اے وطن پیارے وطن پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
اے وطن میرے وطن پیارے وطن
وطن کے گیت گاتے ہوئے حب الوطنی اور وطن سے حد درجہ وفاداریکے جذبے سے
سرشاریوں سمجھئے جیسے یہ وفاداری ہماری گھٹی میں ڈالدی گیئ ہو، ہم زندگی کے
منازل طے کرتے رہے۔ ہم اور ہمارے وطن کا چولی دامن کا ساتھ ہے کچھ ہمجولی
والا حساب بھی ہے، ہمیشہ کوشش کی کہ کسی معاملے میں وطن سے دھوکہ نہ ہو
غداری نہ ہو -اچھے شہری اور اچھے مسلمان کی یہی تو ایک پہچان ہے- ساری دنیا
ٹیکس چوری میں لگی ہوتی تھی اور ہمارے ذمے اتنے ٹیکس کہ ہمارے شراکت کار
پریشان ہوجاتے ، بہر کیف اپنی پاکیئ دامانی کا ذکر ہرگز مقصد نہیں ہے- ورنہ
یہاں پر بدعنوانی کا جو دور دورہ ہے کہ سر فہرست نہیں تو تیسرا چوتھا نمبر
تو ضرور رہتا ہے- اسوطن کو اسوقت بحالت مجبوری چھوڑنا پڑا جب میرا اپنا
دامن لہو سے تر ہوچکا تھا او روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی،
مجھے یہ دکھ یہ صدمہ، یہ تباہی دینے والے میرے اپنے ہم وطن اور ہم مذہب تھے
یہ ہرگز را ، موساد یا سی آئی اے کے لوگ نہیں تھے-یہ میرے وطن کی ایک
بھیانک تصویر ہے اور اس دکھ کو اس بار گراں کو وہی جان سکتا ہے جو اس سے
گزرا ہو-
لیکن ہم نے اسے کیا چھوڑا یہ بھی کوئی چھوڑنا ہوا؟ پاکستان والوں کو خبریں
بعد میں معلوم ہوتی ہے اور ہمیں پہلے معلوم ہوجاتی ہے اللہ بھلا کرے یہ خبر
رساں اداروں کا بلکہ میڈیا کی تمام دنیا پر حکومت کا، دنیا میں ہر سیکنڈ
خبریں ایک جگہ سے ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں خبر رسانی کا یہ حیرت انگیز
انتظام اور اتنی سرعت کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا؟ - اسی کو دیکھ کر اندازہ
ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کا خبر رسانی کا نظام کسقدر ہائی ٹیک ہوگا - پچھلے
سال اسلام آباد میں ناشتے کی میز پر فون کی گھنٹی بجی تو امریکہ سے میرے
بیٹے کا فون تھا ،" کہنے لگا وہاں تو بڑی ہلچل ہوگی " "بھلا کیوں ؟" آپکو
نہیں معلوم اسامہ کو ایبٹ آباد میں ماردیا گیا ہے اور ہم سب ٹی وی دیکھنے
بھاگے"
پاکستان سے باہر تو پاکستان کی پل پل کی خبریں ہمہ وقت لرزا دینے والی
خبریں ، جنمٰیں اچھی کم اور بری زیادہ ہوتی ہیںآگ کیطرح تیزی سے پھیلتی
ہیں،چند بہی خواہ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں بس بھول جائیں پاکستان کو اور
پاکستانی معاملات کو ، بھلا کیسے بھول سکتے ہیں، ناممکن!اور پھر جب یہ
پوچھا جاتا ہے-where are you originally from - اور جب بھی پاکستان جانے کے
ارادے کا اپنے مقامی دوست احباب سے ذکر کرو-پہلا تاثر یہ ہوگا دیکھو وہاں
اپنی حفاظت کا خیال رکھنا ، بڑا ہی خطرناک ملک ہے- "stay safe, its a
dangerous country" اس قدر خواہش ہوتی ہے کہ کاش کسی خوش ائیند بات سے اپنے
مادر وطن کا تعلق ہو - وہ روز ہمارے لئے انتہائی باعث اطمینان و شکر ہوتا
ہے جبکہ کسی بڑ ے سانحے کی خبرنہ آئے ورنہ وہان کے باشندے تو روزمرہ کے
بھاینک حوادث کے اتنے عادی ہو چکے ہیں
کہ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے --اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار
ہو جائے-
وہ جو کچھ فلسطین میں ہوتا تھا اسپر اسرائیل نے اپنی حکمت عملی سے قابو
پالیا -پھر وہی کچھ عراق ، افغانستان اور اب پاکستان میں ہونے لگا - خود
کشی ، ھارا کیری جاپان اور کوریا کے باشندوں کا شوق و جذبہ ہوا کرتا تھا
-جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر اپنے جہازوں سمیت اپنی جانوں کی بازی لگا دی
تھی -دور کیوں جائیں جب پاکستانی فوجی 65 کی جنگ میں سینوں پر بم باندھ کر
بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تو ہم ابھی تک انکی بہادری کے گیت گاتے ہیں،
ہم نے انکو شجاعت کے تمغے دئے اسلئے کہ انہوں نے اپنے وطن کی آن بچانے کے
لئے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی- ایک مشہور شاعر کی نظم تھی -
لہو جو سرحد پہ بہہ رہاہے لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے --ہم اس لہو کا خراج
لینگے
وہی لہو اب میرے وطن کی گلیوں میں بہہ رہاھے بم باندھنے والے بھی میرے ہم
وطن ، ہم مذہب ، ہم زبان اور مرنے والے بھی میرے ہم وطن ، ہم مذہب اور ہم
زبان ہیں- سر کاٹنے والے بھی میرے ہم وطن اور سر کٹنے والے بھی میرے بھائی
بندے - اور جب آپکا کوئی عزیز کوئی شناسا اس لپیٹ میں آجائے تو احساس ہوتا
ہے کہ یہ بلا اب میرے گھر آپہنچی ہے - دکھ، کرب اور بے بسی کا احساس ،
پچھلے دنوں پشاور کے نواحی علاقے متنی میں ایس پی خورشید خان کو وہاں کے
دہشت گردوں نے جھانسے سے قتل کر دیا -انکے ساتھ 8، 10 اور اہل کار بھی مارے
گئے دہشت گرد انکا اور دو اور اہلکاروں کا سر کاٹ کر لے گئے - بطورانتقام،
تمغہ یا بطور انعام جیسے ہلاکو خان اور چنگیز خان کا فعل تھا، کھوپڑیوں کا
مینار بنا کر اپنی وحشت اور بر بریئت کی تسکین کرتے تھے، اگر یہ طالبان ہیں
تو کونسا اسلام اس فعل کی تلقین کرتا ہے ؟ اس موضوع پر یہ اوریا مقبول
جان،جاوید چوہدری ، حامد میر اور دیگر بیشمار کے قلم گنگ ہوتے ہیں یہ جو
لفاظی کے ماہر ہیں اور حق و صداقت سے بے بہرہ قلم فروش ہیں یہ تمام لکھنے
والے ففتھ کالمسٹ تو کہلائے جاسکتے ہیں --بہر کیف مجھے انسے کیا لینا دینا-
یہ خبر اخبارات میں کافی تفصیل سے آئی یہ اہلکار اپنے فرائض منصبی نبھانے
والے ان دہشت گردوں کا آسان نشانہ ہوتے ہیں - وہ اپنا سارا غصہ انپر ہی
نکال سکتے ہیں-
دکھ اور صدمہ تو اس بات کا تھا کہ تمغہ شجاعت پانے والے اس اہلکار کی ماں
جب آخری وقت اپنے بیٹے کا دیدار کرنا چاہ رہی تھی تو بہت مشکل مرحلہ تھا
بڑی مشکلوں سے اسکو یہ کہہ کر قابو کیا گیا کہ شہیدوں کے چہرے نہیں دکھائے
جاتے-
اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے بعد انہوں نے چند روز کے بعد نہ جانے کسطرح یہ
سر واپس کیا جسکو دوبارہ انکے جسم کے ساتھ دفنایا گیا--
نمعلوم میرے ملک میں یہ بہتا ہوا لہو کب تھمے گا ، ان جوانوں کو ان کی
صلاحئیتوں کو سیدھا راستہ کب سجھائی دیگا----؟
کب کب ؟ |