سب سے پہلے میں9 جنوری کی رات سے
10 جنوری تک کراچی، کوئٹہ اور سوات مںے ہونے والے پانچ بم دھماکوں میں سو
سے زیادہ افراد کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں اورآپ سب کے ساتھ
دعاگو ہوں اللہ تعالی شہادت پانے والوں کے لوایقین کو صبر عطا فرمائے اور
ہمارئے وطن پر اللہ تعالی اپنا رحم فرمائے۔
انیس سو اسی سے پینٹاگون اور سی آئی اے ایک بغیر پائلٹ کے جاسوسی جہاز
بنانے کے تجربات کر رہے تھے مگر انیس سو نوے میں سی اےآئی کو ابراہم کیرم
کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا
چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا۔ ڈرون انیس سو نوے کی
دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور انیس سو پچانونے میں پہلی
مرتبہ اسے بالکان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابتداء میں بغیر
پائلٹ کے جہاز کو دشمن کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد
سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر
دیئے گئے۔ ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے
نظام میں چار جہاز، ایک زمینی کنٹرول سٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک
کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔ انیس سو پچانوے سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ
ڈرون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق
اور یمن میں بھی استعمال کیئے جا چکے ہیں۔ اب بھی یمن، افغانستان اور
پاکستان میں ڈرون حملے عام ہیں۔جن میں سے پاکستان کو سب سے زیادہ ڈرون
حملوں کا سامنا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نےاب سے پانچ روز قبل کہا تھا کہ
اگلے 72 گھنٹوں کے دوران سیاسی ڈرون حملہ کروں گا۔ بعد میں انہوں نے یہ کہہ
کر دو دن کا اور اضافہ کردیا کہ پرزے تلاش کرنے ہیں ۔ بہرحال انکے اعلان کے
بعد پاکستان بھر میں قیاس آرایئاں شروع ہوگیں ۔ معاشی اور سیاسی طور پر
بدحال پاکستان اور پاکستانی عوام ایک طرف علامہ طاہرالقادری کے بیانات اور
اشتہارات تو دوسری طرف الطاف حسین کے ڈرون کے انتظار میں اور زیادہ معاشی
اور سیاسی طور پر بدحالی کا شکار ہوگئے۔ علامہ طاہرالقادری کے بیانات اور
اشتہارات تو بارہ جنوری تک چلیں گے اور چودہ جنوری کو تحریر اسکوائر کا
نتیجہ آجائیگا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ " ڈرون صرف ایک جہاز ہی
نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے نظام میں چار جہاز، ایک زمینی
کنٹرول سٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ ہوتا ہے"۔ الطاف
حسین ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں اور پارٹی کا ایک نظام ہے، انہوں نے
ڈرون سائنس کا پورا استعمال کیا، چار سیاسی پرزئے، ایک زمینی کنٹرول سٹشین
یعنی رابطہ کمیٹی اور سیٹلائٹ کو استمال کرتے ہوئے فون کے زریعے دس جنوری
کی شام ایک سیاسی ڈرون حملہ کیا۔ انکے ڈرون حملوں میں جو پرزے وہ تلاش کرکے
لائےوہ کچھ اسطرح سے تھے۔
۱- چودہ جنوری کو اسلام آباد میں عوامی لانگ مارچ میں ہرقیمت پرشرکت کریں
گے
۲- پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے
۳- ایم کیوایم ، سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی لہٰذا اردوبولنے والے سندھیوں کو
دیوار سے نہ لگایا جائے
۴- ایم کیوایم جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہے
اپنے ڈرون حملے کے آخر میں الطاف حسین نے کہا "آخر میں، میں ان دعاؤں کے
ساتھ کہ اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا رحم وکرم فرمائے۔ اور عوام میرے بیان
کردہ آج کے ا س مقدمے کو جسے میں نے سیاسی ڈرون دھماکے سے تعبیر کیا اس کے
ایک ایک لفظ پر غورکرکے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں کہ میں کہاں تک درست
ہوں۔اور کہاں تک غلط"۔ آئیے اس ڈرون حملہ کے پرزوں کو سیاسی طور پر چیک
کریں کہ یہ پرزئے کہیں ناکارہ تو نہیں تھے۔ بقول الطاف حسین ہم پہلی کلاس
کی سیاسی تاریخ کے طالبعلم تو بن سکتے ہیں یا یوں سمجھیے کہ ہم کسی استاد
کاریگر کے چھوٹے ہیں۔
الطاف حسین نےاپنے پہلے پرزئے "چودہ جنوری کو اسلام آباد میں عوامی لانگ
مارچ میں ہرقیمت پرشرکت کریں گے" کا استعمال یہ کہہ کر کیا " علامہ
طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں چند روز باقی ہیں ، ان جائز مطالبات کی ایم
کیوایم نے نہ صرف حمایت کی بلکہ ساتھ دینے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ انشاء
اللہ ایم کیوایم چودہ جنوری کو اسلام آباد میں عوامی لانگ مارچ میں ہرقیمت
پر شرکت کرے گی ۔ ایم کیوایم کی شرکت پر اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ ایم
کیوایم حکومت کی اتحادی ہے اور لانگ مارچ میں شرکت بھی کررہی ہے تو لانگ
مارچ میں شرکت کا اعتراض صرف ایم کیوایم پر کیوں کیاجاتا ہے کیا موجودہ
حکومت سمیت تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے لانگ مارچ نہیں کیے ؟جب کوئی
جماعت کسی حکومتی جماعت سے اتحاد کرتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا
کہ وہ حکومت کے ناجائز مطالبے تسلیم کرے ۔حکومت بسااوقات ایسے اقدامات کرتی
ہے جو اس کی اتحادی جماعت کو پسند نہیں آتے"۔
محترم الطاف حسین صاحب ایم کیوایم یا کسی بھی سیاسی جماعت کو جمہوری اور
آئینی طور پر یہ پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ضرور لانگ مارچ
کرئے لیکن اگر آپ بینظیربھٹو یا نواز شریف کے لانگ مارچ کو مثال بناتے ہیں
تو یہ مناسب نہ ہوگا ، کیونکہ یہ دونوں لیڈر لانگ مارچ کے وقت حکومت مخالف
لیڈرتھے، حکومت کے اتحادی نہیں تھے، ان کی جماعت کا کوئی بھی رکن وزیر یا
حکومتی عہدےدار نہیں تھا۔ جبکہ آپکی جماعت نہ صرف حکومت کی اتحادی ہے بلکہ
آپکی جماعت کے رکن وزیر بھی ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی اتحادی حکومت
ہے اور وہاں بھی چھوٹی جماعتوں کو شکایات ہوئی لیکن ان جماعتوں نے پہلے
اپنے آپ کو حکومت سے علیدہ کیا پھر احتجاج کیا۔ پاکستان میں نواب زادہ
نصراللہ خاں کو بابائے احتجاج کہا جاتا تھا، ان کے بارے میں کہا جاتا تھا
کہ وہ اگر حکومت میں ہوں تو اس کے خلاف بھی احتجاج کریں مگر ایک مرتبہ جب
وہ بینظیربھٹو حکومت میں تھے تو انہوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کہیں
نادانستہ طور پر آپ کا لانگ مارچ موجودہ حکمراں ٹولے کو نئی زندگی نہ دے
بیٹھے ۔موجودہ حکمراں ٹولہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ وہ پھر مظلوم بن جائے، اس
لیے اپنے ایک وزیراعظم کو عدالت کے زریعےسیاسی شہید کرواچکے ہیں۔ اب اگر
چودہ جنوری کو یا اسکے بعدیہ لولی لنگڑی جمہوریت ختم ہوی تو لٹیروں کا یہ
ٹولہ ایک مرتبہ پھر مظلوم بن جائیگا اور اس ملک کےمقدرمیں پھر اندھیرا
ہوگا۔ بہرحال آپکا یہ احتجاج تایخی اور سیاسی طور پر غلط ہوگا۔
الطاف حسین نےاپنے دوسرئے پرزئے " پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے بغیر
جمہوریت فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے" کا استعمال یہ کہہ کر کیا "جمہوریت کے
بلندوبانگ دعوے کرنے والی جماعتیں جمہوریت کی نرسری لوکل باڈیز کے انتخابات
کی حمایت نہیں کرتی ، میں جمہوریت کے دعویداروں سے پوچھتا ہوں کہ جمہوریت
کی پرائمری ادارے لوکل باڈیز کا خاتمہ کیوں کیا گیا؟انہوں نے کہاکہ پاکستان
میں بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے، جہاں لوکل
باڈیز نہیں ہوں وہاں سینٹ ، قومی وصوبائی اسمبلی کے ایوان ملک وقوم کو کوئی
فائدہ نہیں پہنچاسکتے ۔یہ انتہائی تلخ حقیقت اور بدقسمتی ہے کہ پاکستا ن
میں گلی گلی جمہوریت کے نظام یعنی بلدیاتی نظام کو سول حکومتوں کے دور کے
بجائے صرف فوجی حکومتوں میں پہنچایا گیا”۔
محترم الطاف حسین صاحب آپکی یہ بات سو فیصد درست ہے ۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے
کہ پاکستان کی تاریخ میں آجتک جتنے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں وہ فوجی
حکومت کے دور میں ہی ہوئے ہیں۔سیاستدان ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے بھاگتے
ہیں جبکہ فوجی حکومت اپنے لیے بلدیاتی انتخابات کو آب حیات سمجھتی ہیں۔ ایم
کیو ایم کے سیدمصطفی کمال 2005 میں کراچی کے دوسرئے ناظم بنے۔ نوجوان مصطفی
کمال نے وہ کمال کر دیکھایا جس کا کراچی میں رہنےوالا کوئی باشندہ تصور بھی
نہیں کرسکتا تھا- ان کا دور کراچی کی ترقی میں ایک سنہری دور کے نام سے یاد
رکھا جائے گا- جس ملک میں لوگ کسی کام کے ہونے کا خواب دیکھتے ہوں، وہاں
لوگوں نے ایک معجزہ دیکھا، کراچی صرف چند سال کیا سے کیا ہوگیا۔ اس بات کو
تقویت جب اور ملی جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کام کیسے ہوتا ہے کے لیے اس
کی مثال کے طور پر کراچی کے کام کا حوالہ دیا تھا۔ ان حالات کو سامنے رکھتے
ہوئے پاکستان کی کوئی بھی صوبائی حکومت بلدیاتی نظام کو واپس لانا نہیں
چاہتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلی سے پاس شدہ بل پر اب تک عمل نہیں
ہوسکا ۔ اور جب آپنے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا تو صوبائی
وزیربلدیات نے اس بل پر عمل نہ کرنے کا اعلان تک کرڈالا۔ ویسے بھی اگر اس
سال عام انتخابات ہوتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات شاید اگلی حکومت ہی کرائے۔
اسلیے اب جبکہ آپ لانگ مارچ کررہے ہیں اور علامہ طاہرالقادری کے مطالبات
میں بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں ہے، آپکا یہ کہنا "پاکستان میں
بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے" حکمراں ٹولے پر
اثرانداز نہ ہوسکے گا۔
الطاف حسین نےاپنےتیسرئے پرزئے " ایم کیوایم ، سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی
لہٰذا اردوبولنے والے سندھیوں کو دیوار سے نہ لگایا جائے" " کا استمال یہ
کہہ کر کیا " پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں کہ لوکل باڈی کے نظام سے سندھی قوم
پرست ناراض ہوجائیں گے تومیراان سے سوال ہے کیا ہم سندھی نہیں ہیں؟انہیں
اردو بولنے والے سندھیوں کی ناراضگی کا خیال کیوں نہیں آتا۔جناب الطاف حسین
نے کہاکہ ایم کیوایم یہ دھونس دھمکی اس لئے برداشت کررہی ہے کہ ہم سندھ کی
تقسیم نہیں چاہتے لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ اردوبولنے والے سندھیوں کو
دیوارسے لگانے کا عمل بند کردے ۔اگر اردوبولنے والے سندھی قوم پرست ناراض
ہوگئے تو بات صرف لوکل باڈیز تک محدود نہیں رہے گی اوروہ مجبوراً سندھ کی
تقسیم کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوجائیں گے۔
محترم الطاف حسین صاحب آپکا یہ کہنا کہ " اگر اردوبولنے والے سندھی قوم
پرست ناراض ہوگئے تو بات صرف لوکل باڈیز تک محدود نہیں رہے گی اوروہ
مجبوراً سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوجائیں گے"۔ دراصل بلدیاتی
نظام کے سلسے کی ہی ایک کڑی ہے اور اس سلسلے میں آپکے حکمراں اتحادی آپ سے
کھیل رہے ہیں۔ آپ لانگ مارچ کررہے ہیں اور علامہ طاہرالقادری کے مطالبات
میں یہ مطالبہ بھی ہر گز شامل نہیں ہے کہ"اردوبولنے والے سندھیوں کو دیوار
سے نہ لگایا جائے"۔ اس لیے آپکے حکمراں اتحادی بجائے پریشان ہونے کے خوش
ہونگے کہ آپکے اس بیان کے بعد لازمی وہ سندھی قوم پرستوں سے اچھی سودے بازی
کرسکیں گے اور دوسری طرف آپکے خلاف پروپگنڈہ کرکے ایم کیوایم کو ایک سندھ
دشمن جماعت ظاہر کرینگے۔ اور یہ بات سیاسی طور پر ایم کیو ایم کے لیے نقصان
دہ ہوگی۔
الطاف حسین نےاپنےچوتھےپرزئے " ایم کیوایم جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہے "
کا استعمال یہ کہہ کر کیا "ایم کیوایم ، جمہوریت کی روح کے مطابق ملک میں
جمہوریت کا نفاذ چاہتی ہے ۔ بہت سے لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ ایم
کیوایم جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہے لیکن اسمبلیوں میں جاگیرداروں اور
وڈیروں کے ساتھ بھی بیٹھی ہے تو ایک راستہ یہ ہے کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھیں
اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم حکومت کی حلیف جماعت بن کر اپنے پیغام اور
نظریہ کو ملک کے گوشے گوشے میں پھیلائیں ۔ الطاف حسین نے کہاکہ اسلام
آبادکے لانگ مارچ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ لانگ مارچ سے جمہوریت کو
نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ، وقت پر الیکشن ہونے دیا جائے اور جو جماعت کامیا
ب ہواسے حکومت بنانے دی جائے لیکن یہ ناقدین یہ بھول جاتے ہیں کہ اس فرسودہ
جاگیردارانہ نظام میں جو بھی جماعت کامیاب ہوگی وہ اسی فرسودہ نظام کے تحت
ہی کام کرے گی"۔
محترم الطاف حسین صاحب آپکا یہ کہنا کہ " اس فرسودہ جاگیردارانہ نظام میں
جو بھی جماعت کامیاب ہوگی وہ اسی فرسودہ نظام کے تحت ہی کام کرے گی"، تو
پھرآپکو ایک منٹ بھی ان کے اتحادی کے طور پر نہیں رہنا چاہیے۔ آپکی جماعت
کے علاوہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ق اور اے این پی میں اسی فرسودہ نظام کے
حامی ہیں۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے یہ جماعتیں لبالب بھری ہوئی ہیں۔
پاکستان کا حکمراں طبقہ جو صرف پاکستان کا پانچ فیصدہے، جاگیردار اور
سرمایہ دار ہیں، دونوں عوام کا خون چوستے ہیں اور جمہوریت کے نام پر ملوکیت
قایم رکھتے ہیں۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ آپ اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں مگر
دوسری طرف آپکی جماعت کے گورنر اپنے دس سال پورئے کرچکے اور وہ بھی ملوکیت
میں۔ اگر ایم کیوایم ، جمہوریت کی روح کے مطابق ملک میں جمہوریت کا نفاذ
چاہتی ہے تو سب سے پہلے اُسے ملوکیت کو ختم کرنا ہوگا۔ آصف زرداری نے بلاول
کو ہمارا اگلا حکمراں بنادیا ہے، اس سے بڑی ملوکیت کی مثال اور کیاہوگی۔
جدید سیاسی تاریخ میں نیلسن مینڈیلا ایک مثال ہے جو 28 سال تک قید میں تو
رہے مگر اپنے نظریے سے ایک دن بھی انحراف نہیں کیا۔
الطاف حسین کے ڈرون حملے میں ان کے چاروں پرزئے اس وقت تو ناکارہ ہیں ۔ایک
خبر کے مطابق علامہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کیلئے جان
دینے کو تیار ہوں، لانگ مارچ نہیں رکے گا،انتخابی اصلاحات کیلئے حکومت کو
دی گئی ڈیڈ لائن آج ختم ہونے کے بعد لانگ مارچ سمیت آئندہ کی حکمت عملی کا
اعلان کروں گا۔ طاہرالقادری نے مزید کہا کہ ہم قوم کو کسی بھی صورت مایوس
نہیں کریں گے بلکہ انتخابی اصلاحات، ملک کی بقاء و سلامتی اور ترقی کے لئے
ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم
اور منہاج القرآن کا لانگ مارچ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یا کسی اور
جماعت کیخلاف نہیں بلکہ کرپٹ نظام کیخلاف ہے اور ایم کیو ایم پہلے بھی
حکومت کی اتحادی تھی اور آج بھی ہے۔
عجب ہے تیری سیاست ،عجب ہے تیرا نظام
حسین سے بھی مراسم ، یزید کو بھی سلام |