دعوی کیا گیا کہ 30لاکھ دوہرے
ووٹ ، ووٹر لسٹ میں شامل ہیں ، لیکن جب الیکشن کمیشن کیجانب سے وضاحت کی
گئی کہ تیس لاکھ ووٹوں کا جعلی اندارج نہیں ہے بلکہ چھ لاکھ ووٹ کا اندراج
ہے تو صرف کراچی کے حوالے سے ایک منظم پر وپیگنڈا کیا گیا کہ لاکھوں جعلی
ووٹ ہیں یا لاکھوں ووٹوں کا اندراج نہیں کیا گیا تو پھر الیکشن کمیشن نے
ایک بار پھر وضاحت کی کراچی میں صرف بتیس ہزار ووٹوں کا مسئلہ ہے ۔جس میں
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انکے مستقل ایڈریس کے آبائی علاقوں میںاندرج کئے گئے
ہیں، تو اس پر بھی احتجاج کیا گیا، لہذا ووٹ لسٹ پر سپریم کورٹ کی جانب سے
پورے پاکستان کے حوالے سے جعلی ووٹ اندراج کو نکالنے کے احکامات دئےے گئے
لیکن جب بات عمل پر لائی گئی تو صرف کراچی کا واویلا کیا گیا ۔ چھ لاکھ
اڑسٹھ ہزار جعلی ووٹوں کا کیا ہوا ، اس پر کسی نے تحقیق نہیں کی ، تان
آکرٹوٹی تو پھر کراچی پر۔۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف کراچی ہی کیوں ہر سیاسی جماعت کا تختہ مشق بنتا
ہے ۔ ملک بھر کے چھ لاکھ اڑتیس ہزار جعلی ووٹوں پر واویلا کرنے کے بجائے
کراچی کے بتیس ہزار ایسے ووٹوں پر شور کیوں مچایا جا رہا ہے جن کے اندراج
اُن کے اپنے آبائی علاقے میں کئے گئے تھے جنھیں دور بھی کردیا گیا۔ اہم
حیرت ناک بات ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے نادرا سے ووٹ لسٹ
کی تیاری کےلئے معاونت حاصل کی ہے اورجدید ترین بائیو میٹرک سسٹم سے آراستہ
نادرا نے ووٹر لسٹوں کی تیاری کا کام شروع کیا تو نادرا سسٹم سے واقف لوگ
جانتے ہیں کہ جدید نظام کے تحت دوہرا اندارج کرنا ناممکن ہوگیاہے جیسے
نادرا کے بائیو میڑک وئری فیکشن سسٹم کی وجہ سے کوئی شخص ڈبل شناختی کارڈ
یا پاسپورٹ نہیں بنا سکتا ، اگر اس کی کوشش بھی کرتا ہے تو فوری طور پر
سسٹم پر آجاتا ہے اور درخواست کنندہ کو ایسے درست کرنے کےلئے ایک ہزار سے
دس ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کیجانب سے گذشتہ دنوں اعلان میں یہ رعایت دی گئی تھی کہ
اگر کسی شخص نے جعلسازی یا ناداستگی سے جعلی کارڈ یا پاسپورٹ حاصل کرلئے
ہیں تو وہ معافی نامہ جمع کراکر ، جرمانے سے بچ سکتے ہیں ، اگر مقررہ معیاد
کے بعد کسی کا کارڈ پکڑا گیا تو نہ صرف ایسے جرمانہ ہوگا بلکہ سزا بھی
بھگتنی پڑے گی ،لہذا اس اعلان کے بعد لاتعداد افراد نے اپنے کارڈ نادرا آفس
میں جمع کرائے ،جہاں نادرا کا ویریفائی سسٹم ایک لنک پر ان کارڈز کو اپ ڈیٹ
کر رہا ہے ، تاہم ابھی نادرا کیجانب سے دوہرے کارڈز کو جمع کرنے کا سلسلہ
شروع نہیں ہوا لیکن وفاقی وزرات داخلہ کے اعلان کے بعد بڑی تعداد نے اپنے
دوہرے کارڈز کے حلف نامے نادرا کے مرکزی دفاتر میں جمع کرادئے ہیں ۔اس امور
کیجانب ذکر کا مقصد یہی ہے کہ جب سے نادرا نے ووٹر لسٹ کی تیاری کا ذمہ
اٹھایا ہے تو اس بات کا امکان زیرو فیصد رہ گیا ہے کہ اب دوہرے ووٹ یا جعلی
ووٹ کا ندراج نہیں ہوسکتا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں جس طرح دوہرے
ووٹ اندراج کرالئے جاتے تھے اب اُس کا امکان بھی ختم ہوگیا ہے اور جسے جس
علاقے میں اندراج کرنا ہے وہ اپنی مرضی سے اُس علاقے میں اندراج کراسکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن اور نادرا کیجانب سے ایس ایم
ایس کے ذریعے اپنے ووٹ تصدیق کی آسان ترین سہولت دی گئی جس سے کسی بھی ووٹر
کےلئے اپنے ووٹ کے بلاک ، چارج کا معلوم کرنا آسان ہوگیا اور اب الیکشن
کمیشن کیجانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ انتخابات سے ایک ہفتہ قبل پولنگ
اسٹیشن کے بارے میں بھی ایس ایم ایس کی فری سروس سے ووٹر کو آگاہ کردیا
جائے ، جس سے کسی ووٹر کےلئے اپنے ووٹ کے ساتھ پولنگ اسٹیشن کی تلاش کےلئے
بھٹکنا ، تقریبا ختم ہوجائے گا۔سوچنے کی یہی بات ہے کہ الیکشن کمیشن اور
نادرا کے اس قدر جدید سسٹم کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر صرف کراچی میں ہی
کیوں اعتراض کیا جارہا ہے۔ تو اس کا واضح مقصد یہی ہے کہ کراچی کے شہریوں
کو ایک بار پھر کسی نئی سازش کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی
ہے۔اگر سیاسی جماعتوں کیجانب سے مکمل الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اعتراض
ہوتا تو بات سمجھ میں ٓاتی تھی لیکن پاکستان چھوڑ کر صرف کراچی میں الیکشن
کمیشن آفس کے سامنے دھرنے نے کراچی کی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے
کہ قوم پرست جماعتوں، اور دیگر سیاسی جماعتوںکی مختصر تعداد کے اس دھرنے کے
مقاصدکیا ہیں۔؟اگر سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو
درخواست کنندہ ، چیف جسٹس کے پاس توہین عدالت کےلئے اپیل کرسکتا ہے ۔یا پھر
سپریم کورٹ از خود نوٹس لے سکتا ہے کہ اس کے احکامات کی تعمیل کیوں نہیںکی
جا رہی ؟۔ سپریم کورٹ جب توہین عدالت پر منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتی
ہے تو اس کے لئے الیکشن کمیشن سے باز پُرس معمولی سی بات ہے ۔ لیکن غیر
معمولی بات یہ ہے کہ جو سیاسی یا قوم پرست جماعتیں ووٹر لسٹ پر اپنے تحفظات
کا اظہار کر رہی ہیں یا دنیا کو یہ بتانا چاہ رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن
سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدر آمد نہیں کر رہا تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ
قوتیں سپریم کورٹ جانے کے بجائے ،کراچی میں دھرنا دے کر کیا ثابت کرنا
چاہتی ہیں کہ سپریم کورٹ میں استعداد کار نہیں یا نادرا اور الیکشن کمیشن
قابل بھروسہ نہیں ہیں۔کل تک جو الیکشن کمیشن شفاف اور متفقہ تھا ، طاہری
القادری کے احتجاج کے بعد یکایک متنازعہ کیوں ہوگیا کہ تحریک انصاف کوبھی
اس خامیاں نظر آنے لگیں تو مسلم لیگ (ن) جس کا کراچی میں کوئی کردار نہیں
وہ بھی چند لوگوں کو لیکر دھرنے میں بیٹھ گئی۔جماعت اسلامی تو کراچی میں
اپنی اجارہ داری ختم ہونے کی بنا ءپر ایم کیو ایم کی مخالف ہے اور سندھی
قوم پرست تو اندروں سندھ سے کراچی میں قبضے کےلئے تگد ودو میں مشغول ہیں کہ
کسی طرح ان اردو بولنے والوں کوواپس بھارت بھیج دیا جائے ،جس طرح بھارت میں
ہندو انتہا پسند مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کرکے پاکستان بھیجنے کےلئے دن
رات سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ پختون اور بلوچ کیوں کسی سازش کا حصہ بن
رہے ہیں کہ دھرنا کسی بھی جماعت کا ہو ، یہ آگے آگے نظر آتے ہیں ۔کیا یہ
نہیں سوچتے کہ پختون اور بلوچوں کوکس طرح مفادات کی بھینٹ چڑھا کر تباہی کی
حد تک پہنچا دیا گیا ہے کہ روزگار کےلئے آنے والے اپنے وطن میں ہی غیر بن
گئے اور اپنے رزق حلال سے محروم ہوکر در بدر کی خاک چھاننے لگے۔ان دھرنوں
میں ان کے علاوہ کوئی دوسری قومیت کیوں نہیں ہے ؟۔صرف پختون اور بلوچ ہی کی
زیادہ تعداد کیوں ہوتی ہے؟۔یہ بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے کہ کراچی میں ہر
سازش میں صرف پختون اور بلوچ ہی نشانہ بنتا ہے تو پھر ہم ہر بار ان سازشوں
کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟۔ کراچی میں پھر ایک نئی سازش تیار ہے کہ انتخابات
میں واویلا کرکے پختون اور بلوچوں کی لاشوں پر سیاست کی جائے ۔لیکن اس بار
پختونوں اور بلوچوں کو عقل و فہم سے کام لیکر سازشی ٹولوں کو ناکام بنانا
ہوگا کیونکہ اس میں ان کی بقا اور سلامتی کا راز پنہاں ہے۔اعتراض اس بات پر
نہیں ہے کہ پختونوں اور بلوچوں کی بات کیوں کی جا رہی ہے ؟۔ اعتراض اس بات
پر ہے کہ کراچی میں جب بھی کوئی سازش مخصوص مفادات کے تحت رچی جاتی ہے تو
پختون ، بلوچ اور مہاجر ہی تختہ مشق بنتے ہیں ۔پختونوں کی لاکھوں کی بڑی
تعداد خاموش رہ کر جانتی ہے کہ انھیں استعمال کیا جارہا ہے لیکن چھوٹے
اجتماع میں شرکت کرکے پوری قوم کےلئے مسائل اس طرح پیدا کردئےے جاتے ہیں کہ
جیسے پورے سندھ کا ٹھیکہ دار صرف پختون اور بلوچ ہیں۔پختونوں کوجب
افغانستان میں اسلام کے نام پر استعمال کرکے لاکھوں پختونوں کو شہید کرایا
گیا تو اس کے نتائج آج تک تمام پختونوں کو بھگتنا پڑ رہے ہیں کہ ساری دنیا
میں انھیںدہشت گرد سمجھ کر دوسری مخلوق بنا دیا گیا۔کراچی میں کسی نئی سازش
کا ایندھن بننے کے بجائے پختونوں اور بلوچوں کو اپنا ماضی دیکھنا ہوگا جہاں
مفاد پرستوں کی وجہ سے ان کی نسل کا مستقبل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے
کراچی میںایک پھر رچی نئی سازش کو سنجیدگی سے پختونوں ، بلوچوں ،مہاجروں
اور دیگر قومتیوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ |