عزم تھا اُ س کا جواں
ایمان کا دھارا تھا وہ
داعی دینِ خدا عزمت کا مینارا تھا وہ
شخصیت قاضی حسین احمدؒ کی اس میں شک نہیں
کہتی ہے خلقِ خدا انساں بہت پیارا تھا وہ
بہت سے لوگ آتے ہیں اس دنیا میں اور بہت سے دعوے کر کے حالات کے ہا تھوں یا
کبھی کسی ذاتی مفادات کے سامنے جھک جاتے ہیں اور وہ دنیا میں ہی اپنی زندگی
جی لیتے ہیں۔لیکن قاضی حسین احمد ؒ کا وجود ہی اس کے برعکس ہے،انہوں نے بہت
سے دعوے کیے اور اس پر قائم بھی رہے۔اور اس پر پورا بھی اترے۔آمریت فحاشی
کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا۔سیاست اور اس کے ساتھ دین کی یکجائی کا عملی
نمونہ بھی پیش کیا۔سادگی کی زندگی گزار کر آنے والی دنیا کو ’’ــــ کمپلس
فری‘‘ز ندگی گزارنے کا قرینہ اور درس بھی دیا۔قاضی صاحب نہ صرف پاکستان میں
بلکہ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ دیگرممالک میں بھی نمایاں فرد تھے۔ان کا تعلق
عامہ کے ساتھ ساتھ انفرادی روابط بھی مضبوط تھا۔وہ صرف جماعت اسلامی کے ہی
نہیں لیڈر تھے بلکہ تمام دیگر جماعتیں بھی ان کو اپنا لیڈر مانتی تھی۔میں
آج لکھنے بیٹھا تو جذباتی سا ہو گیا۔ قلم خود بخود ورق پر بھاگتا چالتا جا
رہا۔جذباتی ہوتا بھی کیوں نہ ہوتا۔’’ہم بیٹے کس کے قاضی کے ،ہم ساتھ جیں گے
قاضی کے، ہم ساتھ مریں گے قاضی کے،ہم دستِ ـبازو قاضی کے، اوــر‘‘ راشا
راشا، قاضی راشا‘‘ کے نعرے مجھے گُٹھی میں جو ملے تھے۔ماں بتاتی ہیں کے میں
چھ ماہ کا تھاتو تب سے ٹیپ ریکاڈرپرترانے سنتا تھا۔تین سال کی عمر تھی
توایک شادی میں قاضی صاحب تشریف لائے انہوں نے مجھے گود میں اٹھایا تو پہلا
نعرا ہی یہ تھا ’’ہم بیٹے کس کے قاضی کے‘‘تھا۔۱۹۹۵ مینارپاکستان کا اجتماع
عام ،۱۹۹۹ فیصل مسجد کا اجتماع عام ،۲۰۰۳ قرطبہ کا اجتماع عام ،۲۰۰۶نوشہرہ
کا اجتماع عام، ۲۰۰۲ جمعیت کا اجتماع عام جامعہ پنجاب، ۲۰۱۱ میں جمعیت
کااجتماع عام ہو ۔یاپھر اسلام آباد میں اسلام آباد فیسٹول ہو ا غرض ہر جگہ
ان سے ملنے کی آرزو ہر کسی کے دل میں ضرور جاگتی تھی ۔
قاضی صاحب کو قریب سے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ رہتی ۔قاضی صاحب سے ہاتھ ملا
نے اوران سے ماتھے پر بوسہ لینا بہت سکون دیتا تھا ۔
ان سے مل کر روحا نی سکون جو میسر ہوتا تھا۔وہ ناقابل بیان ہے۔ا سلامی
جمعیت طالبہ میں میرے ناظم اور ساتھی ہنسی مذاق میں مجھ سے کہتے کہ ان کے
تو قاضی صاحب سے مسیج پر روابط ہیں۔میرا اور قاضی صاحب کا میسج پر ۲۰۰۹ سے
رابط تھا۔ان کا میسج بھیجنااور اس کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کا بہت شوق
تھا۔حیرت بھی ہوتی ہے کے وہ ایک دوست کی طرح مجھے سمجھتے تھے۔کسی بھی
معاملے میں راہنمائی لینی ہوتی تو ان کو میسج کر دیتا تھا۔وہ مجھے میرے
لیول پر آ کر سمجھایا کرتے تھے۔
اسلام آباد میں اپنے سیکٹر میں شباب ملی کا یونٹ بنا کر کام کا آغازکیاتو
نوجوانوں نے اصرارکیا کہ ایک ناموس رسالت کانفرنس کرتے ہیں میں اپنی پڑھائی
میں مصروف تھا میں نے قاضی صاحب کو فون کیاکہ کانفرنس کرنی ہے۔اور حاضری
۱۰۰تک ہی ہو گی( مجھے تھا کہ حاضری کا سن کر انکار کر دیں گے) کچھ وقت
چاہیئے کہنے لگے کہ میں اس ۱۸نومبر کو نہیں موجود بعد میں یا معذرت کر
لیں۔ہم نے آگے کر دیا اور کسے معلوم تھا کہ اُس آگے کر دینے کا مطلب قاضی
صاحب سے ہمیشہ سے جداہوناہے۔میں رات کو دیر سے گھر آتا تو میری دادی ا می
اکثر مذاق کرتے ہوئے کہتی کہ قاضی نے میرے بچوں کو خراب کر دیاہے۔۲۰۰۳ میں
دادا ابو کی وفات کے بعد تعزیت کے لیے قاضی صاحب ہمارے گھر آئے تو ہم سب غم
بھول گئے کہ کیا ہوا ایک بزرگ گیا دوسرا تو ہے نہ لیکن اب وہ بھی نہیں
رہا۔قاضی صاحب نے اسلام آباد میں ریسرچ ادارہ بنایاایک بار رابطہ ہواتو
کہنے لگے آپ بھی آئیں اور لکھا کریں رہنمائی لیں ۔لیکن میں ذاتی کوتاہی کی
بنیاد پر ہی نہ حاضر ہو سکا۔کسے معلوم تھا۔مجھے پہلی با رلکھنا ہی قاضی
صاحب کے اوپر پڑے گا۔آج قاضی صاحب کی وفات کو اگرچہ کافی ایا م گزر گئے
لیکن دل نہیں مان رہا۔۵ جنوری کی رات ایک بجے کا وقت باربارآنکھوں کے سامنے
گھومتاہے۔ جب Twitter پر پڑھا اور سیڑھیوں پربیٹھ گیا یقین ہی نہیں ہو رہا
تھا۔۱۰ بجے کے قر یب توانہوں نے Twitterپر الخدمت کے ساتھی کی شہادت کے
متعلقTweetکیا۔ساری رات اضطراب اور بے چینی میں گزری۔اور ابھی بھی میں
سوچتا ہوں تو اضطراب پھر شروع ہو جاتا ہے۔میرا اور قاضی صاحب کا جذبائی
تعلق تو ابد تک رہے گالیکن ۲۲ سال کا تعلق میری پیدائش سے لیے کر اب تک کا
وہ ختم ہو گیا ہے۔ انسان کی زندگی میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں جواس کی زندگی
گہرا اثر رکھتے اور چھوڑتے ہیں ۔قاضی صاحب ان افراد میں سے ایک ہیں جو میری
زندگی پر گہرے اثرات چھوڑ گئے ہیں۔اور صرف میرے ہی نہیں مجھے معلوم اور
یقین ہے کہ ان کے اثرات چند افراد پر ہی نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کے
زندگی پر مرتب ہوں گے۔(انشاء اﷲ)
اﷲان کو محنتوں اور کوششوں کو قبول فرمائے اور جوارِرحمت میں اعلیٰ درجہ پر
جگہ عطا فرمائے (آمین)۔
خالق نے عطاکی تھی اسے جرات کردار
وہ عالمِ پیری میں بھی تھابر سرِپیکار
وہ شخص کہ تھاسعی مسلسل کا علم دار
آیا تھا گرانے کے لیے ظلم کی دیوار |