وہ صرف آئی ٹی پروفیشنل نہ تھی ،
شاعرہ ، پائلٹ اور ٹیچر بھی تھی
اُسے ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا۔ افسوس کا مقام ہے جس بچی کے دنیا
سے رخصت ہونے پر پاکستان سمیت پوری دُنیا افسردہ تھی، ہر آنکھ اشکبار تھی
ہر چہرہ اداس تھا، اُس کو ہم نے اپنی زندگی کی یادوں سے نکال دیا۔ شاید
میری بڑی بھول تھی، میں سمجھ بیٹھا تھا کہ اس کی سوچ، فکر ہماری زندگی سے
کبھی نہیں نکل پائے گی ۔لیکن صرف ایک سال کے کم عرصے میں ہم اِس ننھی پری
کو بھول بیٹھے ، پارکوں، بلڈنگوں کو اُس کے نام کرنے سے ہم نے اُس کا حق
ادا کر دیا۔ قطعاً نہیں کیوں کہ اُس بچی نے اپنی زندگی کے 15 سالوں میں
پاکستان کو ایک نئی پہچان دی دنیا کے کونے کونے میں وطن عزیز کا نام روشن
کیا۔ وہ عملی طور پر پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور ہم
صرف پارکوں کو اُس کے نام کرکے خاموش ہو گئے۔ میں بھی زمانے والوں کی بے
رخی دیکھ کر زمانے کے ساتھ چلنے کی عادت ڈالنا چاہتا ہوں، صرف اپنی ذات تک
محدود رہنا چاہتا ہوں، پڑوسی بھوکا ہے تو میں کیا کروں، سڑک پر پڑا زخمی
درد سے چلا رہا ہے تو میرا کیا جاتا ہے۔دھرتی ماں کو میری ضرورت ہے ،لیکن
میں گورے کے وطن جا کر اُس کا غلام بننا چاہتا ہوں۔ مجھے اِس وطن نے کیا
دیا کہ میں اِس کا احساس کروں؟ لیکن میں چاہتے ہوئے بھی یہ سب کر نہیں پاتا
کیوں کہ میں ایسا کرنے کا جب سوچتا ہوں تو مجھے پاکستان کا روشن چہرہ دختر
پاکستان ارفع کریم رندھاوا یاد آ جاتی ہے۔ جس نے محض 9 سال کی عمر میں شہرت
کی بلندیوں کو چھوا اور دوسروں کے لیے اپنی زندگی کووقف کر دیا۔ جس نے 13
سال کی عمر میں ہی اقبال کے فلسفے کو سمجھ لیا۔ جس نے زندگی کے جس شعبے کو
ہاتھ لگایا تو اُس میں ترقی کی وہ منزلیں طے کیں کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ اس
ننھی پری کی وجہ شہرت صرف کم عمری میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل
بننے اور بل گیٹس سے ملاقات کرنا تھی ،وہ صرف آئی ٹی ایکسپرٹ نہیں ، ایک
عمدہ شاعرہ بھی تھی اور کم عمری میں ہی قرآن پاک کو ترجمہ بمعہ تفسیر پڑھنا
شروع کردیا ۔اُس نے اپنی زندگی بھی قرآن کے بتلائے اصولوں کے مطابق گزارنی
شروع کر دی تھی۔ سوچیے تو سہی اکثر سنتے رہتے ہیں کہ فلاں بچے یا بچی نے 7
سال کی عمر میں حفظ کر لیا، اِس نے قرآن کم عمری ہی میں مکمل کر لیا۔ لیکن
ماشاء اﷲ اس نے 13 سال کی عمر سے ہی اس کی باقاعدہ تفسیر پڑھنا شروع کر دی،
اگر بات شاعری کی ہو تو اس میدان میں بھی سب کو حیران کر گئی، سفید گلاب پر
لکھا تو کمال ہی کر دیا ، حضرت انسان کی صرف دنیا میں مگن ہونے اور آخرت کو
بھول جانے پر لکھا تو ایک نظم سے ہی جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اُس کا پسندیدہ شعر
تھا۔
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند مہتاب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی
اُس پر بہت کچھ لکھا جا چکا شاید مزید لکھا جائے، لیکن قارئین کے لیے ایک
بار پھر اُس کی زندگی کی یاد تازہ کرتا چلوں۔فیصل آباد کے گاؤں رام دیوالی
کے مکین کرنل امجد کریم رندھاوا کے گھر میں 2 فروری 1995 کو آنکھ کھولنے
والی ارفع کریم غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک تھی۔ وہ عظیم سوچ کی مالک تھی
۔ ایسے لوگ دُنیا میں بہت کم آتے ہیں جو ایسے کام کر جاتے ہیں کہ صدیوں تک
یاد رہ جاتے ہیں،ارفع بھی انہیں میں سے تھی۔ پاکستان میں جہاں کرپشن، رشوت
اور قتل عام کا بازار گرم تھا ،وہاں اِس بچی نے پوری دنیا میں پاکستان کا
روشن چہرہ دنیا کو دکھایا۔ 2004 میں دنیا کی سب سے کم عمر MCP کا اعزاز
حاصل کیا، بل گیٹس نے خاص طور پر اس کو اپنے پاس ملاقات کے لیے مدعو کیا۔
ارفع کریم رندھاوا گھٹن زدہ ماحول میں ہو ا کا ایک تازہ جھونکا ،گھپ
اندھیرے میں پاکستان کے لیے ایک روشن دیا تھی، جس نے اس اندھیرے میں روشنی
کرکے دُنیا والوں کو باور کروایا کہ پاکستان ظلم کی نگری نہیں بل کہ یہ تو
اِس پر لگا محض ایک لیبل ہے۔ دشمنوں کی سازشوں نے آج اِس دھرتی ماں کو یوں
زخمی کر دیا لیکن ہم جیسے پاکستانی ابھی زندہ ہیں، جو دشمنوں کی سازشوں کا
مقابلہ یوں کریں گے۔ دشمن ہمیں مٹی کے دور میں واپس دھکیلنے کی ہزاروں
کوششیں کر لیں، لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ بل گیٹس سے ملاقات کے بعد
اِس پر کامیابیوں کے دروازے کھولنے شروع ہوئے۔ 2005 میں دس برس کی عمر میں
دبئی کی آئی ٹی پروفیشنل سوسائٹی نے اسے کانفرنس میں مدعو کیا۔ دو ہفتوں تک
وہ اِن کے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہی، آئی ٹی کے بارے میں اپنی معلومات اور
اپنی مہارت سے اس کانفرنس کے شرکاء کو ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھا۔ اُس کی
خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جب کسی کانفرنس یا پلیٹ فارم میں گفت گو
کرتی تھی تو اُس کو سننے والے ایک لمحے کے لیے تو سوچ میں پڑ جاتے کہ اِس
ننھی سی پری کے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ کہاں سے آیا ۔گفت گو کاآغاز شعر سے
کرتی اور اکثر اختتام میں بھی شعر پڑھتی تھی ، علامہ اقبال اُس کے پسندیدہ
شاعروں میں بابا بلھے شاہ کے کلام کو شوق سے پڑھتی ۔ 2006 میں مائیکرو سافٹ
کے ماہرین نے بارسلونا سپین میں ہونے والی ایک کانفرنس میں اِس کو مدعو کیا
پوری دنیا سے 5 ہزار ماہرین اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے ۔ارفع کا اس
کانفرنس میں شریک ہوناپاکستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ جب بھی وہ
بیرون ملک جاتی تو فوراً ہی اُس پاکستان کی یاد ستانے لگتی۔ پاکستان سے وہ
بہت محبت کرتی تھی ہر لمحے اِس کے گن گاتی۔ اُس دور میں جب لوگ بیرون ملک
میں پاکستانی کہلواتے ہوئے شرم محسوس کرتے تھے،اس وقت ارفع جس پلیٹ فارم
میں گئی بڑے فخریہ انداز میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتی میں پاکستانی ہوں
اور مجھے اِس پر فخر ہے۔ میں آج جو بھی ہوں اپنی دھرتی کی وجہ سے ہوں،
نوجوانوں کو اکثر کہتی تھی کبھی یہ نہ سوچنا کہ اِس دھرتی ماں نے آپ کو کیا
دیا، بل کہ اِس بات کی فکر کرتے رہنا کہ آپ اِس کو کیا دے رہے ہو، اِس پر
ابھی بُرا وقت ہے لیکن انشاء اﷲ جلد اچھا وقت آئے گا۔یہ تھی اُس بچی کی حب
الوطنی کی مثال۔ ایک بات جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ارفع نے فلائنگ
کلب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ دس برس کی عمر میں جہاز اُڑانا بھی سیکھ لیا
تھا ،باقاعدہ سند یافتہ پائلٹ بن گئی تھی۔ یوں دنیا کی سب سے کم عمر پائلٹ
بننے کا اعزاز بھی ارفع کریم رندھاوا کے پاس تھا۔ یوں یہ ننھی پری اپنی
زندگی کی کامیابیوں کو سمیٹتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہی تھی کہ اس کی
کامیابیوں کو کسی کی نظر لگ گئی ۔ 21 دسمبر 2012کی رات کو اُس کی طبیعت
بگڑنا شروع ہوئی 22 دسمبر کو اُسے مرگی کا دورہ پڑا جس نے اِس کے دماغ کو
شدید متاثرکیا، لاہور کے سی ایم ایچ اسپتال میں داخل کروایا گیا ،لیکن وہ
سنبھل نہ سکی اور کومے میں چلی گئی۔26 روز زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا
رہی۔ 14 جنوری 2012 کی شب کو موت جیت گئی اور زندگی ہار گئی۔ پوری قوم اس
کی صحت یابی کے لیے دعا گو رہی، لیکن خدا تعالی کو اُس کی مزید زندگی منظور
نہ تھی۔ اُس نے اپنی مختصر سی زندگی میں اتنی کامیابیاں سمیٹی تھیں کہ شاید
کوئی سو سال بھی کوششوں میں مصروف رہے تو اتنی محبت اور کامیابیاں نہ سمیٹ
پائے۔ ایک دفعہ نیوز چینل میں مارننگ شو آ رہا تھا، ارفع کریم رندھاوا
مہمان تھیں میں نے کال ملائی اور اُس سے گفت گو کی ، اُس کا حوصلہ بڑھایا ۔
اُس پروگرام میں بابا بلھے شاہ کا کلام پڑھ کراس نے مجھے حیران کردیا تھا۔
ارفع کریم رندھاوا پرمیرے دوست اورصحافی عظمت علی رحمانی نے ایک کتاب مرتب
کی ’’دختر پاکستان‘‘ 350 صفحوں کی اس کتاب میں انہوں نے اس کے اوپر لکھے
جانے والے تمام کالموں کے ساتھ ساتھ اُس کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کے
تاثرات لکھے ہیں۔ارفع کریم کے والد کرنل (ر) امجد کریم رندھاوا کا کہنا ہے
کہ شاید وہ آئی ہی اسی لیے تھی کہ وہ لوگوں کی زندگی میں انقلاب لائے۔ ان
کا مزید کہنا تھا، اِس کا نام اس کے دادا نے رکھا تھا ۔اُنہوں نے دعائیہ
انداز میں فرمایا تھا، یہ اسم با مسمی ہو گی اور اعلیٰ و ارفع والی ارفع ہو
گی ۔ جب وہ تین ماہ کی تھی تو اس کے دادا فوت ہو گئے ۔اﷲ نے ان کی دعا کو
قبول فرمایا چھوٹی ہی عمر میں اس کے اندر رفعتیں اور بلندیاں نظر آنا شروع
ہوگئی۔ وہ نعت یاد کر لیتی تھی،اس نے دعائے قنوت اور نماز یاد کر لی تھیں۔
شروع ہی سے ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ یہ Extra ordanari بچی ہے۔ ارفع کی
والدہ کا کہنا ہے کہ ارفع کریم کو ایک جملے میں کہنا مشکل ہے۔ کیوں کہ اِس
کی شخصیت اس کی آئی ٹی کی پہچان ضرور بنی، لیکن آئی ٹی کے علاوہ بھی بہت
ساری چیزیں، باتیں اس طرح کی تھیں کہ جو کسی شخصیت کو بلندی میں لے جاتی
ہیں، اِس کا رویہ شروع ہی سے مثبت رہا، گھر میں اِس کی شرارتیں، اس کا بچوں
کے ساتھ کھیل کود اِس کو بڑوں نے خود انجوائے کیا۔ خود اعتمادی سے مالا مال
تھی، بڑی زندہ دل لڑکی تھی، کوکنگ اور ڈرائیونگ کرلیتی تھی۔ اِس کے علاوہ
ہر کلاس میں اول پوزیشن لیتی تھی۔بھائی سرمد امجد رندھاوا کا کہنا تھا وہ
میری استاد بھی تھی، اُس کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، ہماری پڑھائی میں بہت
مدد کرتی تھی۔ بڑی مثبت سوچ سے کام کو انجام دیتی ،وہ بہت کچھ کرنا چاہتی
تھی، لیکن قدرت کو منظور نہ تھا، اُس کی خالہ زاد ردا کا کہنا تھا، میرا
بچپن میں اُس کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ جب ارفع مردان میں اور ہم اسلام
آباد میں رہتے تھے تو میں وہاں جا کر اُن کے پاس رہتی تھی وہ مجھ سے چھوٹی
تھی لیکن اُس میں باتیں بڑوں والی تھیں، مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ
وہ ہمارے درمیان نہیں ہے۔ وہ میک اپ میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتی تھی، اُس
کو یہ سب چیزیں پسند نہیں تھیں۔ یہ تھیں کچھ ارفع کریم رندھاوا کی زندگی کی
چند یادیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دختر پاکستان کی سوچ کو حکومت پاکستان نے
کتنا پروموٹ کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ پاکستان میں شرح خواندگی بہتر ہو اور وہ
اس کے لیے کوشاں بھی تھی۔ کیا ہم نے اس کی سوچ اور فکر کو روند نہیں ڈالا؟
کیا ارفع، ہمارے ملک کا اثاثہ نہ تھی؟ اُس اثاثے کی ہم اُس کے حیات ہوتے تو
قدر نہ کر پائے، لیکن اُس کے رخصت ہونے کے بعد ہم نے بلند بانگ دعوے ضرور
کیے تھے کیاوہ پورے ہوئے؟ وہ بھی صرف دعوے ہی رہ گئے عملی شکل تک نہیں پہنچ
سکے۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ارفع اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو حکومتی
پروٹوکول ملنا چاہیے اُن کے رخصت ہونے کے بعد اُن کو چند ساعتوں کے لیے یاد
کر لینے سے ا ُن کا حق ادا نہیں ہوتا، اُن کی قدر اُن کی زندگی میں کرنی
چاہیے،دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہمدردی کے چند بول بولنے سے سے کچھ نہیں
ہوتا۔ ارفع کی برسی کو سرکاری سطح میں منانا چاہیے کیوں کہ ایسے بچے ہی
پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔ یہی اِس کا روشن چہرہ ہیں۔ اس روز ہمیں عہد
کرنا چاہیے کہ ہم انفرادی سطح پر جتنا ممکن ہو سکے گا ہم ارفع کی سوچ اور
فکر کو پروموٹ کریں گے۔ اگر ہم ان عظیم لوگوں کو یاد رکھیں گے، تو ہمارے
یہاں کہیں ارفع چھپی ہوئی ہیں اُن کو اعتماد فراہم کرنے کی دیر ہے۔ پھر آپ
کے سامنے شافع بھی آئے گا، پھر علم کے اجالے کے لیے کہیں ملالہ یوسف زئی
بھی اٹھے گی، علی معین نوازش اور عمیر علی جیسے ہونہار بھی سر اٹھائیں گے ،پھر
نبیل شوکت علی سُروں میں انڈیا کو ہرائیں گے ۔پھرکسی کو سنوکر چیمپیئن بننے
کے لیے محمد یوسف کی طرح چندہ اکٹھا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر اِن کے
ساتھ یوں ہی رویہ روا رکھا گیا تو پھر ظلم کی اندھیری رات اور ہر طرف کھائی
ہی کھائی ہو گی، خدارا اب جاگ جائیے اور ان عظیم لوگوں کی قدر کریں۔ ارفع
تم آج بھی ہم میں زندہ ہو اور انشاء اﷲ ہم تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے۔
ارفع کریم رندھاوا 2008میں لکھی ہوئی ایک نظم
دور کہیں تنہا ایک پرندہ تھا انگشت بدنداں
سوچتا تھا کہ یہ لوگ ہیں کیوں اتنے ناداں
جانتے ہوئے بھی کہ جانا ہے اس کے پاس
نہیں آئے یہ بُرے کاموں سے باز
معلوم ہے ان کو یہ دنیا ہے فانی
ختم ہونے والی ہے یہ جھوٹی کہانی
کوئی نہ جانے کب وقت آخر آ جائے
جب حضرت انسان کچھ بھی نہ کر پائے
یہ دنیا اک امتحاں کی ہے تیاری
اور جلد آنے کو ہے سب کی باری
اس کے سامنے حساب دینے کی
جنت یا پھر دوزخ کا عذاب لینے کی
اے غافل انسان تو راہ راست پر نہیں ہے
جانا ہے کہیں اور تو کہیں ہے
اپنا ذہن کھول اور سوئے منزل چل
کہ آ رہا ہے تیرے سامنے اک نیا کل
نوٹ:آپ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں:www.facebook.com/umer.rehman99
www.twitter.com/umer.rehman98 |