گو کہ درج ہونے والے حروف زیادہ
پرانے نہیں ہیں لیکن پاکستان کے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو
یہ بہت پرانے لگتے ہیں مگر اتنے بھی پرانے نہیں کہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں
بہر حال بات یہ ہے کہ پاکستان کے” بڑوں “کے ”بڑے “نے چند دن پہلے کہا کہ
اگر اگلے پانچ سال بھی حکومت انھی کو سونپی گئی تو یہ ملک کو مزید آگے لے
کر جائیں گے ۔
اسے آپ حیرت انگیز انکشاف بھی کہہ سکتے ہیں اور بہت ہی حیرت انگیز پیشن
گوئی بھی ۔میں قارئین سے نہایت معذرت خواہ ہوں کہ یہ حیرت انگیز انکشاف اور
بہت ہی حیرت انگیز پیشن گوئی تفصیل سے نہ پڑھ سکا کیونکہ یہ ایک سطر پڑھنے
کے بعد میں اپنے ہوش و حواس تقریباً کھو چکا تھا اور جب ہوش و حواس ٹھکانے
آئے تب تک رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اور بجلی کو غائب ہوئے ساڑھے تین
گھنٹے گزر چکے تھے ،میرے سامنے پڑی موم بتی رو رو کر کافی دیر پہلے ہی فنا
ہو چکی تھی ، باہر دکانوں میں لگے جنریٹر اور یو پی ایس سسٹم دھائیاں دے دے
کر خاموشی سادھ چکے تھے اودکاندار حضرات اسی سوچ میں تھے کہ گھر بیوی بچوں
کے لیے کیا لے کر جائیں کیوں کہ بجلی نے نہ کچھ کام دھندا کرنے دیا اور نہ
ہی کچھ کمائی ہاتھ آئی ۔ان تمام حالات کے باوجود جب ملک کے ”بڑوں “ کا ”
بڑا “ یہ کہہ دے کہ ہم ملک کو مزید آگے لے کر جائیں گے تو پھر سوچیں کون ذی
شعور و باشعور ہوش و ہواس پر قائم رہ سکتا ہے ؟؟
بہر حال موجودہ حکومت کے ان پانچ سالہ دورانیہ میں ملک کا جو کچومر بنا اگر
پاکستان کی قسمت میں اگلے پانچ سال کے لیے بھی یہی چہرے ہوئے تو پھر
پاکستان کے لیے ”آگے “ اندھا کنواں ہے ، گہری کھائی اور دہکتا تندور ہی ہو
گا۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ آنے والے الیکشن میں عوام کیا گل کھلاتے ہیں
لیکن اس کے لیے الیکشن ہونا ایک شرط ہے کیونکہ آج کل حکومتی پارٹی اور
حکومتی پارٹی کے اتحادی اراکین اسمبلی موجودہ امن و امان کی صور ت حال کے
پیش نظر الیکشن نہ کروانے کا عندیہ دے رہے ہیں اور ہلکی پھلکی پیشن گوئی
نما اطلاعات عوام کے گوش گزار کر رہے ہیں تاکہ عوام نئے سانحے کے لیے پہلے
سے من و عن تیار رہیں ۔الیکشن نہ ہونا واقعی ہی سانحہ ہو گا کیوں کہ تقریبا
ً سبھی عوام نے الیکشن کا انتظار کر کے حکومت اور بدترین حالات کو برداشت
کیا اور اگر اس انتظار کے بعد بھی عوام کو سکون نہ ملا تو پھر کمزور دل
افراد ہمت ہار کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جس کا صدمہ صرف اور صرف جاں
بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو ہی ہو گا اور باقی لوگ زندہ بچ جانے پر
شکر گزار ہوں گے یا پھر مزید بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لیے چاک و
چوبند ہو ں گے جب کہ حکومت ان جاں بحق افرا د کی ہلاکت پر وہی رویہ رکھے گی
جو ہم پچھلے پانچ سال سے دیکھ رہے ہیں ۔
چند دن پہلے ایک تصویر نگاہوں کے سامنے سے گزری جس میں دو ”بڑے “ ہاتھ میں
حکومتی کارکردگی سے متعلق چھپنے والی کتاب کی جانب نظریں کیے ہوئے تھے ان
کے چہرے پر مایوسی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات عیاں تھے جو صاف بتا رہے تھے
کہ یہ ”بڑے “ بھی حکومتی کارکردگی پر حیرت انگیز ہیں اور مایوسی شاید اس
لیے ان کے چہروں پر عیاں ہے کہ یہ ” بڑے “ پانچ سالہ دور میں عوام کی فلاح
و بہبود نہ کرسکے ۔لیکن یہ صرف میرا ہی خیال ہے جو خام بھی ہے اور گھمان
بھی ہے ۔کاش کہ یہ ملک کے ”بڑے “ صر ف اسی بات پر بھی مایوس ہوتے تو دل کو
کچھ نہ کچھ سکون مل ہی جاتا ۔
بات حکومتی کارکردگی کی چل پڑی ہے تو اسی کارکردگی کی تھوڑی سی جھلک چند دن
پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دکھائی ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں ہے
۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے
گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان میں 12600ارب روپے کی بد عنوانی کی گئی جو
سالانہ 2520ارب روپے بنتی ہے اور لگ بھگ یومیہ تقریباً سات ارب روپے کی
بنیاد پر کرپشن کی گئی ۔2011ءمیں کرپٹ ترین ممالک میں پاکستان کا نمبر
42واں تھا جو 2012ءمیں 33واں ہو گیا ۔
اس رپورٹ پر بحث کرتے ہوئے ایک فرد جو کہ راجہ صاحب کے وزیر اعظم بننے کے
بعد میڈیا کے ذرائع کی زینت کچھ زیادہ ہی بن چکے ہیں نے کہا کہ یہ رپورٹ
جھوٹ کا پلندہ ہے اور من گھڑت ہے جبکہ راجہ صاحب کے معاون خصوصی چودھری
فواد احمد نے کہا کہ پاکستان کا کل بجٹ 3.767ٹریلین سالانہ ہے جب کہ رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 2.53ٹریلین سالانہ کے حساب سے کرپشن ہوئی ۔کوئی
بھی ذی شعور شخص ان اعدادو شمار کو حقیقی قرار نہیں دے گا یہ جھوٹ کا پلندہ
اور جعلی رپورٹ ہے لہٰذا کوئی شخص بھی اس کو نہیں مانے گا یہ جعلی رپورٹ
بنانے کے لیے ماہر اکاﺅنٹنٹ کی خدمات حاصل کی جاتی تو بہتر تھا۔
معاون خصوصی ماہر اکاﺅنٹنٹ کو چھوڑیں ۔ماہر ہونا ہی اگر مسائل کا حل ہوتا
تو ملک 65سال سے ”ماہرین“ کے ہاتھ ہی چڑھا ہوا ہے لیکن حالت یہ بنی ہوئی ہے
کہ وسائل بھی مسائل بنتے جا رہے ہیں بہر حال جہاں تک ذی شعور شخص کی بات ہے
تو یقیناً کوئی بھی شخص یہ نہیں مانے گا کہ ملکی بجٹ کے برابر کرپشن ہو ئی
ہے مگر یہ بھی کوئی ذی شعور شخص نہیں مانے گا کہ ایک ایٹمی ملک پچھلے پانچ
سا ل سے زائد عرصہ سے انرجی کرائسسز کا شکار ہے دہشت گردی مہنگائی اس ملک
میں رچ بس چکے ہیں ۔کوئی بھی ذی شعور شخص یہ نہیں مانے گا کہ ایک جمہوری
حکومت جمہور کے مسائل پچھلے پانچ سال سے حل تو دور کی بات سمجھ بھی نہ سکی
۔
جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو کوئی بھی ذی شعور شخص یہ نہیں مانتا کہ ایک
ملازم جس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار بھی نہیں ہے وہ پلاٹوں، فیکٹریوں ،
گاڑیوں ، پلازوں کا مالک بن جائے۔کوئی بھی ذی شعور شخص یہ بھی نہیں مانتا
کہ ایک عوامی نمائندہ جو وزیر اعظم بننے سے پہلے بچوں کی فیس نہ ہونے کی
وجہ سے گاڑی تک بیچ دیتا ہے اور پھرجب وزیر اعظم بنتا ہے تو دنیا کی مہنگی
ترین کمپنی کا مہنگا ترین کوٹ خرید کر زیب تن کرتا ہے باقی عوامی نمائندگان
کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جو حکومت میں آتے ہی یک دم ملکی و غیر ملکی بینک
بیلنس، پلازوں، فیکٹریوں اور پلاٹوں کے مالک بن جاتے ہیں ۔اگر ایک ذی شعور
شخص یہ سب کچھ مان سکتا ہے تو پھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیوں
نہیں مان سکتا ؟؟ |