ٹیررزم انشورنس کے ذریعہ دہشت
گردی کے واقعات کے دوران قومی اور نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ
ہونا چاہیئے۔
پاکستان کو اس وقت سب سے پیچیدہ مسئلہ جو درپیش ہے، وہ دہشت گردی ہے ۔ جنرل
ضیاء الحق کے دور میں شروع ہونے والا یہ مسئلہ اب ہماری زندگی کا حصہ بن
چکا ہے۔روزانہ ہلاکتیں،کہیں بم دھماکہ ہے تو کہیں ٹارگٹ کلنگ، لوگ ٹارگٹ
کلنگ میں مارے جائیں یا ‘ فرقہ واریت میں، بم دھماکے سے ہلاک ہوں یا خودکش
حملے میں ، رزق خاک بنے والے یہ افراد اس قوم کا حصہ ہیں۔ یہ افسوس ناک
خبریں ہماری زندگی کو آہستہ آہستہ تبدیل کر رہی ہیں۔ یہ خبریںہم روزانہ
پڑھتے ہیں۔ سن اور دیکھ رہے ہیں‘ ان خبروں نے ہماری اجتماعی نفسیات تبدیل
کر دی ہے‘ ہمارے اندر سے زندگی کی محبت اور موت کا افسوس نکل گیا ہے‘ ہم اب
بم دھماکوں‘ خودکش حملوں‘ روڈ ایکسیڈنٹس‘ فرقہ وارانہ اور خاندانی دشمنیوں
کی ہلاکتوں کو ڈرامے کی طرح دیکھتے ہیں‘ ہم نعشوں کے قریب سے گزرتے ہیں۔
اور لمحہ بھر کو نہیں رکتے۔ دوسری جانب اس کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے
کہ ہم نے جدید دور کے تقاضے بھی نہیں اپنائے، معاشی تحفظ یا کسی خاندان کو
اپنے پیروں پر کھڑا رکھنے کے لئے نہ تو اجتماعی انداز میں اور نہ ہی
انفرادی طور پر ہم نے کوئی منصوبہ بندی کی ہے۔ انشورنس یہ بیمہ ایک ایسا ہی
منصوبہ ہے۔ لیکن اس جانب سے ہماری عدم توجہی نے اس مفید منصوبے سے ہمیں دور
کر دیا ہے۔ دوسری جانب بیمہ زندگی کی پالیسی میں ایک ایسی شق بھی موجود ہے
جو ایک بیمہ دار کو دہشت گردی،بم دھماکے، جنگ یا ہنگامے میں ہلاک ہونے پر
بیمے کے تحفظ سے محروم کر دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شق کو تبدیل
کیا جائے،حال ہی میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والے مالی نقصان سے
کاروباری طبقے کو محفوظ رکھنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک پیش رفت
کی ہے۔ اب ایشیائی بنک پاکستان میں انشورنس ٹیررزم پول بنانے میں حکومت کی
مدد کے لیے تیار ہو گیا اس سلسلے میں سیکورٹی ایکسچینج کمیشن کو قوانین کی
تیا ری کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ابھی تک اس کی پیش رفت سست ہے۔ اگر یہ
قوانین جلد تیار ہوجائیں اور عمل درآمد کے لئے نافد کر دیئے جائیں تو
روزانہ ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں کی اشک شوئی ہوسکتی ہے۔ ایشیائی
ترقیاتی بینک کے ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان اور بینک کے درمیان یہ نظام
ترتیب دینے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ٹیررزم انشورنس کا مقصد دہشت گردی کے
واقعات کے دوران قومی اور نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ اور ان
واقعات میں تلف ہونے والی انسانی جانوں کے نقصان کا مداوا کرنا ہے۔ لیکن یہ
امر بھی قابل غور ہے کہ ابھی تک ملک میں کوئی بھی انشورنس کمپنی دہشت گردی
اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے منصوبے پیش نہیں
کرتی ہے۔ ہمارے یہاں روائیتی بیمہ پالیسیاں ہیں۔ جن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
خیال ہے کہ اس پول کے قیام کے ذریعے حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بینک مل کر
بیمہ کمپنیوں کے ذریعے ایک ایسا نظام ترتیب دیں گے جس میں دہشت گردی اور
سیاسی افراتفری کے باعث ہونے والے نقصان کو بھی بیمہ کمپنیاں قبول کر سکیں
گی۔امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک میں
ٹیررزم انشورنس پول قائم کیے گئے ہیں جن کے ذریعے دہشت گردی سے ہونے والے
نقصان کابیمہ کیا جاتا ہے۔پاکستان میں کئی برس سے اس نظام کی ضرورت محسوس
کی جا رہی ہے۔ لیکن سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث بیمہ کمپنیاں دہشت گردی
کے خلاف بیمہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔دہشت گردی،
لاقانونیت اور بدامنی کے باوجود پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم شہریوں کو
بیمے کا تحفظ حاصل ہے۔ ہماری 99 فیصد آبادی کم علمی اور وسائل کی کمی کے
باعث بیمے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے بچت اور سرمایہ کاری کے منصوبوں سے
مدد نہیں لیتی۔ اب چند برسوں سے پاکستان میں لائف انشورنس اور املاک کی
انشورنس کا رجحان بڑھ رہا ہے، بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور لاقانونیت کے سبب
انشورنس کمپنیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، محترمہ بے نظیر شہید کی شہادت
کے بعد پورے ملک میں ہونے والی بدامنی اور نقصانات کے واقعے سے انشورنس
کمپنیاں خوفزدہ ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ انشورنس کمپنیاں حساس اور غیرمحفوظ
علاقوں میں تجارتی و کمرشل املاک کو انشورنس کا تحفظ فراہم کرنے سے اجتناب
کررہی ہیں یا پھران سے زائد پریمیم طلب کیا جارہا ہے۔
امن وامان کی سنگین صورتحال، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر پہنچنے کے
باوجود پاکستانی عوام اپنی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے سرمایہ کاری سے
گریزاں ہیں، بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں انسانی جانوں
کے ضیاع کے باعث گزشتہ 4 سال کے دوران اگرچہ انفرادی بیمہ زندگی کا تحفظ
حاصل کرنے والوں کی شرح 69.56 فیصد جبکہ گروپ انشورنس کا تحفظ حاصل کرنے
والوں کی شرح138.23 فیصد بڑھی ہے لیکن اسکے باوجود پاکستان کی مجموعی آبادی
کا99.4 فیصد حصہ انشورنس کے تحفظ سے محروم ہے اورصرف آبادی کے0.6 فیصدحصے
نے انشورنس کا تحفظ حاصل کیا ہوا ہے۔عام آدمی پہلے ہی ہوشربا مہنگائی، بے
روزکاری، بجلی اور گیس کے اخراجات اور گھریلو بجٹ سمیت دیگر معاشی مسائل سے
دوچار ہے۔ بڑھتی ہوئی بدامنی سے خوفزدہ ہوک وہ بیمہ زندگی اور املاک
وکاروبار کا بیمہ کرانے پر مجبور ہوگیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ حادثے کی
صورت میں اسکے خاندان کو معاشی سپورٹ حاصل ہوسکے۔ لیکن اس کے لئے انشورنس
کمپینوں اور حکومت کو بھی آگے بڑھنا ہوگا۔ تاکہ ملک میں دہشت گردی کے
واقعات میں ہونے والے مالی نقصان سے کاروباری طبقے کو کچھ ریلیف مل سکے۔ |