اعلیٰ حضرت،حالات و افکار

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم

از: ڈاکٹر اقبال احمد انصاری‘کراچی
(Matrimony Registrar,Govt of Sindh )

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ کی علمی و روحانی شخصیت تقریباً سو سال سے عالم اسلام پر بادل بن کر چھائی ہوئی ہے....آپ 1856 ءکو بھارت کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور 1921ئ کو وہیں وصال فر ما یا....آپ اس دور میں پیدا ہوئے جب بر صغیر کے حالا ت دگرگوں تھے ایک خونی انقلا ب آنے والا تھا، مسلمانوں کے حالات اور افکا ر واعمال میں ایک ہیجان بر پاتھا ، ایسی تحریکیں چل پڑی تھیں جنہوں نے ایمان ویقین کو کمز ور کر دیا تھا ۔ آپ نے جب ہوش سنبھا لا تو اپنی خدادادایمانی اور علمی قوت سے گرتے ہووں کو بچایا ، آپ نے مسلمانوں کے ایمان ویقین کو متز لز ل اور عشق ومحبت کو برباد ہونے نہ دیا اور عشق رسول ﷺ کی ایسی شمع روشن کی جس نے تاریک فضاؤں کوآج تک روشن کیاہوا ہے ‘آپ نے عشق رسول ﷺ کے ذریعے مسلمانوں میں زندگی کی ایک ایسی لہر دوڑائی جس نے مُردوں کو زندہ کر دیا.... آپ نے دور جدید کی شکستوں اور ناکامیوں میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی .... آپ نے پوری اسلامی تاریخ سے کشید کرکے مسلم ثقافت پیش کی .... آپ نے روایتی حکمت ودانش کو زندہ رکھا .... آپ نے جدید سائنس کے مقابل اسلا م کا دفاع کیا .... آپ نے عالمی بر ادری کا اسلا می تصورپیش کیا اور حقیقی اسلامی بر ادری کا تحفظ کیا .... آپ نے عصر جدید کو مذہب اور تصوف کی شاندا رروایات کو پامال کرنے نہ دیا .... آپ نے عقائد وجماعت کی حفاظت کی .... وہ عقائد جو اسلا م کی اساس ہیں....آپ ایک عظیم مد بر اورجہاں دیدہ مبصر تھے.... آپ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وقت نے آپ کو سچااور صحیح ثابت کیا اور وقت کی گو اہی سچی اور اٹل ہے ۔ بلا شبہ آپ ایک عظیم شخصیت تھے ۔

اعلیٰ حضرت کی عظمت کی ایک نشانی تویہ ہے کہ جو علو م وفنون آپکے علم میں تھے بلکہ ان علو م وفنون میں آپ نے تصانیف بھی یادگار چھوڑیں ان کے علاوہ مستقبل کے ان علوم وفنون کی نشان دہی کی جوابھی باقاعدہ وجود میں بھی نہیں آئے تھے....دوسری نشانی یہ کہ آپ نے ملت اسلامیہ کے دینی ، اخلاقی ، معاشی ، تعلیمی اور سیا سی مسائل کا جو حل پیش کیاتھا‘ ایک صدی گزر جانے کے باوجود عالم اسلا م کے مسائل کے لیے آج وہ اسی طرح موثر ہیں .... تیسری نشانی یہ کہ آپ کی حیات وتعلیمات اور علمی آثار پر دنیا کے چار براعظموں : بر اعظم ایشیاء، بر اعظم یورپ، بر اعظم امریکہ اور براعظم افریقہ کی جامعا ت اور تحقیقی اداروں میں کا م ہوا اور ہورہا ہے ۔

اعلیٰ حضرت نے اپنے علمی تبحر سے علمائے اسلا م اور حکمائے اسلا م کی یاد تازہ کر دی اور ان کے شاند ار تسلسل کو قائم رکھا ۔ منقو لات اور معقولات میں آپ نے اردو، فارسی اور عربی میں جو لا تعداد تصانیف اور شرح وحواشی پیش کیں ان سے آپ کی حیرت انگیز و سعت علمی اور عظمت کا اند ازہ ہوتاہے ۔ آپ کے بہت سے قلمی مخطوطات کے عکس موجود ہیں ۔ آپ نے اپنے فتوو ¿ں کا ایک عظیم ذخیر ہ چھوڑا ہے جو منقولا ت اور معقولات کا جامع ہے ۔ ”فتا وٰی رضویہ“ کی بارہ جلدیں متعدد بار ہند وستان وپاکستا ن سے شائع ہوچکی ہیں .... تاریخِ فتاوٰی میں” فتاوٰ ی رضویہ“ اپنی نظیرآپ ہے۔ ایک ایک فتوے میں بیسیوں حوالے ہیں جن کو پڑھ کر غیر مفتی بھی مفتی بن جاتا ہے ۔

اعلیٰ حضرت کے زمانے میں حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے اورنبوت کا دعوٰ ی کرنے والے پیدا ہوئے ۔آپ نے ناموس مصطفی ﷺ کی حفاظت فرمائی اور نا م نہاد ین کی سخت مزاحمت فرمائی ، مسلسل رسالے لکھے اور فتاوٰی جاری کیے ....سیر ت نبوی ﷺ سے متعلق اگر اعلیٰ حضرت کے رسالے اور فتاوٰی جمع کیے جائیں تو سیرت النبی ﷺ پرالگ سے ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے....حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی ہر کتاب میں سیرت ہی سیرت جگمگا رہی ہے....اعلیٰ حضرت نے ادب وشاعر ی کو مجازی محبوبوں سے نجات بخشی اور حقیقی محبو ب کا ایسا رنگ دکھا یا کہ سارے رنگ پھیکے پڑگئے ....فن شاعر ی میں نعت کو اتنا بلند کیا کہ پوری اردو شاعر ی تکتی رہ گئی ....آپ نے نعتیہ شاعری سے ملت میں ایک نئی روح پھونک دی ....آپ کا نعتیہ کلا م” حدائق بخشش“ کے نام سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکا ہے،جبکہ عربی شاعری کا پورا مجموعہ ”بساتین الغفران “ کے عنوان سے جامعہ از ہر‘مصر کے استا د شیخ سید حازم محمد احمد عبد الرحیم المحفوظ نے مرتب کیا ہے جو 1997 ءمیں لا ہور میں شائع ہوگیا ہے ۔

اعلیٰ حضرت کے عہد میں معاشرے میں بہت سی بد عات رائج ہوگئی تھیں ....آپ نے سختی سے ان کا رد فرمایا اورایک ایک بد عت کے ردمیں تحقیقی مقالے ، رسالے اور فتاوٰی صادر فرمائے ....آج ہمارے معمو لات میں بھی بہت سی ایسی چیز یں داخل ہوچکی ہیں جن کی اعلیٰ حضرت نے سخت مخالفت فرمائی تھی ،آپ کے افکار وخیالات کی روشنی میںہمیں اپنی اصلا ح کی طرف بھی توجہ دینی جائے .... جدید علو م عقلیہ نے جوانوں کو مبہوت کر دیا تھا ....اعلیٰ حضرت نے اپنے عہد کے سائنسد انوں کو چیلنج کر کے جوانوں کو حیران کر دیا اور ان کا ایمان متز لز ل نہ ہونے دیا ....1919 ءکو کششِ ثقل کے نتیجے میں آفتاب میں گھاؤ پیدا ہونگے جس سے زمین کے بعض علا قوں میں قیامت صغرابر پاہوگی ....جب اعلیٰ حضرت کو انگریزی اخبار Daily Ex. press(شمار ہ 18اکتو بر 1919ئ)کاتر اشہ ترجمہ کر کے یہ خبر سنائی گئی تو آپ نے اس خبر کو لغو قراردیا ۔ پھر اس پیش گوئی کے ردمیں ایک مقالہ ” معین مبین بہر دورشمس وسکو ن زمین “ قلم بند فرمایا جس میں 17دلائل سے پر وفیسرالبر ٹ ایف پورٹا کا رد فرمایا ،چنانچہ 17 دسمبر 1919ءکو سب نے دیکھا کہ اعلیٰ حضرت نے جو فرمایا تھا وہی سچ ثابت ہوا ....آپ نے اس رسالے کے بعد علم ھیئت پر دو دقیق مقالے”فوز مبین در رد حرکت زمین“(بریلی)اور”الکلمة الملھمہ فی الحکمة المحکمہ لوھاءفلسفہ المشئمہ“ (دہلی 1974ئ)قلم بند فرمائے ‘جن میں جد ید وقدیم فلسفیو ں اور سائنسد انوں کا رد فرمایا ہے ۔

اسلا می حکومت مزاج کے اعتبا رسے غیر مذہبی نہیں ، خالص مذہبی ہے کیونکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتاہے ....اعلیٰ حضرت کے آخر ی زمانے میں1919ئ سے 1921ئ کے درمیان تحریک خلافت اور تحریک ترک موالا ت چلیں اور ہند ومسلم اتحاد کی باتیں ہونے لگیں توآپ نے اس خیال کی سخت مز احمت ومخالفت فرمائی اور” دوقومی نظریہ“ کا احیا ءکیا ‘ یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم محمد علی جنا ح اور ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال بھی ایک قومی نظریہ کے حامی تھے۔ آپ کی انقلابی جد جہد نے ان دونوں قائدین کی رہنمائی کی ....ہم ابھی تک اعلیٰ حضرت کے سیاسی تد بر کو سمجھ نہیں سکے ....اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ۔ آمین ....اعلیٰ حضرت نے اپنے رسالے ”المحجة الموتمنہ “ میں دوقومی نظریہ کی خوب وضاحت فرمائی ہے ....

نصاب تعلیم ، اسلا می طر ز حکومت میںبنیا دی اہمیت کا حامل ہے ....اعلیٰ حضرت نے جدید نظام تعلیم کے خلاف سخت جد وجہد فرمائی جو انگریز حاکموں نے مسلمانوں کے مزاج و معاشرت کے بدلنے اور اسلا م کے دور کر نے کے لےے نا فذکیاتھا ....آپ نے نظام تعلیم اور اقتصادی نظام کا ایک خاکہ پیش کیا ....جس کا تفصیلی ذکر علامہ جلا ل الدین قادری نے ” امام احمد کا نظر یہ ءتعلیم “ (لاہور ) ، پر وفیسر رفیع اللہ صد یقی نے ”فاضل بریلوی کے معاشی نکا ت جدید معاشیات کے آئینے میں“ (لاہور1978ئ)اور کمیبرج یونیورسٹی کے انگر یز نو مسلم استاد ڈاکٹر محمد ہارون نے ” امام احمد رضا محدث بریلو ی کا عظیم اصلاحی منصوبہ “(کراچی 1997ء) میںتفصیل سے بیان کیا ہے ....بلا شبہ اعلیٰ حضرت اپنے دور کی ایک عظیم شخصیت تھے‘ ان کا علم ہمہ گیر اور عالمگیر تھا‘ ان کے اثرات بھی ہمہ گیر اور عالمگیر ہیں ....ہمیں ہر قسم کے تعصب اور تنگ دلی سے بالا تر رہ کر ان کے حیرت انگیزعلمی کمالات سے استفادہ کرناچاہیے ....!
Muhammad Ahmad
About the Author: Muhammad Ahmad Read More Articles by Muhammad Ahmad: 30 Articles with 42657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.