کیا ہجرتِ مدینہ اور قائد
تحریک کی لندن روانگی ایک ہی بات ہے؟
گذشتہ مضمون میں ہم نے اوورسیز پاکستانیوں کا ذکر کیا تھااور یہ ذکر خاصا
طویل ہوگیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر شائد بات سمجھانا مشکل ہوتا۔
خیر اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی الطاف حسین کا قائد قائد اعظمؒ
کے بارے میں بقول خود انکشاف اور پھر قائد اعظم ؒ سے اپنا اور اپنے جیسے
دیگر لوگوں کا موازنہ کرنا۔ یہاں پہلی بات تو یہ عرض کردیں کہ قائد اعظم
محمد علی جناحؒ نے برطانوی آئین کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا کس کے بارے میں
الطاف حسین صاحب نے انکشاف کیا ہے بلکہ قائد اعظم ؒ نے 1935کے انڈین ایکٹ
کے تحت اٹھایا تھا اور اس کو عبوری آئین کا درجہ حاصل تھا ۔ اس حلف کی
دوسری خاص بات یہ کہ قائد اعظم ؒ نے حلف میں موجود شاہ برطانیہ سے وفاداری
سے وفاداری کے الفاظ کو اپنے قلم سے کاٹ دیا تھا اور اس کے بعد حلف لیا تھا۔
یہ بھی تاریخی حقائق ہیں اس لیے یہاں انھوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔
اب جہاں تک الطاف حسین صاحب کا یہ کہنا ہے کہ انھوں نے مجبوری کے تحت حلف
لیا تھا تو اگر میں نے بھی مجبوری میں برطانوی شہریت حاصل کی تو کیا غلط
کِیا؟ان کا قائد اعظم ؒ سے موازنہ بھی بالکل غلط ہے۔پہلی بات تو یہ کہ اس
وقت سارے برصغیر کے لوگ برطانیہ کے غلام تھے لیکن یہ غلامی اختیاری نہیں
تھی بلکہ پیدائشی اور مسلط شدہ تھی ، قائد اعظم محمد علی جناح نے برطانوی
شہریت کی درخواست نہیں کی تھی بلکہ برطانیہ سے آزادی کی جدوجہد کی تھی ۔
جبکہ الطاف حسین صاحب نے از خود برضا و رغبت غلامی کا یہ طوق اپنے گلے میں
ڈالا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مجبوری میں برطانوی شہریت اختیار کی لیکن
معذرت کے ساتھ عرض کرتا چلوں کہ” مجبوری“ کے تحت حاصل کیے گئے برطانوی
پاسپورٹ کے ساتھ انھوں نے جو تصویر جاری کی تھی وہ ان کی بات کی نفی کرتی
ہے۔
|
|
اس تصویر کو غور سے دیکھیے اور قائد تحریک کے ہونتوں پر مسکراہٹ اور چہرے
پر پھیلی خوشی بتا رہی ہے کہ دراصل ان کی منزل یہی تھی یہ بات ان کی اپنی
ہی بھارت میں کی گئی تقریر سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں انھوں نے بر صغیر کی
تقسیم کو تاریخ کی بہت ”عظیم غلطی “ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگرمیں 1947
میں ہوتا تو پاکستان کے حق میں کبھی ووٹ نہ دیتا اس لیے ان کی مجبوری کی
بات میں بھی کوئی دم نہیں ہے۔ دوسری بات کہ مجبوری میں کیے گئے فیصلے
مجبوری ختم ہونے کے بعد واپس لیے جاتے ہیں لیکن انھوں نے ایسا کبھی نہیںکیا
۔ چلیں مان لیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن ان کے جو ساتھی یہاں موجود
ہیں انھوں نے بھی دیگر ممالک کی دہری شہریت کو ترک کرنے کے بجائے پارلیمنٹ
کی رکنیت چھوڑنا مناسب سمجھا ہے تو پھر ان کا مجبوری کا دعویٰ کہاں تک درست
ہے؟؟ پتہ نہیں قائد تحریک اور ان کے ساتھی لوگوں کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اب مجھے بتائیں کہ کیا ان کو قائد اعظم ؒ
سے موازنہ کرنا زیب دیتا ہے؟؟
قائد تحریک یہ ساری غلط بیاناں کرتے رہے اور ان کے سارے ساتھی ، ارکان
اسمبلی ، رابطہ کمیٹی کے ارکان ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے، اور پھر انھوں
نے ایک قدم آگے بڑھ کر نبی اکرم کی شان مبارک میں گفتگو کرنی شروع کی اور
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اب انھوں اپنی دہری شہریت اور ملک سے فرار کو نبی
اکرم ؒ کی ہجرت سے تشبیہ دیدی۔استغفراللہ ! افسوس کہ اس پورے مجمع میں کوئی
ایسا فرد نہ تھا جو کہ قائد تحریک کو اس حوالے سے سمجھاتا بلکہ ان کی ہاں
میں ہاں ملائی جاتی رہی۔ اب یہ ضروری ہے کہ یہاں بھی ان کی گستاخی کا جواب
دیدیا جائے۔
موصوف کی خدمت میں عرض کردیں کہ نبی اکرم نے ہجرت اللہ کی راہ میں کی تھی،
اللہ کے حکم کے مطابق کی تھی اور اللہ کے حکم کے مطابق ہی صحابہ کرام ؓ کو
ہجرت کا حکم دیا تھا۔ اس کا تعلق کسی بھی طرح سے الطاف حسین کی مفروری سے
نہیں بنتا ۔ نبی کرم کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جس نے عصبیت کی طرف بلایا
وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو
عصبیت کی خاطر لڑا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یعنی عصیبت کی طرف بلانے والے سے
نبی اکرم نے اعلان بریت کیا ہے۔ جس وقت الطاف حسین صاحب ملک سے فرار ہوئے
اس وقت وہ ”مہاجر قومی موومنٹ “کے قائد تھے ، اس وقت وہ قومیت اور لسانیت
کا پرچار کررہے تھے ، عصبیت کو ابھار رہے تھے اور ایسے لوگوں سے نبی پاک نے
اعلانِ برات کیا ہے کجا یہ کہ موسوف عصبیت بھڑکانے کے بعد فرار ہونے کو
ہجرت مدینہ سے مشابہ قرار دےدیا۔ پھر یہ دیکھیں کہ نبی اکرم نے پہلے تمام
مظلوم مسلمانوں کو مکہ سے باہر بھیجا او ر خود آخر میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ
کے ہمراہ ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے۔ جبکہ الطاف حسین کارکنوں کو بتائے
یہاں مصیبت میں چھوڑ کر خود عمرہ کرنے کے بہانے سعودیہ گئے اور وہاں سے پھر
لندن میں جاکر جو ٹھہرے ہیں تو آج تک ان کی واپسی نہیں ہوئی ہے۔اس پر طرہ
یہ کہ اپنے ان تمام اعمال کو نبی پاک اور قائد اعظمؒ کے معاملات سے ملا کر
لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں۔
یہ کوئی اتفاقیہ خطاب نہیں ہے بلکہ دراصل یہی وہ فکری نشستیں ہیں جس میں
نوجوانوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے پہلے اس قسم کی گفتگو وہ اپنی مخصوص
نشستوں میں کرتے تھے لیکن اب حکومت کی جانب سے شہہ ملنے کے بعد ان کا یہ
حوصلہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ان گمراہ کن عقائد اور نظریات کا سر عام پرچار
کرنے لگے ہیں۔ یہ حکومتی سرپرستی کا ہی نتیجہ ہے کہ اب وہ مخالفین کو نجی
محفلوں کے بجائے سرعام اور میڈیا کے سامنے گالیاں اور دھمکیاں دینے لگے ہیں
اور صحافیوں کو بھی سر عام دھمکانے لگے ہیں۔اور ان سب کے باوجود دعویٰ کرتے
ہیں حب الوطنی کا۔ یہاں ہمیں صحافی برادری پر بھی افسوس ہے کہ انھوں نے
الطاف حسین سے احتجاج کیا بھی تو ادھورا، صحافی ہماری موصوف سے دست بستہ
درخواست ہے کہ سیاست ضرور کریں لیکن اپنے اعمال کو نبی پاک اور قائد اعظم ؒ
جیسی ہستیوں سے نہ ملائیں ۔ آپ کا اور ان کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ آپ نے
دانستہ یا نادانستگی میں جو گستاخیاں کی ہیں اللہ سے ان کی معافی طلب کریں
اور توبہ کریں۔ ان کے کارکنوں سے بھی ادب کے ساتھ عرض کردیں کہ اسلام نے
اسی لیے شخصیت پرستی اور اندھی تقلید سے منع فرمایا ہے۔ آپ لوگ کم از کم یہ
تو کریں کہ اپنے مقامی ذمہ داران کے توسط سے اپنی بات قائد تحریک تک
پہنچائیں اور ان کو غلطیوں کا احساس دلائیں۔ |