یو این ملٹری آبزرور،سیز فائر لائین اور مسئلہ کشمیر

کشمیر کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین،جسے پاکستان اور بھارت نے 1972ءکے شملہ سمجھوتے ہیں لائین آف کنٹرول کا نام دیا ،رواں ماہ دو مرتبہ مختلف حوالوں سے موضوع بنی ہے۔اسی ماہ پہلے سیز فائر لائین پہ فائرنگ و گولہ باری میں دونوں طرف سے فوج کا جانی نقصان ہوا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پھر بگڑنے لگے۔دوسری مرتبہ سیز فائر لائین اس وقت موضوع بنی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے امن مشنز کے بارے میں بحث کے دوران پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کے درمیان کشمیر کی سیز فائر لائین پر 1948ءسے متعین ”یونائیٹڈ ملٹری آبزرور گروپ“ پر مخالفانہ بیانات سامنے آئے۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اجلاس میں کہا کہ اقوام متحدہ کا فوجی مشن جموں و کشمیر میں لائین آف کنٹرول کی مانیٹرنگ کا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ 1972ءمیں طے پائے شملہ سمجھوتے کے بعد کشمیر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کی ضرورت نہیں ہے۔اس پر اقوام متحدہ کی طرف سے یہ قرار دیا گیا کہ کشمیر میں ملٹری آبزرور گروپ کی تعنیاتی سلامتی کونسل کا فیصلہ ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادنمبر(1948)47 کے تحت کشمیر کی سیز فائر لائین کی ’آبزرویشن‘ کے لئے اقوام متحدہ کا فوجی مشن متعین کیا گیا۔1951ئ میں سلامتی کونسل کی قراردار نمبر91کے تحت پاکستان اور بھارت کے سرمیان کشمیر کی سیز فائر لائین پہ خلاف ورزی کی نگرانی کے لئے اقوام متحدہ کا خصوصی فوجی مبصر مشن تشکیل دیا گیا۔ پاکستان اس فوجی مشن سے مکمل تعاون کرتا ہے لیکن بھارت سیز فائر لائین سے متعلق فوجی مبصر کو کوئی شکایت ارسال نہیں کرتا تاہم بھارت فوجی مبصر کو جگہ،ٹرانسپورٹ اور دوسری سہولیات فراہم کر تا چلا آ رہا ہے۔کشمیر کی سیز فائر لائین پہ حالیہ فائرنگ پر پاکستان نے ملٹری آبزرور گروپ کو باقاعدہ شکایت کی ہے جس پر مشن نے اپنی تحقیقات شروع کر دی ہے۔اقوام متحدہ ملٹری آبزرور کی ذمہ داریوں میں،سیز فائر کے سمجھوتے کی مانیٹرنگ ،انخلاءاور ڈی ملٹرائیزیشن ،سیز فائر لائین کے دونوں طرف گشت کرنا،مقامی نوعیت کی مشکلات (سماجی ،معاشی وغیرہ) کو حل کرانا اورجارحیت یا سیز فائر کی خلاف ورزی کی تحقیقات کرنا شامل ہے۔اقوام متحدہ کا پہلا فوجی مبصر مشن کشمیر کی سیز فائر لائین پر متعین کیا گیا جس کے دفاتر سرینگر،راولپنڈی میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے نامزد کروشیا کے میجر جنرل ڈریگوٹن ریپائن پاکستان انڈیا ملٹری آبزرور گروپ کے سربراہ ہیں۔کشمیر کی سیز فائر لائین پہ تعینات اس فوجی مشن میں 8ملکوں کے 113فوجی اور سویلین کام کر رہے ہیں۔اب تک اس فوجی مشن کی 11ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو سیز فائر لائین سے آمد و رفت کی اجازت تھی لیکن عملی طور پر ایسا نہ ہوا۔2004ءمیں سیز فائرلائین پر دونوں ملکوں کی فوجوں کی جنگ بندی کی سمجھوتے کے بعد 2005ءمیں سیز فائر لائین کے مخصوص مقام سے کشمیریوں کو بغیر پاسپورٹ،پرمٹ پر آنے جانے کی اجازت ملی جسے ”سرینگر مظفر آباد بس سروس کا نام دیا گیا۔اسی طرح سیز فائر لائین سے ”ٹرک سروس “ سے مخصوص و محدود پیمانے پرتجارت بھی شروع کی گئی۔کشمیر کوتقسیم کرنے والی سیز فائر لائن جسے پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول کا نام دیا ہوا ہے، پر فائرنگ اور گولہ باری تو اعلیٰ سطحی فوجی رابطوں کے بعد بند ہوگئی ہے لیکن بھارتی حکام کاکہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔ بھارتی حکام نے فائرنگ کے اس واقعہ کے بعد جس طرح کا سخت رویہ اپنایا ہے اسے کوئی بھی مناسب قرار نہیں دے سکتا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ قراردی گئی (جس کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے) کے ایک علاقے میں فائرنگ کے مقامی واقعہ پر بھارت کی طرف سے سخت رویہ اپنانے سے بھارت کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے تمام تنازعات پرامن طور پر حل کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کھچاﺅ کی اس صورتحال میں سیز فائر لائن سے منقسم کشمیری خاندانوں کی آمدورفت کا جاری رکھا جانا خوش آئند ہے۔ فائرنگ کے حالیہ واقعات اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی سے سرینگر مظفرآباد بس سروس کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا تھالیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناﺅ کے باوجود اس بس سروس کے جاری رہنے سے امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ملک ”کچھ وقت ضائع کرنے کے بعد “امن کی راہ میں ایسے مثبت اقدامات اٹھائیں گے جس سے دونوں ملکوں کے عوام کوحقیقی طورپر فوائد حاصل ہوسکیں۔ یوں یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ کشمیر میں حالات کو ٹھیک کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر ہروقت خاتمے کی تلوار لٹکتی ہی رہے گی۔

حقیقت سے دیکھا جائے تودونوں ملکوں کے درمیان شملہ سمجھوتہ کب کا ختم ہوچکا ہے۔ 1984 ءمیں سیاچن پر بھارت کے قبضے ، کرگل لڑائی اور ایک عشرے سے زائد عرصہ سیز فائر لائن پر دونوں ملکوں کی فائرنگ و گولہ باری سے شملہ سمجھوتے کی دھجیاں اڑچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق مشرف دورمیں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت کشمیر کی سیز فائر لائن پر جنگ بندی عمل میں لائی گئی۔ حقیقت اب بھی یہی ہے کہ اقوام متحدہ ، عالمی برادری میں کشمیر کے منقسم حصوں کے بارے میںپاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر نہ تو بھارت کا ہوا ہے اور نہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر پاکستان قرارپایا ہے۔اس معاملے پر اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ کشمیر کی سیز فائر لائن پر UNMOG سلامتی کونسل نے متعین کیا تھا اور سلامتی کونسل ہی اس بارے کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ یہ بات بھی اب ثابت ہوگئی ہے کہ دونوں ملک باہمی معاہدوں ، سمجھوتوں سے مسئلہ کشمیر حل کرنے میں عشروں بعد بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں اور کشمیریوں کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لہذا مسئلہ کشمیر کے منصفانہ پرامن حل میں عالمی برادری کے کردار میں اضافہ ضروری ہو جاتا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698893 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More