کہ اگر آپ خو دکو مجھ سے بہتر
سمجھتے ہیں تو جہاں میں نے چھ آدمیوں کی جانیں بچائی ہیں ، آپ ایک ہی کو
بچا لیتے ۔پھر کہنے لگا کہ حضرت اس صرا حی میں محض پانی ہے۔ اور یہ عورت
میر ی ماں ہے ۔ یہ سب کچھ آپ کی آزما ئش کے لیے تھا کہ آپ کی نظر کا اندا
زہ کر وں آپ اسی وقت متنبہ ہو گئے اور پھر خو د کو کسی سے بہتر نہ سمجھا ۔
کسی نے پو چھاآپ بہتر ہیں یا کتا ۔ فرمایا نجات پا ﺅں تو اس سے ضرور بہتر
ہوں ورنہ ایک کتا مجھ جیسے سینکڑوں سے بہترہے ۔
وصال مبارک
آخری عہد بنی امیہ میں آپ نے وفا ت پائی ۔ ایک بزرگ نے خوا ب میں دیکھا کہ
آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور فرشتے منا دی کر رہے ہیں۔ کہ ” حسن خدا
تک پہنچ گیا اور وہ ان سے خوش ہوا“ یکم رجب 110ھ کو بصرہ میں وصال ہوا۔ |