بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خون ہم نے دیا؛
جب بہار آیٔ تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
۲۶جنوری ہویا۱۵ اگست یہ دن ایک طرف ہمیں مسرور کرتا ہے ،دوسری طرف ہمیں
اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد دلا کر رلاتا دیتاہے، کیوں کے اس ملک کو
ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سینچا تھا،مگر جو ظالمانہ رویہ انگیز کے دور
حکومت میں ہمارے ساتھ تحریک آزادی کے علمبردار ہونے کے جرم پر تھاآج صرف
مسلمان ہونے کے جرم میں ایک گہری سازش یا حکمتِ عملی کے تحت مسلمانوں کے
تیٔں ہندستان میں روا ہے لیکن ہندستان میں تومسلمانوں کا حق مورثی ہے،مگر
آزادی کے ۶۵ سال بعد بھی ہندستانی مسلمان اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام
ہیں،اس کی ایک وجہ یہاں کے ارباب اقتدار یا حکومتوں کی غلط روش یا دو روخی
پالیسی ہے،حقیتت یہ ہے کے یہاں انگرزوں کی غلامی سے تو آزاد ی ملی ِ،لیکن
اندرون ملک یعنی فسطایٔ ذہنیت رکھنے والے افراد سے خلاصی نہیں مل سکی مطلب
جو رویہ ہمارے ساتھ انگریز نے روا رکھا تھا بلکل اسی طرح کا رویہ آ ج
ہندستانی کی کیٔ ریاستوں نظر آتا ہے ،آزادی کے بعد سے آج کی تاریخ تک یہاں
کیٔ جماعتوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور بہتوں نے مسلمانوں کے حقوق
کے لیٔے بڑے بانگ دعوے کیے؛لیکن وقت یا زمانے نے ثابت کر دیا کے یہ سب
جھوٹے یا کھوکلے دعوے تھے جوصرف انتخابی مہم کے لیے ہوتے ہیں ؛دراصل یہ وہی
(policy)یا حکمتِ عملی ہے جو انگریز نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنایٔ تھی وہ
کیاpolicy)یا حکمتِ عملی تھی اس کا اندازہ ہمیں سر ولیم ہنٹرکے اس بیان سے
ہوتا ہے جو اس نے کلکتہ کے ایک فارسی اخبار مورخہ۱۴/جولایٔ۱۸۶۹ء کے حوالے
سے لکّھا تھا"اس خبر کویٔ تردید نہ جاسکی کہ سندر بن کمیشنر نے گورمنٹ گزٹ
میں یہ اعلان کیا تھاکہ جو ملازمتیں خالی ہویٔ ہیں ان میں سواے ٔ ہندوں کے
اور کسی کا تقرر نہ کیاجاے ٔ؛مسلمان اب اس قدر گر گے ٔ ہیں کہ اگر وہ
سرکاری ملازمت پانے کہ اہل بھی ہیں توانہیں سرکاری اعلانات کے ذریعہ خاص
احتیاط کے ساتھ ممنوع کر دیا جاتا ہے،ان کی بے کسی کی طرف کویٔ متوجہ نہیں
ہوتا اور اعلیٰ حکام تو ان کے وجود کو تسلیم کرنا بھی اپنی کسر شانِ شان
سمجھتے؛حکام کے اس طرز عمل کانتیجہ یہ ہوا کہ کلکتہ میں مشکل سے کویٔ دفتر
ایسا ہوگا جس میں بجزچپراسی یا چھٹی رساں یا دفتری کے مسلمان کو کویٔ نوکری
نہ مل سکی"
اس وقت ہندستان میں کچھ ریاسی حکومتوں کا رویہ اس سے مختلف نہیں ! یہ اور
بات ہے کہ ابھی تک سرکاری طور اس طرح کا کویٔ اعلان نہ ہو پایا ہے، لیکن کیٔ
جماعتوں کی فکریں اس اقتساب سے مختلف نہیں ،تعلیم یا مسلمانوں کی شرح
ناخواندگی محظ ایک بہانہ ہے ․ دراصل یہ حکومت کی ایک حکمتِ عملی کے تحت ہی
ہے،یعنی مسلمانوں شرح خواندگی ثابت کرنا ،ان کے ووٹر بینک بکھیر کر رکھنا
تاکہ مسلمان ہندستان میں ایک قوت بن کر سامنے نہ آیٔں اور مسلماں احساس
کمتری کا شکار ہو کر یہاں دن کاٹنے پر مجبور ہوں،افسوس ہے ایک زمانے تک
یعنی۰۰ ۱۸ء سے ۱۸۷۰ء مسلمان تنہا اس ملک کی اذادی کی جنگ لڑی تھی․اسلیے
ضروت ہے اس بات کی مسلمان اپنے مورثی حق لینے میدان میں اترے ،کیونکہ ہمارے
اسلاف نے اس ہندستان کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی سفید فام قوم
کواپنی رگوں کے آخری قطرے تک برداشت نہیں کیا تھا،ہندستان میں بسنے والی
ہندستانی قوم جو مختلف مذاہب اور مکتبۂ فکرکی تہذیب اور تمدن کے مختلف و
متضاد وعناصرکو لے کر وجود میں آیٔ تھی،اس کی عزت و حرمت کو بچانے کے لیٔے
پہلے پہل ہم نے خود اپنی ذات کو قربانی کے لیٔے پیش کیا تھا۱۸۵۷ء کے بعد
بھی نصف صدی تک انگریزی سامراج کو شکشت دینے کے لیٔے ہم تن ِتنہاجنگِ آزادی
کے میدان زور آزمایٔ کرتے رہے اور ہم نے اس راہ میں اپنا خون اتنا بہایاکہ
پوری جنگِ آزادی میں دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا،لال قلعہ سے
فصیلوں سے۱۸۵۷ء میں ہماری عظمت کا پرچم اُتار کر یونین جیک لہرایا گیا،ایک
طرف انگریز ہماری عظمت و اقتدارکے قلعہ پر اپنے اقتدار کا پرچم لہرا رہا
تھا دوسری طرف ہم جنگِ آزادی کے میدان میں اس سے مقابلہ کے لیٔے صف بندی کر
رہے تھے،ہم برطانوی سامراج کا مقابلہ کرنے کے لیٔے اگے بڑھ کر جھنڈا بلند
کیا اوربرادران وطن کا انتظار نہیں کیا،اسلیٔے جنگ آزادی کے میدان میں
ہماری جگہ ہمیشہ صف اول میں رہی اسکی کسی کو مجالِ انکار نہیں ؛لیکن افسوس
ہمارے ساتھ سوییلا سلاک دیکھ کر ایک انصاف پسند انسان کا دل دہل جایٔگااور
انکھیں انسوں میں بھر کر زبان کنگ ہو جائیگی اور اس ملک کا سر اس ناانصافی
کی داستان سن کر جھک جایٔگا ہے ،کیونکہ اس ملک کی ابیاری کیلیٔے ہمارے
اسلاف نے اپنا خون دیا ہے ؛سولی پر چڑھے ہیں دہکتی آگ اورکہولتے ہوے تیل
میں کودا ہے،لیکن افسوس یہ نا انصافی کی عجیب رودادنکھوں سے انسو خشک کر
دیتی ہے۔ |