بھارتی فلموں کے "بادشاہ " کنگ
خان نے جب اپنے اوپربیتے جانے والی داستان میں بھارتی مسلمانوں کےساتھ ہونے
والی زیادتیوں پر آہ فغاں بلندکی تو بھارت کے سیکولر ازم کا نام نہاد
مزیدپردہ چاک ہوگیا۔ایک مقامی اخبار میں شاہ رخ خان کا انتہائی مایوس کن
مضمون شائع ہوا کہ جس میں اُنکا کہنا تھا کہ" بھارتی انتہا پسند سیاسی
جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بن جاتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
بھارت میں مسلمان ہونا کوئی جرم ہے، باوجود اس کے کہ میرے والد نے بھارت کی
آزادی کی جنگ میں حصہ لیا ، میری زندگی میں ایسے مواقع آئے ہیں جب میری
وفاداری میرے ملک کے بجائے پڑوسی ملک کےساتھ لگائی جاتی ہے، میرے خلاف
ریلیاں نکالی جاتی ہیں جس میں ہندو لیڈرز مجھے میری جائے پیدائش پاکستان
کولوٹنے کو کہتے ہیں ۔"کنگ خان نے بھارتی کلچر کی وجہ سے اپنے بچوں کے نام
بھی ایسے رکھے کہ انھیں نام کی وجہ سے ہندو انتہاپرست عناصر پریشان نہ
کریں۔بھارت میں ہندو انتہا پرستی کی بڑھتے ہوئے واقعات سے جہاں کنگ خان
جیسے نامور افراد متاثر ہیں تو عام مسلمان بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔گذشتہ
دنوں سرکاری سطح پر اقرار کیا گیا کہ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں ،
بے جے پی اور آرایس ایس ، ہندو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور سمجھوتہ
ایکسپریس ،مکہ مسجد ، درگاہ اجمیر شریف اور مالیگاﺅں کے بم دہماکوں میں
مبینہ طور پرذمے دار ہیں۔جبکہ سرکاری طور پر یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ہندو
انتہا پرستی کے فروغ کےلئے یہ جماعتیں ، تربیتی کیمپ بھی چلا رہی ہیں۔گو کہ
سرکاری طور یہ پہلی بار تسلیم کیا گیا لیکن پانچ سال قبل مہارشٹر صوبے کے
دو پولیس افسران ہیمنت کرکرے اور ایس ایم مشرف نے ان عناصر کی نشاندہی کردی
تھی۔انسپکٹر ہیمنت کرکرے کو ان ہی عناصر کی نشاندہی کرنے پر ہلاک کردیا تھا
کیونکہ انھوں نے مالیگیاﺅں دھماکوں کی2008میں ازسر نو تفتیش میں سنگھیوں کی
انتہا پسندی کا پردہ فاش کردیا تھا۔ایس ایم مشرف نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "کرکرے
کے قاتل کون ؟"میں ہندو دہشت گردی کے اصل چہروں سے نقاب بے نقاب کیا تھا۔یہ
کتاب اُس وقت کے وزیراطلاعات اورموجودہ مرکزی وزیر داخلہ سشتیل کمار شنڈے
اور ان کے پیش رو پی چد مبرم کو بھی دی گئی لیکن اس پر کوئی کاروائی نہیں
کی جاسکی۔اس کتاب کے گیارھویں باب "آئی بی کےخلاف چارج شیٹ"میں حساس
ایجنسیوں کے کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے بھیانک انکشافات کئے گئے
ہیں۔شنڈے کے پیش رو شیو راج پاٹل نے بھی یہ وطیرہ اختیار کر رکھا تھا جہاں
واردات ہوئی بغیر تحقیقات کئے مسلمانوں کی کسی تنظیم یا فرد کو ملوث کردیا
جاتا تھا۔2001میں" سیمی "پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد سے پولیس اور خفیہ
ایجنسیوں کو ہر وردات میں" سیمی"کاہاتھ نظر آنے لگا تھا، بلکہ بھارت میں
دہشت گردی کے واقعات میں مالیگاﺅںدہماکوں میں جب تک سادھوی پرگیا سنگھ
ٹھاکراور سنگھیوں کی گرفتاری نہیں ہوئی تھی ،اُس وقت تک ماسوائے مسلم
نوجوانون کے کسی اور کا ہاتھ نظر ہی نہیں آتاتھا۔آر ایس ایس کی جانب سے
سنگیھوں کی ممبر سازی سے زیادہ ذہن سازی پر توجہ مرکوز جاتی ہے ۔ان
نوجوانوں کے اذہان میں فسادی نظریہ کو ٹھونسا جاتا ہے ،ایک طبقہ کے خلاف
تشدد پر آمادہ کیا جاتا ہے ، انسانوں کو قتل کرنا سیکھایا جاتا ہے اور ایک
مدت تک فسادات کےلئے ماہر بنایا جاتا ہے۔سنگھیوں کے نظر میں یہ عیب نہیں ہے
بلکہ ایسے "ہندوﺅں کا پراکرم "اور راشٹر پریم کہا جاتا ہے۔سنگھ اپنے طریقہ
کار کے مطابق اپنی کاروائیوں کو قبول کرنے کے بجائے ایسے مجموعی طور پر "ہندوﺅں
کا کارنامہ "قرار دیتے ہیں۔سنگھ کے ایک مرکزی مقامی دفتر کیشو گنج ، دہلی
سے انکے نظریہ ساز اور سیاسی رہنماءتوپنت ٹھینگڈے نے اپنی ایک تقریر شائع
کی جس میں "ہندو مانسکتا"عنوان کے تحت وہ ناگپور کے 1927کے فسادات کے حوالے
سے لکھتے ہیں کہ"مسلمانوں کو اتنی ماَر دی کہ وہ سر نہ اٹھا سکے،یہ اسلئے
ممکن ہوا کہ 1925میں ڈاکترہید گوار نے سنگھ قائم کیا، یہ سب اسی گُٹ کی وجہ
سے ممکن ہوا ،مگر ڈاکٹر جی نے کہا کہ ، یہ ہندوؤں کا پراکرم ہے، اس کو سنگھ
نے قبول نہیں کیا،سنگھ کی یہی حکمت عملی ہے۔جو کچھ کرتے ہیں سنگھ کے کاریہ
کرتا کرتے ہیں،سنگھ خود کچھ نہیں کرتا" کانگریس کیجانب سے جیسے شیروزیر کہا
جا رہا تھا ۔بے جے پی کی دہمکیوں اور آر ایس ایس کے ڈر کی وجہ سے اپنے ہندو
دہشت گردی کے اعتراف کو زبان کی لغزش قرار دیکر پسپائی اختیار کرلی لیکن ان
کی اس پسپائی کو آسانی سے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔بھارت میں صرف بے جے پی ،
آر ایس ایس ہی ہندو دہشت گردی کے فروغ میں ملوث نہیں ہیں بلکہ انکے ساتھ
بجرنگ دل،رام سینا،وی ایچ پی جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھی ہیں جو بھارت کے
سیکولرازم کے پردے کو چاک کر رہی ہیں۔عید میلا د النبی ﷺ کے موقع پر ایک
بار پھر اسی ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا ، اتر پردیش کے بریلی ضلع میں واقع گاﺅں
دھولی مورو پورا مین ایک جلوس کو روک کر شرکا پر تشدد کیا گیا۔ پتھراﺅ اور
فائرنگ سے چھ افراد زخمی ہوئے،گھروں کو بھی آگ لگائی گئی اور پولیس کی
گاڑیوں میں تھوڑ پھوڑ کی گئی۔راجھستان کے بھیلواڑہ ضلع کے دوقصبوں میں تشدد
کے بڑے واقعات ہوئے اور درجن بھر سے زیادہ دکانوں اور ایک گھر کو آگ لگا دی
گئی۔عید میلاد النبی کے نکالے جانے والے جلوس کا راستہ مذہبی مقامات کے
باہر سے نہ نکالے کا مطالبہ کرنے والی ہندو انتہا پسند تنظیم ویشو ہندو
پریشد(وی ایچ پی) اور اسکی اتحادی انتہا پسند ہندو تنظیموں نے بھیلوڑاہ ضلع
میں سخت کاروائی ا ور ہڑتال کی دہمکی دی تھی۔پرتشدد کاروائیوں کی وجہ سے
ضلع میں کرفیو لگا دیا گیا۔مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے
یہ پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات
تنگ کرکے چوتھے درجے کا شہری بنا کر جینادوبھر کردیا ہے۔شاہ رخ خان ، ہندو
انتہا پرستی کے ہاتھوں بےزار ہونے والے پہلی فلمی شخصیت نہیں ہے بلکہ ،
شبانہ اعظمی ، عمران ہاشمی، جاوید اختر ، عدنان سیمع کو بھی ممبئی میں
مکانات کے حصول کےلئے ان ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جبکہ ہندو انتہا
پرستی کی وجہ سے دلیپ کمار(یوسف خان) جیسے بیشتر فنکاروں کو نام بدل کر کام
کرنا پڑا۔شاہ رخ خان،اب جو کچھ بھی ہو ، ایسا تو ہونا ہی تھا ، آخر کیا کیا
جاسکتا ہے۔ کیونکہ انھیں اور ان جیسے کروڑوں مسلمانوں کو یہ زیادتیاں اُس
وقت تک برداشت کرناہونگی جب تک امت میں یکجہتی اور اتحاد پیدا نہیں ہوجاتا۔
بصورت دیگر ناممکن ہے کہ کچھ کیا جاسکے، پوری دنیا کے مظلوم و بے آسرا
مسلمانوں کو یہ سب برداشت کرتے رہنا ہوگا۔ |