موجودہ اسمبلیوں کی مدت مکمل
ہونے کے قریب ہے، سیاسی جماعتیں غیر اعلانیہ انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہیں،
الیکشن سے قبل سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کی خبریں بھی گرم ہیں۔ سیاسی
جماعتوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوگیا ہے، بہت سوں نے اپنے مفادات
پورے نہ ہونے، عہدے، وزارتیں اور انتخابی ٹکٹ نہ ملنے کے خدشات پر اپنی
پارٹیاں تبدیل کرلی ہیں۔ بہت سے لوگ دوسری پارٹیوں میں جانے اور اپنے
مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ’بات چیت‘ میںمصروف ہیں۔ آنے والے دنوں
میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی اور اپنی پارٹیوں سے بے وفائی کا عمل اور
تیزہوجائے گا۔
سندھ میںپیپلزپارٹی اور ان کے مخالفین ن لیگ اور فنکشنل لیگ کے ارکان توڑنے
اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر زرداری نے مسلم لیگ ن جہلم
کے 2 ارکان قومی اسمبلی، ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف کھوسہ اور مسلم لیگ
فنکشنل کے 2 ارکان کو پیپلزپارٹی میں شامل کرکے دونوں جماعتوں کو سخت جواب
دیا، جو دراصل سندھ میں ن لیگ، فنکشنل لیگ، مسلم لیگ ہم خیال، نیشنل پارٹی
اور قوم پرست اتحاد کے مابین انتخابی اتحاد کا بھر پور جواب ہے۔ اس اتحاد
کے ذریعے سندھ کے کم سے کم 11 اضلاع میں پیپلزپارٹی کو سخت مشکلات کا سامنا
کرنا ہوگا جن میں سکھر، شکار پور، نو شہرو فیروز، خیر پور، بدین، حیدرآباد،
میر پور خاص، تھر پار کر، دادو، سانگھڑ اور عمر کوٹ شامل ہیں۔
ان اضلاع میں قومی اسمبلی کی کل 26 اور صوبائی اسمبلی کی 58 نشستیں ہیں،
یہاں پر پی پی کے لیے اپنی سابقہ نشستیں برقرار رکھنا جوئے شیر لانے کے
مترادف ہوگا۔ جب کہ سندھ کے باقی اضلاع میں بھی پی پی کے مخالفین کو 20 سے
25 فی صد نشستیں ملنے کی توقع ہے۔
مسلم لیگ ن اور فنکشنل لیگ نے پیپلزپارٹی کو بھر پور جواب دینے کے لیے حکمت
عملی وضع کرلی ہے، اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ق) سندھ کے صدر اور رکن
قومی اسمبلی سردار غوث بخش خان مہر اور ان کے بیٹوں رکن سندھ اسمبلی شہر
یار خان مہر اور سابق ضلعی ناظم شکار پور عارف خان مہر نے ق لیگ کے 47
عہدیداروں سمیت مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔ جس
کے بعد آیندہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے صوبائی وزراءآغا سراج درانی،
آغا تیمور اور ایم این اے آفتاب شعبان میرانی کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں،
شکار پور ضلع میں فنکشنل لیگ کی پوزیشن کافی مستحکم اور پی پی کی پوزیشن
بظاہر کمزور ہوئی ہے۔
2008ءکے عام انتخابات میں شکار پور کے 2 قومی اور 4 صوبائی حلقوں میں سے
مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر غوث بخش مہر ایم این اے اور شہر یار مہر رکن صوبائی
اسمبلی بنے تھے، جب کہ عابد جتوئی بھی جتوئی قبائل کے اثر و رسوخ والے حلقے
سے ایم پی اے کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ 1993ءکے بعد آغا سراج درانی
تحصیل گڑھی یاسین والے حلقے سے کامیاب ہوئے تھے، جب کہ اس سے قبل وہ
2002ءاور 1997ءکے انتخابات میں نادر حسین کماریوں اور ذوالفقار کماریوں سے
شکست کھاچکے تھے۔ اس طرح شکار پور شہر کے حلقے سے پیپلزپارٹی کے آغا تیمور
کامیاب ہوئے۔ شکار پور میں مذکورہ واحد حلقہ ہے، جہاں سے پی پی کا امیداوار
کامیاب رہا ہے اور فنکشنل لیگ کے رہنما امتیاز شیخ مذکورہ حلقے سے کبھی بھی
کامیاب نہیں ہوئے۔
غوث بخش مہر کی فنکشنل لیگ میں شمولیت سے پی پی کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں،
کیوں کہ مہر قبائل کے حریف جتوئی خاندان کا تعلق این پی پی سے ہے اور اس
وقت این پی پی اور فنکشنل لیگ کے درمیان اتحاد ہے۔ پیپلزپارٹی کی یہ کوشش
رہی ہے کہ شکار پور کے مہریا جتوئی خاندان میں سے ایک پی پی میں شامل ہو،
لیکن اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما ذوالفقار کھوسہ کے صاحبزادے سیف الدین
کھوسہ پی پی میں شامل ہونے کے بعد لغاری خاندان کے مسلم لیگ ن میںجانے کے
امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس ضمن میں سردار جمال لغاری اور اویس لغاری کی ن لیگ
سے معاملات طے کرنے کے لیے مشاورت جاری ہے۔ آیندہ چند روز میں اعلان متوقع
ہے، اگر لغاری خاندان مسلم لیگ ن میں شامل ہوتا ہے تو پھر کھوسہ خاندان کے
باقی افراد بھی پیپلزپارٹی میں جانے کو ترجیح دیں گے، کیوں کہ لغاری خاندان
کے ن لیگ میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب میں کھوسہ خاندان کی مسلم لیگ ن میں
رہنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔
ن لیگ بھی پیپلزپارٹی کو بھر پور جواب دینے کی تیاری کررہی ہے۔ ذرائع کے
مطابق پیپلزپارٹی کے 5 سے6 ایم این اے اس وقت مسلم لیگ ن سے رابطے میں ہیں
جن کا تعلق پنجاب اور سندھ سے ہے، جب کہ بلوچستان سے پی پی کے رکن قومی
اسمبلی ناصر شاہ کی آج (27 جنوری) نواز شریف سے ملاقات متوقع ہے اور ممکن
ہے کہ وہ اس موقع پر ن لیگ میں شمولیت کا بھی اعلان کردیں۔ مجموعی طور پر
چاروں صوبوں سے ایک درجن سے زاید پی پی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور
اہم رہنماﺅں کے ن لیگ سے معاملات طے ہوچکے ہیں، جس کا اعلان آیندہ چند روز
میں متوقع ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں بڑی پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں اور دونوں
پارٹیوں میں موجود سیاسی رہنماﺅں کی اکثریت نے برسراقتدار پارٹیوں سے بھر
پور فائدے اٹھائے ہیں اور گزشتہ 3 عشروں سے دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے
والوں کی اکثریت پارٹیاں تبدیل کرتی آئی ہے۔ بہت کم سیاسی رہنما ایسے ہیں
جنہوں نے اپنی پارٹی کبھی تبدیل نہیں کی اور وہ اپنی پارٹی قیادت سے
وفاداری نبھاتے آرہے ہیں۔ انتخابات قریب آتے ہی سیاسی وفاداریاں بدلنے اور
اپنی پارٹی قیادت کو خیر باد کہنے کے عمل میں تیزی آجاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی
وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض سیاسی رہنما اپنے مفادات پورے نہ ہونے اور انتخابی
ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی وفاداریاں تبدیل کردیتے ہیں، کیوں کہ وہ نہیں
چاہتے کہ کسی اور کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔
مسلم لیگ ن نے چودھری برادران کے لیے اپنے دروازے بند رکھے ہیں مگر ق لیگ
چھوڑ کر آنے والوں کو گلے بھی لگایا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کا بھی کوئی
اصول مقرر نہیں، اس کے دروازے بھی ہر پارٹی سے آنے والوں کے لیے کھلے ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق آمر پرویز مشرف کے بہت سے قریبی چہیتوں کو تحریک انصاف میں
لیے جانے کے بعد عمران خان کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد
وہ اس معاملے میں کچھ محتاط ہوگئے ہیں۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ جب کسی پارٹی میں شامل ہونے والوں کے
لیے کوئی اصول مقرر نہیں ہوگا یہ آنا جانا لگارہے گا اور سیاسی وفاداریوں
کی تبدیلی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا، جس کے نتیجے میں وہی پرانے سیاسی چہرے
یا ان کے صاحبزادے اور عزیز مختلف پارٹیوں کے ذریعے اقتدار میں آتے رہیں گے
اور موروثی سیاست کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اگر ہماری سیاسی پارٹیاں مفادات کے
لیے آنے والوں کو لینے سے گریز کریں اور اصول و نظریے کو ترجیح دیں، تو
سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی میں کمی آسکتی ہے۔ |