تیرہ جنوری بروز اتوار بمطابق
انتظاماتِ منہاج القرآن ‘ صبح نو بجے ماڈل ٹاون میں واقعہ منہاج القرآن کے
مرکزی سیکریٹریٹ کے عین سامنے گراونڈ میں پہنچا ‘ تو مجھے ہمیشہ وقت کی
پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی اپنی” بری“ عادت پر شدید غصہ آیا‘ کیونکہ
جس لانگ مارچ کو صبح نو بجے روانہ ہونا تھا وہ بعد از نمازِ ظہر روانہ ہوا۔
صبح نو بجے گراونڈ میں بمشکل چارسو شرکا موجود تھے‘ جن کا لہو گرمانے کیلئے
فقط ”ترانوں “پر ہی اکتفا کیا گیا تھا‘لانگ مارچ کے آغاز سے عین قبل علامہ
طاہر القادری نے اپنی رہائش گاہ پر جو کہ منہاج القرآن سیکریٹر یٹ کی بغل
والی گلی میں واقع ہے ، ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی ‘ماڈل ٹاون سے دو
بجے شروع ہونے والا یہ مارچ، فیصل ٹاون، گارڈن ٹاون، لاہور نہر ، گڑھی شاہو
روڈاور مینارِ پاکستان سے گزرتا ہوا تقریبا پانچ گھنٹے بعد شاہدرہ کی حدود
میں داخل ہوا‘ ماڈل ٹاون سے نکلتے وقت شرکا کی تعداد تقریبا آٹھ ہزار تھی
لیکن جی ٹی روڈ پر آنے کے بعد اچانک زمین نے کاروں ، بسوں ، ٹرکوں اور
انسانوں کو اگلنا شروع کر دیا‘مرید کے تک تعداد بڑھ کربیس ہزار تک پہنچ گئی
‘ میڈیا کی تین درجن سے زائد گاڑیاں ، صحافی، رپورٹرز اور اینکرز اس تاریخی
لانگ مارچ کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال کو بغور دیکھنے کیلئے ہمسفر تھے۔ لانگ
مارچ نے براستہ جی ٹی روڈ لاہور سے اسلام آباد پہنچنا تھا۔جی ٹی روڈ کو
پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ ہی بہت اہمیت حاصل رہی ہے‘ اس سڑک نے سینکڑوں
جلسے، دھرنے، لانگ مارچ، شارٹ مارچ، سیاسی جوڑ توڑ اور نظاموں کی تبدیلی
دیکھی ہے‘ جی ٹی روڈ پر واقعہ گوجرانوالہ شہر کو اس ساری صورتحال میں مذید
نمایاں مقام حاصل ہے‘ گوجرانوالہ میں داخل ہونے سے پہلے کارواں چند لمحوں
کیلئے پر اسرار طور پر رک گیا‘ میں علامہ صاحب کی بلٹ اور بم پروف گاڑی سے
چند قدم کے فاصلے پر تھا‘ منہاج القرآن کی سیکیورٹی کے جوانوں نے آنا فا نا
اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں ‘ گوجرانوالہ ہی وہ مقام ہے جہاں نواز شرف صاحب
کو دورانِ مارچ کال موصول ہوئی کہ جس کام کے لئے آپ نے رختِ سرف باندھا تھا
وہ مکمل ہو گیا ہے لہذا مذید زحمت کی ضرورت نہیں ‘ اس پر اسرارٹھہراو کو
دیکھ کر میرے ذہن میں فورا یہ خیال گردش کرنے لگا کہ کہیں اسی کال نے علامہ
کے لانگ مارچ میں بھی تو اپنا کام نہیں دکھا دیا‘ معاملہ کی پر اسراریت
بڑھنے لگی‘ افواہوں اور چہ مگوئیوں میں اضافہ ہونے لگا ‘شرکا ایک دوسرے سے
سوال کرنے لگے‘ وہ تو بھلا ہو موبائل فون سروس کی بندش کا جس کا سامنا ہم
نے شاہدرہ سے ہی شروع کر دیا تھا ‘ ورنہ پورے ملک میں طوفانی ایس ایم ایس
کے ذریعے یہ خبر پھیل جاتی کہ علامہ نے گوجرانوالہ سے ہی مطالبات پورے ہونے
پر اپنا لانگ مارچ واپس موڑ لیا ہے‘ لیکن جب میں علامہ کو بمعہ ضروری
استعمال کی اشیا کے اپنی سیاہ رنگ کی لینڈ کروزر ایل ای ایف 92 سے بلٹ پروف
ٹرک اے ای 0304میں پانچ فٹ کے فاصلے سے سوار ہوتا دیکھ رہا تھا تو مجھے
یقین ہو گیا کہ اب علامہ نے اسلام آباد پہنچنے کی ٹھان لی ہے اور اب واپسی
مذاکرات سے تو ہو سکتی ہے ‘ کسی کال یا دھمکی سے نہیں۔
لاہور ماڈل ٹاون سے اسلام آباد تک کا سفر تقریبا بتیس گھنٹوں میں طے ہوا‘
لاہور کے علاقے شاہدرہ سے لے کر اسلام آباد کے فیض آباد پل تک علامہ کے
لانگ مارچ کے استقبال کیلئے مجموعی طور پر سڑک کے دونوں اطراف لاکھوں لوگ
گھنٹوں انتظار کرتے رہے‘ لوگ فرظِ جذبات سے وکٹری کا نشان، نعرے اور علامہ
سے انقلاب لانے کی استدعا کرتے رہے‘گوجرانوالہ عبور کرنے کے بعد لالہ موسی،
کھاریاں ،سرائے عالمگیر ،جہلم اور دینہ سمیت کوئی ایسا شہر نہیں تھا جہاں
سے لانگ مارچ کا گذرنا صرف اس وجہ سے محال بن گیا کہ لاکھوں لوگ جی ٹی روڈ
پر امڈ آئے‘ لالہ موسی میں آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا‘ ہر شہر میں
پھولوں کی پتیاں اٹھائے لوگ پہلے سے ہی موجود ہوتے۔
جی ٹی رود کے دونوں اطراف علامہ صاحب کے قد آور بینرزاور بل بورڈز
آویزاںتھے ‘ شرکا کے نظم و ضبط ، جوش و ولولہ اور علامہ صاحب سے عقیدت کی
پیمائش کا کوئی پیمانہ نہیں تھا‘ بتیس گھنٹوں کے سفر کے دوران کوئی ایسا
لمحہ نہیں تھا جب شرکا اپنے قائد کے فلک شگاف نعرے نہ لگا رہے ہوں ‘ میں نے
اتنی متحرک اور تازہ دم خواتین اس لانگ مارچ کے علاوہ صرف عمران خان صاحب
کے جلسوں میں دیکھی ہیں ۔
لاہور سے روانہ ہوتے وقت میرے ذہن میں لانگ مارچ اور دھرے میں شریک خواتین
کے بارے میں ایک مخصوص مذہبی نظریہ تھا جیسا کہ عموما مذہبی جماعتوں کی
خواتین کے بارے میں پایا جاتا ہے ‘ لیکن یہ خواتین بجا طور پر اس لانگ مارچ
کا ہراول دستہ بن چکی تھیں۔عوام کا لہو گرمانے کیلئے مخصوص جوشیلے انقلابی
ترانوں کا آغاز لاہور سے شروع ہوا اور دھرنے کے اختتام تک جاری رہا، ”جرات
و بہادری طاہر القادری، جیوے جیوے طاہر جیوے، کربلا سجائیں گے انقلاب لائیں
گے ، اے انقلابی ساتھیو بڑھتے چلو بڑھتے چلو اور میری جند میری جان طاہر
القادری“ جیسے نعروں نے مسلسل پانچ دن فضا کا ذائقہ یکسر انقلابی بنا دیا
اور کئی غیر انقلابی لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
دیگر لوگوں کی طرح میں بھی یہی گمان کر رہا تھا کہ اس لانگ مارچ میں صر ف
منہاج القرآن ، پاکستان عوامی تحریک سے وابستہ لوگ اور علامہ طاہرالقادری
کے عقیدت مند ہی موجود ہوں گے‘ جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی، یقینا اِن
لوگوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن عام لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔آج
تجزیہ نگار، کالم نویس، رپورٹرز اور اینکرز چاہے کچھ بھی تبصرہ کریں لیکن
حقیقت یہ ہے کہ اس لانگ مارچ میں شامل ہر شخص ملک کے مسائل سے عاجز، اپنے
گھریلو حالات سے تنگ، بیروزگاری، غربت، مہنگا علاج اور بد امنی کے خلاف
آواز اٹھا رہا تھا‘ مجھے پانچ دنوں میں شرکا کی زبان سے ایک لفظ بھی ایسا
سنائی نہیں دیا جس سے علامہ یا انکی سیاسی و مذہبی تحریک سے جانبداری کی بو
آتی ہو‘ لوگ بس تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے رہے اور اس پاکستان کو یکسر
بدلنے نکلے تھے۔
چودہ جنوری کی صبح چار بجے دیونہ مندی پہنچے ‘ ہوٹل نما کسی کی رہائش گاہ
میں پڑاو ڈالا‘ علامہ صاحب نے استراحت فرمایا‘ ناشتے کا مناسب سا انتظام
بھی کیا گیا تھا‘علامہ نے صبح 8:15منٹ پر پریس کانفرنس کر کے اپنے انقلابی
منشور اور عزم کو ایک بار پھر دہرایا ‘ پریس کانفرنس یقینا انتہائی جوشیلی
تھی لیکن اس پریس کانفرنس کے بعد میرے دل میں ایک ہول اٹھا کہ یہ لانگ مارچ
نیم کامیاب تو ہو سکتا ہے مکمل طور پر نہیں جسے سترہ جنوری کو حکومت اور
طاہرالقادری کے معاہدے نے ثابت بھی کر دیا۔ چودہ جنوری رات گیارہ بجے کے
قریب مارچ اسلام آباد میں داخل ہو گیا‘ اسلام آباد کے شہری بڑی تعداد میں
سڑک کے دونوں اطراف اور پلوں پر کھڑے ہو کر ان تاریخی مناظر کو دیکھ رہے
تھے‘ بلیو ایریا سے پہلے کنٹینرز کی صف تھی تا کہ مظاہرین اس سے آگے نہ بڑھ
سکیں‘ لیکن انتہائی ترتیب سے کچھ لوگ آگے بڑھے ‘ انہوں نے کنٹینرز کو اپنی
جگہ سے دھکیل دیا اور راستہ صاف ہو گیا‘ شرکا آگے بڑھتے رہے ‘ ان کے جذبات
دیدنی تھے‘ منزل قریب تھی‘ لیکن علامہ نے ڈی چوک سے قبل جناح ایونیو پر ہی
دھرنا دینے کا اعلا ن کر دیا۔
علامہ سے اختلاف رکھنے والے تئیس دسمبر دو ہزار بارہ سے اب تک جو لکھ اور
فرما رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے لیکن لانگ مارچ کے ساتھ چار دن گذارنے کے
بعد میری نظر میں یہ مارچ ، اس کے تمام عوامل،مطالبات، عوامی جذبات اور
اختتام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاکستان کی سیاسی اور عوامی بیداری کی تاریخ کا
حصہ بن چکا ہے۔ اس لانگ مارچ نے اگرچہ ٹھوس حالت میں فورا تو بہت کچھ حاصل
نہیں کیا لیکن عوامی بیداری میں اپنا بہتیرا حصہ ڈال دیا ہے ‘ اور جب بھی
پاکستان میں سیاسی ارتقا، عوامی انقلابات اور عوامی بیداری کی تاریخ لکھی
جا ئے گی تو وقت کا مورخ اگر لاکھ کوشش کر لے ، جانبداری کا مظاہرہ کر لے
اور سونے کی اشرفیوں سے اپنے خزانے ہی کیوں نہ بھر لے پھر بھی تئیس دسمبر
دو ہزار بارہ سے سترہ جنوری دو ہزار تیرہ تک کے ان چھبیس دنوں کو تاریخ کا
حصہ بننے سے روک نہیں سکتا کیونکہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اور ڈاکٹر
طاہرالقادری کا یہ سفر ان کے لئے کافی حد تک وسیلہ ظفر ثابت ہوا۔ |