ذراسمجھ تولو،لانگ مارچ اوردھرنے کا فائدہ کس کس کو ہوا....؟؟

معاہدہ اسلام آبادمیں دھرنیوں اورپاکستانی عوام کے حصے میں تکالیف اور لولی پاپ کے سوااور کیاآیااورکیاآئندہ آئے گا....؟؟

سرہیرلڈولسن کا کہناہے کہ ”سیاست میں ہرہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتاہے“ اور اِسی طرح سیاست میں ہر دن ایک نیادن ہوتاہے ، سیاست میں نہ تو کو ئی کسی کا دشمن ہوتاہے اور نہ دوست کیوں کہ اِس میں سب اپنے اپنے مفادات میں مگن رہتے ہیں اکثر اِسی لئے سیاست میں کل کے دشمن آج دوست اور اِسی طرح آج کے دوست کل کے دشمن کے روپ میںآمنے سامنے بھی آ کھڑے ہوتے ہیں ۔

اِس پر آج مجھے یقین ہے کہ اِن دونوں کیفیات کا اندازہ میری پاکستانی قوم کو پچھلے دنوں بخوبی ہوگیاہوگا کہ سیاست میں اقتدار اور مفادات کے حصولوں کی جنگ میںسب کچھ جائز ہوجاتاہے جیساکہ ہمارے یہاں بھی گزشتہ دنوں قوم کو دیکھنے کو ملاہے اَب اِ س کے بعد میں اپنی قو م سے یہ قوی اُمیدرکھناچاہوں گا کہ اَب یہ کسی کے جھانسے اور بہکاوے میں نہیںآئے گی اور کسی بھی سیاست دان اور رہنماکاپیچھے اِس کادامن تھام کر نہیں چلی گی کیوں کہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جنھیںیہ معصوم عوام کو استعمال کرکے حاصل کرلیتے ہیںاور بیچاری عوام ہے کہ یہ ہر بار بے وقوف بن جاتی ہے مگر اِس بار عام انتخابات میں عوام کو بے وقوف بننے کا نہیں... بلکہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا اقتدار کے پجاریوں کو بے وقوف بنانے کا وقت ہے۔

میری قوم کو ایساکیوں کرناہے تو اِس کے لئے ذرایہ تو سمجھ لوکہ ، لانگ مار چ اور دھرنے میںعوام کی دی گئیں قربانیوں کا فائدہ کس کس کو ہواہے..؟تو غور سے سُنو..!تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری نے اپنے لاکھوں مریدین اور محب وطن پاکستانیوں کے ہمراہ اچودہ جنوری سے (اسلام آباد ) وفاقی دارلحکومت کے کاروباری علاقہ بلیوایرایا میںا نتخابی اصطلاحات اورملک میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے جودھرنا دیا تھابالآخروہ دھرنا 84گھنٹے گزر جانے کے بعد سترہ جنوری کوعلامہ طاہرالقادری کے دیئے گئے چار نکاتی مذاکراتی عمل کی تکمیل کے بعد بخیروعافیت اختتام پذیر توہوگیاہے مگرکیا دھرنیوں نے یہ سوچاہے کہ اِس دھرنے سے علامہ کو کتنافائد ہ پہنچاہے تو لو سُنو...!!ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری مظلوم عوام کے کاندھوں پر کئے گئے دھرنے سے حکومتی اتحاد ی بن گئے ہیں اور ایسے اتحادی جو مشاورتِ کُل کا درجہ رکھتاہے یعنی سمجھے کہ کاندھ عوا م کا اور مزے رہنمائے دھرناکے...تو اَب سمجھوکہ عوام تم کہاں ہوئے اور رہنمائے دھرناکہاں پہنچ گئے ہیں...؟

مگراَب یہ اور بات ہے کہ اِس مذاکراتی عمل کے ملک اور عوام پرمستقبل قریب میں کیااور کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں یاہوں گے ..؟اِس کے بارے میں کم ازکم معاہدے کی تاریخ گزرنے سے قبل کچھ کہنادرست نہیں ہوگا کہ اِس معاہدے پر کتناعمل کیا گیاہے اور کتنانہیں ...؟یاحکومت کا یہ سب کچھ کرنے کا مقصدصرف انقلاب کے جوش میں اُبلتے شیخ الاسلام اور اِن کے دھرنے میں شامل اِن کے لاکھوں مریدین سمیت کڑوروں، مہنگائی، بھوک وافلاس، تنگدست ،روٹی، کپڑا، مکان ،بجلی و گیس، علاج ومعالجہ ، تعلیم، سفری سہولیات اور اپنی دیگربنیادی آسائش زندگی سے محروم پاکستانی عوام کو لولی پاپ دیناتھا...؟یاحقیقی معنوں میں اِس معاہدے کی روح جِسے”اسلام آبادلانگ مارچ اعلامیہ کا نام “دیاگیاہے اِس معاہدے کے مطابق اِس کے تمام طے شدہ نکات پروقتِ مقررہ پر من و عن عمل کرکے اِس کے ثمرات عوام تک پہنچابھی تھا...؟۔

اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں مفلوک الحال اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم پاکستانی قوم کوآنے والے دنوںمیں خوداِس بات کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کے نام پر کئے جانے والے معاہدے پر ہمارے موجودہ جمہوریت پسند حکمرانوں نے کتنا عمل کیا اور اِس کے کتنے ثمرات عوام تک پہنچے ہیں ...؟میںیہ سمجھتاہوں کہ اَب آئندہ ہونے والے انتخابات جس کی تاریخ بھی چار، پانچ یا چھ مئی میں سے کوئی ایک حتمی قرار پائے گی وہ بھی حکومت نے دے دی ہے اَب اِس سے قبل یہ فیصلہ کرنااِس عوام کاکام ہے جوکہ دھرنے میں شامل تھی اور اِس دھرنے کو اپنے مسائل کا نجات دھندہ تصور کرتی تھی اِسے عام انتخابات میں اپناووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچناہوگاکہ حکومت نے معاہدہ لانگ مارچ پر کتنا عمل کیا ہے اور کتنا نہیں ...؟اور اِس کے عوام تک کتنے ثمرات پہنچتے نظر آئے ہیں کہ نہیں...؟؟

بہرحال..! یہاں یہ امرقابلِ ذکر ضرورہے کہ علامہ طاہرالقادری کی رہنمائی میں وفاقی دارلحکومت کے کاروباری علاقہ بلیوایرایامیں دیاجانے ولادھرناجس میں لاکھوں افراد جن میں معصوم بچے، خواتین، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سمیت ضعیف عمر افراد کی بھی خاصی تعداد موجود تھی آج یہ لاکھوں کا دھرنا دنیا کی تاریخ کا حقیقی معنوں میںایک ایسا پُرامن اور پُرسکون دھرنے کا درجہ حاصل کرچکاہے جس نے روزِ اول سے ہی عالم کُل میںایک ایسی تاریخ رقم کردی ہے کہ بین الاقوامی سطح کے مبصرین اور تجزیہ نگار اَب تک حیران ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں چار روزتک اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہنے والے وہ پاکستانی جو دنیابھرمیں جذباتی مشہور ہیں اِنہوںنے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے خاطر ایک ایسادھرنادیاجس کے دھرنیوں نے ایک پتھر تو کیاتشدد کا کوئی ہلکاپھلکا مظاہرہ بھی نہیں کیاجس سے یقیناعالمی سطح پر پاکستانیوں کا ایک اچھا امیج گیاہے کہ ساری پاکستانی قوم ایسی ہرگزنہیں ہے جیسی ساری دنیااِنہیں دہشت گرد اور جذباتی اور جنونی گردانتی ہے یہ ٹھیک کہ کچھ ایسے ہوں گے ..؟

مگر یہاں سوال یہ بھی تو پیداہوتاہے ایسے لوگ دنیاکے کس ملک اورکس قوم میں کب موجود نہیں رہے ہیں اور جو یقیناآج بھی اِن میں موجود ہوں گے مگر مٹھی بھر بگڑے ہوؤں کی وجہ سے ساری دنیا کا آج پوری پاکستانی قوم کو دہشت گرد اور جنونی کہنایکسر غلط ہے اصل میں میرے پاکستانیوں کی اصل فطرت اور حقیقی چہرہ یہ ہے جو ساری دنیا نے لاکھوںکے پُرامن دھرنے میں دیکھاہے اَب اِس کے بعد دنیامیں بسنے والے کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہوناچاہئے ہے کہ کوئی چندمٹھی بھر عناصر کی وجہ سے میرے پاکستانیوں کو دہشت گرد اور جنونی کہہ کراپناالوسیدھاکرتاپھرے اور امن پسنداور پُرسکون رہنے والی پاکستانی قوم کودہشت گرداور جنونی گردان کر اِس کی زندگی تنگ کرے اور اِس ترقی اور خوشحالی کی راہیں بندکرے۔

ہاں تو اَب میں بات کرنے جارہاہوں دھرنے کے آخری دن کے آخری لمحات میں دھرنیوں کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی جانب سے حکومت کو آخری بار دیئے جانے والے الٹی میٹم اورڈیڈلائن کی جس کے بعد علامہ اور حکومتی کارندوں کی جانب سے جتنالچک کا مظاہر ہ کیاگیاجہاں اِس سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیںتو وہیں دونوں جانب سے کیاجانے والا نرم رویہ بھی قابلِ بحث ہے اِس میںکوئی شک نہیں کہ دونوں جانب سے نرمی اور لچک کے عمل سے اتناتوضرور ہوگیاہے کہ سخت سردی اور بارش کے موسم میں لاکھوں خواتین ، بچوں ، بڑھوں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں پر رحم کھایاگیااور ایک ایسامذاکراتی عمل شروع کیاگیاجس سے دھرنے کے نہتے اور معصوم پاکستانیوں کی جان کی خلاصی توہوگئی مگراِس معاہدے کے بعدعلامہ کے معصوم دھرنیوں کے ہاتھوں سوائے گیس بجلی، خوراک ، تعلیم، علاج و معالجہ اور دیگر سہولیات سے پہلے والی محرومی کے کچھ نہیں آیاہے یعنی اِس دھرنے کے رہنمااور معاہدے میں شامل حکومتی کارندوں نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے لچکدار کا جتنابھی مظاہرہ کیاآج اِن کے پاس اِس کی تعریف میں کہنے کو شاید الفاظ تک نہیں ہیں۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا عمل اُس وقت شروع کیا گیاجب دھرنے کے چوتھے روز ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی غصیلی اور غضب نا ک آواز میں اپنے مخصوص انداز سے اسلام آباد کی سخت سردی اور دھرنے کی پہلی بارش کے ساتھ ہی حکومت کو اپنا آخری ڈیڑھ گھنٹے کا(ڈرامائی) الٹی میٹم دیاتوحکومتی ایوانوں میںہلچل مچ گئی اور حکومتی مشینری حرکت میں آگئی اور صدرزرداری کی وزیراعظم کو دی جانے والی خصوصی ہدایات پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے طاہرالقادری سے مذاکرات کے لئے فوری طور پر ایک دس رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل بھی دے دی جس کی قیادت چوہدری شجاعت حسین کررہے تھے جبکہ اِس ٹیم کے شرکاءمیںفاروق ایچ نائیک ، مخدوم امین فہیم ، قمرزمان کائرہ، ڈاکٹر فاروق ستار، بابرغوری،مشاہدحسین سید، خورشیدشاہ، عباس آفریدی اور افراسیاب خٹک شامل تھے جنہوں نے سخت حفاظتی انتظامات میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایک کنٹینرمیں بنائے گئے بنکرنماکمرے میں پانچ گھنٹے مذاکرات کے بعد اِن کی جانب سے پیش کردہ بیش تر نکات مان لئے جس پر صدر آصف علی زرداری کی رضامندی کے بعد مذاکراتی ٹیم کے شرکاءسمیت طاہرالقادری اور وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کے بھی دستخط ہوئے جس کے بعد اِس معاہدے کو”اسلام آبادلانگ مارچ اعلامیہ کا نام “دیاگیاہے۔

اگرچہ دھرناختم ہوگیاہے اور ایک معاہدہ عمل میںبھی لایاجاچکاہے اِس پر میں پاکستانی قوم اور معاہدیوں سے یہ پوچھناچاہتاہوں کہ کیاعوام کو یقین ہے کہ اِس معاہدے سے انتخابی اصطلاحات ہوجائیں گیں اور اِس کے مسائل حل ہوجائیں گے..؟ اور اِسے چین اور سُکھ نصیب ہوجائے گا..؟تو یہ عوام کی شاید بھول ہے کیوں کہ اِس سارے معاہدے کا فائدہ حکمران جماعت کو ہوگااِس سے یہ بالخصوص پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں اپناوقار بحال کرے گی اور اپوزیشن کی اُن جماعتوں کو پست کرے گی جو اِس گمان میں ہیں کہ عام انتخابات سے قبل یہ جمہوریت کی آڑ میں الائنس بنالیں گیں اورجیت اِن کی ہوگی اور اقتدار اِن کے ہاتھ ہو گاتوایساہرگزنہیں ہے اِس معاہدے کی رو سے موجودہ برسرِ اقتدار جماعت آئندہ ایک مرتبہ پھرمسندِ اقتدار پر قدم رنجافرماکر عوام کی گردنوں پر اپنی حکمرانی قائم کرلے گی اور بیچارے عوام پھر پانچ سال کے لئے اپنے بنیادی حقوق گیس وبجلی ، خوراک ، علاج و معالجہ،تعلیم ، پانی اور دیگر آسائش زندگی سے محروم رہ کردہشت گردی، قتل وغارت گری، کرپشن، لوٹ مار اور بہت سے خطرات میں گھرکر زندہ درگوں ہوجائیں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.