بہار مصر کی خزاں

اخوانالمسلمین سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی کی حکومت کو بمشکل سات ماہ گزرے ہیں ابھی تو اخوان اور انکے حمائتیوں نے پوری طرح خوشی بھی نہیذں منائی تھی کہ کشت وخون ، قتل و غارتگری اور مظاہروںنے مصر کی فضاء کو مکدر کردیا تین شہروں پورٹ سعید، اسماعیلیہ اور سوئز میں کرفیو لگا دیا گیا ہے 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں - کرفیواور ایمرجنسی کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور خوب توڑ پوڑ مچائی- مظاہروں میں اور فوج کی فائرنگ سے جو لوگ ہلاک ہوئے انکی لاشوں کو اٹھا کر مظاہرے ہوئے- مظاہرین مرسی کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر تے رہے - اسی طرح مرسی کے حامی اور مخالفین میں خوب جھڑپیں ہوئیں- محمد مرسی اور انکے ساتھی حسنی مبارک کی اسی ایمرجنسی کی مخالفت کرتے ہوئے اقتدار میں آئے ہیں- ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ مخالفین کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت کے لئے گرفتار کیا جا سکتا ہے - یہ وہی اقدامات ہیں جو گزشتہ حکومت نے بھی اختیار کئے - فرق محض اتنا ہے کہ ان اقدامات کو 30سال تک برداشت کیا گیا جبکہ اب جمہوریت میں چھ ماہ کی مختصر مدت میں تباہی بربادی مچ گئئ- مصری وزیردفاع جنرل سسی نے ان حالات کے پیش نظر مارشل لاء لگانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے یہ شہر چونکہ بندرگاہ اور سوئز نہر کے کنارے پر ہیں اسلئے حفاظت کے پیش نظر کافی فوج لگائی گئی ہے-یہ ہنگامے اسوقت شروع ہوئےجب ایک مقامی عدالت نے 21 افراد کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا یہ لوگ ایک سال پہلے ایک فٹبال میچ کے دوران 74 لوگوں کے مارے جانے کے ذمہ دار ٹہرائے گئے- انکے حامی اس الزام کو غلط قرار دیتے ہیں اور میچ کے دونوں کلبوں کو اسکا ذمہدار مانتے ہیں- مصری انقلاب کو بمشکل دوسال ہونے والے ہیں قاہرہ میں بھی مظاہرین پر آنسو گیس پھینکی گیئ--اسطرح مظاہرین میں ایک ایسا گروپ بن گیا ہےجو اپنے آپکو سیاہ پوش کہتے ہیں یہ گروہ مرسی اور اخوان کا مخالف ہے-- ہمارے ممالک کی بدقسمتی کہ انہٰیں جمہوریت راس ہی نہیں آتی- یون لگتا ہے مصر کے عوام کے منہ کو بھی خون لگ گیاہے وہ ملک جسکو حسنی مبارک کے آہنی ہاتھ نے سالہا سال تک سنبھال رکھا تھا اب انتشار و افراتفری کی آماجگاہ بن چکا ہے - اخوان المسلمین کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی اقتدار میں آسکینکے وہ جو ہمیشہ ایک ظلم و استبداد ، پھانسیوں اور گرفتاریوں کی زد میں تھے کتنی مرتبہ تو انکی پارٹی پر پابندی لگ چکی تھی - مغربی طاقتیں انکی بنیاد پرستی سے خوفزدہ ، اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو انکا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا لیکن عوام کی طاقت اور پھر امریکہ ہی کی حمایت سے وہ بر سر اقتدار آئے ایک نئا باب رقم ہوا لیکن شائد مصر کے عوام کی قسمت میں ابھی مذید تباہی و بربادی لکھی ہوئی ہےمخالفین کہتے ہیں کہ مرسی بھی اسی طرح کا آمر ہے جیسے کہ اسکا پیش رو تھا- اسی کے نتیجے میں مرسی نے اپنا یوروپ کا دورہ مختصر کر دیا وہ جرمنی میں محض چند گھنٹے گزاریں گے جبکہ فرانس کا دورہ منسوخ کردیا-

کئی سال پہلے جب میں مصر کی سیاحت کرنے گئی تھی اس زمانے میں کچھ عرصہ پہلے ہی لکژور کے مقام پر تقریا 90 امریکی سیاح مارے گئے تھے جابجا پولیس اور حفاطتی دستے نظر آیے لیکن بیحد امن و امان ، پر خلوص اور دوست مزاج لوگ کہیں پر غیریت کا احساس نہ ہوا بس ایر پورٹ پر ایمیگریشن میں انہوں نے خوب تنگ کیا اور یہ تک کہا کہ ہمارے ہاں سارے آنے والے دہشت گرد پاکستان سے تربیت یافتہ ہوتے ہین اب یقینا وہ اس صنعت میں خود کفیل ہوگئے - مصر جسکی آمدنی کا دارو مدار سیاحت پر ہے سیاحوں کی دلچسپی اور دل لگی میں کشاں کشاں رہتا ہے -ایک بجرے میں دریاۓ نیل کے دھیمے دھیمے پانی میں سیر کا کیا لطف تھا ساری داستانیں نظروں سے گزر گئیں کہ اسی میں ہی تو سرکنڈوں کی ٹوکری میں موسی علیہ السلام کو انکی ماں نے اللہ کے حکم سے ڈالدیا تھا اور ٹوکری بہتے بہتے فرعون کے محل میں جا پہنچی فراعنہ مصر کی یہ سرزمین اب بھی انکی جاہ و وجاہت کی کہانیاں رقم کرتی ہے اور مصر انکےاثار کی کمائی اب بھی دل کھول کر کھا رہا ہے-اسکندیہ میں قلوپطرہ سلطنت روم اور جولئس سیزر کی داستانیں ہیں -اسلامی تہزیب اور اثرات سے یہ ملک بھرا پڑا ہے - قلعہ صلاح الدین فاطمی حکمران ، مملوک حکمران ہزاروں سالوں کی تاریخ اور اسکے اثرات ہیں کہ پھٹے پڑ رہے ہیں - اسکندریہ میں ایک گائیڈ نے بتایا کہ کسی تعمیر کے لئے کھدائی ہوتی ہے تو اندر سے آثار نکل آتے ہیں یہ وہ وقت تھا کہ تمام اخوان زیر زمین چلے گئے تھے کوئی ڈر کے مارے زبان نہیں کھولتا تھا کہ اسکا اخوان سے کوئی تعلق ہے اور پھر حالات نے پلٹا کھایا کہ آخوان ہی مصر کے اقتدار پر عوام کی طاقت سے جیت کر آئے - لیکن یہ کیا کہ ایک سال میں ہی وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں کہیں یہ بہار مصر کی خزان تو نہیں-
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235821 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More