جب قانون غریبوں کے لئے ہاتھ میں
لینے کا نہیں ہے تو اُمراکے گلے کا ہاربھی تونہیں ہوناچاہئے .. ؟
میں اپنا کالم شروع کرنے سے قبل اپنے قارئین کو یہ بتانازیادہ
بہترسمجھتاہوں کہ میں نے اپنے آ ج کے کالم کا عنوان یہ کیوں رکھاہے ...؟تومیں
عرض کرتاچلوں کہ ہمارے ملک کے ایک معروف بزرگ کالم نگار ہیں جو میری دھرتی
سندھ سے تعلق رکھتے ہیں گزشتہ دنوں اِن کا ایک کالم ملک کے ایک مُوقر
روزنامے میں بعنوان”قانون ہاتھ میں لینے کانہیںہے“شائع ہوااُنہوںنے اپنے
اِس کالم کی ابتداءایک غریب اور بوڑھے دکاندار کے ساتھ اِس کی دکان میں پیش
آنے والے ڈکیٹی کے المناک واقعہ سے کی ہے اُنہوں نے لکھاہے کہ جس وقت ڈاکو
اِس ضعیف دکاندار کو لوٹ کرجارہے تھے تو اِسی دوران دکاندارکے نوجوان بیٹے
نے پیچھے سے اپنی بستول سے اِن ڈاکووں کو نشانہ بناناچاہ جس پر ضعیف
دکاندارنے اپنے بیٹے کو روکتے اور اِسے سمجھاتے ہوئے کہاکہ”قانون ہاتھ میں
لینے کا نہیں ہے“ یوں اِس واقعہ اوراِس ایک نقطے کی بنیاد پر اُنہوں نے
اپنا کالم تحریرکیااِس پر میراخیال یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے اِس کالم میں
اپنے معاشرے کے صرف ایک مظلوم غریب طبقے کی نشاندہی کی ہے جواکثریت میں
ہونے کے باوجود بھی بے بس ہے جبکہ اپنے معاشرے کے اُس طبقے اور عناصر
کاکوئی تذکرہ نہیں کیاجو قانون کوکچھ نہیں سمجھتاہے مگرمیں نے اپنے اِس
کالم میں اُن دوعناصرکی جانب اشارہ کردیاہے جن کی وجہ سے قانون کی حکمرانی
قائم نہیں ہوپاتی ہے۔
اَب اِس سارے پس منظر میں ایک بات جو میں اگلی سطور میں کہنا چاہتاہوں اور
میں اِسے صرف اپنی سرزمینِ پاکستان میں بسنے والوں کے لئے قید بھی نہیں
کرناچاہوں گا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ” قانون صرف امیروں کے لئے ہے اور
سزاغریبوں کے لئے “بلکہ میںیہ کہناچاہتاہوں کہ آج بھی دنیامیں جہاں کہیں
اِنسان بستے ہیںاور اِسی طرح جہاں کہیں بھی قانون رائج ہے اور اِس کی
حکمرانی قائم ہے تووہاں بھی ہر زمانے سے ہر معاشرے میں یہ جملہ باکثرت سُنا،
پڑھااور دُھرایاجاتارہاہے کہ”قانون کے سامنے سب برابرہیں“مگر میں یہ
سمجھتاہوں کہ درحقیقت یہ جملہ ہرزمانے اورہر سوسائٹی کے مکینوں کے لئے
اتناہی مشکل رہاہے جیساموجودہ حالات میں یہ اتناہی گھمبیر ہے جتنایہ کہناکہ”
سارے اِنسان باہم برابر ہیں“ یوں صدیوں سے ہی ہر زمانے او ر سوسائٹی میں
قانون کوامیروں نے اپنے گلے کاتوہار بنائے رکھا اور اِس کے طلسماتی اثر سے
غریبوں کا چہرہ مسخ کیایوں اِنہوں نے جب اورجیسے چاہا...اِسے اپنی مرضی سے
غریبوں پر بیدریغ استعمال کیا اور اِنہیں قانون کے شکنجوں میں جکڑ کر اِن
کی نسلوں کا خون نچوڑا آج بھی کچھ اِسی کیفیت سے دنیا کے اکثرممالک اور
معاشرے ضرور دوچار ہیںمگر اِن ممالک اورسوسائٹیزکی فہرست کا جائزہ لیاجائے
تو میراملک پاکستان بھی نمبرشمار کے کسی درجے پر ضرورآتاہے جہاںقانون صرف
حکمرانوںاور امیروں کے لئے اِن کے گلے کا ہار بناہوا ہے تووہیں قانون جرائم
پیشہ عناصر کے لئے چٹکی اور ہتیلی پررکھ کر اُڑا دینے والے سفوفی مشغلے
جیسا ہے تو وہیں مندرجہ بالادونوں طبقوں کے معاشرے میں بسنے والے غریب بھی
ہیں جو اِن دونوں کے ہاتھوں پس رہے ہیں اور یہی غریب ہیں جو اکثریت میں
ہونے کے باوجود بھی قانون شکنی کا سوچنااپنے لئے ا چھوت جانتے ہیں اور آج
بھی ہمارے معاشرے کے غریب ایسے ہیں جو اپنے اِس عقیدے اور یقین پر قائم ہیں
کہ ”قانون ہاتھ میں لینے کا نہیں ہے“ ۔کیوں کہ شاید ہماری سرزمین میںبسنے
والاہرغریب یہ جانتاہے کہ تحریری قانون مکڑی کے جالے کے مانندہے جس میں صرف
کمزورہی پھنس جاتاہے اور طاقت ور(جوحکمران، امیراور قانون شکن ہے وہ اِسے )توڑکرنکل
جاتاہے اِس موقع پر مجھے مارکس کا یہ جملہ یاد آگیاہے اِ س نے کبھی کہاتھا
کہ”قانون حکمرانوں کے ہاتھوںمیں جبرکا ایک ہتھیار ہوتاہے“ یعنی جس سے یہ
اپنی رعایاکو قابومیں رکھتے ہیں اور اپنی حکمرانی کا سکہ چلاتے ہیں جبکہ
اِس کے برعکس داناکاخیال یہ ہے کہ کسی بھی ملک اور معاشرے میں قوانین کی
کثرت یہ ظاہرکرتی ہے کہ یاتو حاکم بہت جابر ہیںیا عوام بے حدبے لگام،اور
اِس پر اہلِ دانش یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک اور معاشرے کا دستوراور
قانون بظاہرکتناہی ارفع واعلیٰ کیوں نہ ہواگراِس کے نافذکرنے والے اچھے
اخلاق کے مالک نہ ہوں تو اِس صورت میں دستورو قانون اپنی تمام خوبیوں کے
باوجوداپنی افادیت کھودیتاہے اوراِسی طرح ایک جگہہ ول ڈیورنٹ کا قانون سے
متعلق یہ کہناہے کہ ” جانورایک دوسرے کو بغیرکسی ہچکچاہٹ یا ضمیر کی خلش کے
کھاجاتے ہیں اور مہذب معاشروں کے تہذیب کی اُونچائیوں کو چھوتے اِنسان ایک
دوسرے کو ہڑپ کرنے کے لئے قانون کا سہارالیتے ہیں“۔
جبکہ اِسی طرح جیفرسن اور ون سٹینلی کااِن تمام معاملات پر یہ کہناہے کہ
”قوانین کی تشکیل سے کہیں زیادہ اہم کام اِن کی بہترطریقوں سے تعمیل
کرواناہے“اور”ایسے تمام قوانین جن کے سہارے ظالم خواہ(حکمران، سیاستدان،
فورسزاور جرائم پیشہ) طبقہ ہی کیوں نہ ہو لوگوں کو ستاتاہے وہ منسوخ کردیئے
جائیں اور ایسے قوانین فی الفور نافذکئے جائیںجن سے لوگوں کی آزادی کا تحفظ
ہوسکے“مگرآج ہمارے ملک اور معاشرے میں ایساکچھ نہیں ہورہاہے جس سے ملک کے
ظالم طبقے سے غریبوں کو نجات ملے اور اِن کے اندر اپنی آزادی کا احساس
پیداہوموجودہ حالات میں جب میں اپنے معاشرے کے اردگرداگر نظردوڑاتاہوں تو
مجھے ایسالگتاہے کہ جیسے کسی کی طاقت کے خیال سے قانون کا پلڑااِس کے حق
میں جھک ساگیاہے تواِس پر مجھے یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ جیسے آج مسلم حکومت
اور قیصروکسریٰ کی حکومت میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیاہے...؟؟ہمارے یہاں
قانون کے نفاذ کے معاملے میں یہ تضاد محض اِس لئے ہے کہ زمانے ماضی کی طرح
آج بھی قانون ہمارے حکمرانوں اور ایک مخصوص امیرٹولے اور قانون شکنوں کے
ہاتھ میں کھلونابن کر اِن کے گلے کا ہار کی شکل اختیارکر گیاہے جِسے یہ جس
طرح چاہ رہے ہیں اپنی مرضی اور منشاسے نمائش بھی کررہے ہیں تووہیں یہ عناصر
ملک کے غریبوں پر اِسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال بھی کررہے ہیں اور اپنی
حکمرانی اور داداگیری کابھرم بھی قائم کئے ہوئے ہیں اَب ایسے میں معاشرے
میں افتراق اور انتشار اور دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ سمیت شاہ زیب قتل کیس
جیسے واقعات کا پیداہونالازمی ہوگیاہے۔(ختم شد) |