14جنوری، لاکھوں افراد کو لیکر
اسلام آباد میں التحریر اسکوئر بنانے کے خوائش مند وں کے لئے کوئی دو رائے
نہیں ہے کہ 'ہزاروں خوائشیں ایسی کہ ہر خوائش پر دم نکلے" .لیکن بہرحال ،
کیونکہ طاہر القادری اور ایم کیو ایم کےساتھ ساتھ اب وحدت المسلمین نے بھی
اپنے عقیدت مندوں کا انتہائی سخت سردی میں امتحان میں لینے کا فیصلہ کرلیا
ہے تو انھیں کم از کم میرے جیسے کالم نویس روک نہیں سکتے۔اختلاف بھی
رائیگاں جائےگا کیونکہ" طوطی کی آواز کون سنتا ہے"۔اجتماع میں جب لاکھوں کی
تعداد (چالیس لاکھ) افرادکےلئے کم ازکم ایک لاکھ بسیں، ہزاروں متفرق گاڑیاں
،روزانہ کروڑوں روپے کے مصارف ، پنڈی اور اسلام آباد کے گرد ونواح والوں
کےلئے جب ایک زبردست معاشی سیزن لا رہا ہو تو انکی جانب سے ایسے تما م لانگ
،شارٹ ،مڈٹرم مارچ کو ویلکم کہا جائےگا کیونکہ انھیں یقین ہے کہ ان کے وارے
نیارے ہوجانے ہیں ، اتنی بڑی تعداد میں آنے والوں کو پانی کاپیالہ بھی چائے
کی قیمت پر ملے گا ،کھانے کےلئے چنے بھی کم پڑ جا ئیںگے ،بھوک حالی سے
لاکھوں افراد کی ناتوانی اور پھر ہنگامی حالات کےلئے ہزاروں ایمبولینس،
پوری دنیا کا میڈیا ، پٹاخہ کسی نے چھوڑ دیا توبے ہنگم بھاگم دوڑ ،تو اس
منظر میں دیکھنا ہوگا کہ کون کتنا ثابت قدم رہا ۔ بھوک اور نیند ایسی فطرت
کی چیزیں ہیں کہ انسان سولی پر بھی ہو، تو آجاتی ہے کیونکہ یہ انسانی جسم
کی خوائش نہیں بلکہ اس کی ضرورت ہے۔ملکی تاریخ کی سخت ترین سردی میں یخ
موسم کی سخت جولانیوں سے نہ جانے کتنی جانیں سخت جان ثابت ہونگی کچھ اندازہ
نہیں ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ تحریک طالبان بھی اس مارچ سے متاثر ہوکر
دستبردار ہو ئے اورانھیں بیان جاری کرنا پڑا کہ نہیں جی ، "ہم پہلے کاروائی
کرتے ہیں پھر قبول کرتے ہیں" ، اعلی عدلیہ سے صادق اور امین کا صداقت نامہ
حاصل نہ کرنے والے ڈاکٹر عبدالرحمن ملک ،ترجمان طالبان کے اس بیان پر چراغ
پا ہوگئے کہ قادری صاحب کو اب طالبان" بھی "گمراہ کرنے لگے ہیں۔اس بات میں
کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سال176ممالک کی فہرست میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی
حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان بد عنوانی کے 42واں نمبر سے33درجے پر پہنچ
چکاہے ۔ارباب اقتدار اصلاح کے بجائے اپنے ایک ایک پل کو کرپشن تحفظ کےلئے
دل و جان کی بازی لگاتے رہے ہیں۔سونامی خان ،طاہرالقادری کے ایجنڈے پر مکمل
متفق ہیں ۔لیکن لانگ مارچ میں شرکت سے ایم کیو ایم کی وجہ سے گریزاں ہیں یا
شائد عدلیہ بحالی مہم میں ان کےساتھ، جو ہاتھ ہوگیا تھا اس جھٹکے سے ابھی
تک وہ باہر نہیں نکل سکے ، ایم کیو ایم کی بھرپور حمایت نے کراچی کے پرسکوت
سمندر میں تلاطم پیدا کرکے الٹا سمندر بہانے کےلئے اپنی کشیتاں جلانے کے
بھرپور عزم ِ نے بھی سونامی خان کو کہنے پر مجبور کردیا ہوگا کہ " بیڑا غرق
کردیا ہے میرے سونامی کا، ان لانگ مارچ والوں نے"۔ پاکستان میں لانگ مارچوں
سے ہمیشہ فائدہ تیسری قوت کوپہنچا ہے۔اب تیسری قوت کون ہے اس بارے میں
متضادآرا ہیں اسلئے اس پر توقف کرتے ہیںکہ جو کچھ بھی ہو، جتنے منہ اتنی
باتیں ہیں ، لیکن میاں نواز شریف کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ "لگ
پتہ چل جائےگا"۔انقلاب کی پر امن ماہیت تو قدرتی تبدیل ہو سکتی ہے ، لاکھوں
افراد کو دس ہزار نفوس پر مشتمل بچارے سیکورٹی والے نہیں روک سکیں گے ۔تصادم
کا مکمل خطرہ ہے کیوں وہاں کوئی بھی پکنک منانے نہیں جا رہا ۔اسلام آباد کی
سردی کم کرنے کےلئے آگ بھی ضرور جلے گی ،نتائج کچھ بھی ہو لیکن "لگ پتہ چل
جائے گا"۔پاکستان اپنے دورپیدائش سے جن کفیات سے گذر رہا ہے اور لانگ مارچ
، ماہ مارچ سے پہلے کئے جاتے رہے ہیں اس کا فائدہ براہ راست عوام کے غیر
سیاسی قوت کو ہی پہنچتا رہا ہے۔قیام پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ
مارچ1958ءمیں اسکندر مرزا کے خلاف خان عبدالقیوم خان کی جانب کی گئیں۔نتیجہ
یہ نکلا کہ اقتدار سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں میں جانے کے بجائے فوجی
آمر ایوب کے ہاتھوں چلا گیا۔پھر ایوب خان کےخلاف 1968ءمیں تحریک چلی تو
اقتدار سیاسی ہاتھ کے بجائے فوجی ہاتھوں میں ہی گیا۔سقوط ڈھاکہ کا المیہ
ہونے کے بعد بھی کسی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے اور پاکستان کے بٹوارے کے بعد
ذوالفقار بھٹو کےخلاف تحریک چلی تو اقتدار پھر فوجی جنرل ضیا ءالحق کے
ہاتھوں 1977ءمیں چلا گیا اور آج کل جیالے جیسے" مقدس آئین "کہتے ہیں وہ
فوجی بوٹوں تلے روند دیا گیا کیونکہ "مکافات عمل "تو قدرتی امر ہے۔پاکستانی
قوم کولانگ ماچ ،احتجاجی تحریکیں چلانےکا بہت تجربہ , لیکن نتائج کی پرواہ
نہیں ہے اسلئے جب جنرل ضیا ءکے خلاف تحریکیں چلیں تو کونے کدرے سے معصوم سے
محمدخان جو نیجو کے ہاتھوں اقتدار چلا گیا لیکن یہ بھی غیر سیاسی ہاتھوں سے
غیر سیاسی ہاتھوں میں اقتدارکی منتقلی کا سبب بنا۔بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز
شریف ، باری باری ایک دوسرے کو ہٹواتے رہے اور جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنا
کر ایسے اپنے محلات کی رکھیل بنا دیا۔میاں صاحب سے مینڈیٹ ان کے چہتے با
مشرف پرویز مشرف کو منتقل ہوا تو 2008میں ایک بار پھر اقتدار این آر او کے
تحت ماضی کی تقلید کرتے ہوئے سب پر بھاری ، جناب زرداری کو منتقل ہوگیا
جنھوں نے جمہورےت کے تمام اصول تبدیل کرکے ثابت کردیا کہ جمہورےت میں اقلیت
بھی اکثریت پر غلبہ پا کر اقتدار حاصل کرسکتی ہے لہذا پاکستان کی تاریخ میں
شائد پہلی بار ایسا ہونے جا رہا ہے کہ اقتدار سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں
کو منتقل ہو ۔ حالاں کہ اس پانچ سالہ دور میں کافی کوششیں ہوئیں کہ کسی طرح
حکومت برخاست ہوجائے ، مڈٹرم انتخاب ہوجائے ، عدلیہ فوج کو حکومتی نا اہلی
پر آئین کے تحت اقتدار سونپ دے وغیرہ وغیرہ ، سونامی خان بھی آئے تو ایسا
لگا کہ جیسے پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا ہو ،پرندے اُڑ اُڑ کر انصاف
کے سائبان میں جگہ بنانے لگے سربیا کی ہواﺅں نے رخ بدلا تو پرندے ہرجائی
محبوب کی طرح میاں صاحب کے گرد جمع ہونے شروع ہوگئے۔سونامی کا وزیر ستان کا
لانگ مارچ امریکہ کے ڈرون حملے تو نہ روک سکا لیکن کینڈا کی فضاﺅں سے ایک
بگولہ لاہور میں طوفان کچھ اس طرح مچا رہا ہے کہ اب تو سب کہنے لگے کہ لگ
پتہ چل جائے گا ۔ویسے سچی بات ہے کہ اب بھی کسی کو نہیں معلوم کہ ہوگا کیا
، لیکن جب پاکستانی تاریخ کے تمام لانگ مارچ ، عوامی تحریکوں کا انجام
دیکھتے ہیں تو پتہ تویہی لگ رہا ہے کہ "لگ پتہ چل جائے گا ".۔دل کی تمنا
اور دعا تو یہی ہے کہ اقتدار سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں میں ہی پہلی بار
منتقل ہو۔ لانگ مارچ کا کیا بنے گا یہ بھی "لگ پتہ چل جائے گا "۔لیکن کیسے
؟ ۔۔۔دیکھنا ہوگا 14جنوری کو۔ |