معروف صحافی کلدیپ نیر نے اپنے
ایک مضمون میں لکھا کہ "ہندوستان کی موجودہ نسل تقسیم ہند کی صلیب اپنے
کاندھوں پر اٹھائے جی رہی ہے۔"تلخ حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں
کو" بھارت ماتا" کا مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور مسلمان نام کی پاداش
میں ظلم و ستم اور جبر کو روا رکھنا "دیش بھگتی"کا تقاضا قرار پایا جاتا ہے۔
گیوار ، گولوالکر اور ساورکر کے نظریات کے مطالعہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے
کہ دیش بھگتی کے نام پر بھارت میں اقلتیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کےخلاف
جارحانہ روش اپنائی گئی ہے۔بھارت میں رہنے والے مسلمان سمجھتے ہیں کہ
باساٹھ سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود مسلم امت اور اس کی قیادت لاکھ
کوششوں کے باوجود غیر مسلم ذہنوں کو خاطر خواہ انداز میں مسلمانوں کے حق
میں بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ہندودہشت گردی کے پرچارک اپنی
مخالفتوں اور مخاصمت کے میدان میں روز بروز اضافہ کرنے کےساتھ ساتھ بھارتی
مسلمانوں کی حب الوطنی کو علی اعلان اپنی جوتی کی نوک پررکھنے اور ہرسطح پر
مسلمانوں کے معاشی اورسماجی حقوق کا گلہ گھونٹنے میں مصروف ہیں۔کرناٹک میں
مسلم نوجوانوں اور انسانی حقوق کےلئے لڑنے والا پرعزم اور حوصلہ مند جواں
سال وکیل نوشاد قاسمجی کے قتل میں ریاست کے ملوث کے شواہد پائے گئے اور پھر
اسی سلسلے کی دوسری کڑی ممبئی کے جواں سال شاہد اعظمی کو بھی نوشاد قاسمجی
کیطرح اُس کے گھر کے احاطے میں مسلمانوںکے حقوق کےلئے آواز اٹھانے پر قتل
کردیا گیا۔پولیس نے حسب رواےت اس قتل کو بھی ڈان روی پجاری کے کھاتے میں
ڈال دیا۔ان کا قصور یہی تھا کہ انھوں نے قانونی محاذ میں سینکڑوں بے گناہ
افراد کی وکالت کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔
مسلمانوں نے آزادی کی جنگ میں انگریزوں کےخلاف ایک طویل جدوجہد رقم کی ہے
جبکہ پاکستان کی مخالفت کرنے میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسی ہستیوں نے بھی
بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور تقسیم ہند کے سلسلے میں مسلمانوں کی ہجرت روکنے کی
جان توڑ مشقت کی تھیں۔ لیکن سنگھ پریوار والوں نے جہاں گاندھی جیسے لیڈر کو
قتل کرڈالا تو ان کی یہ عصبیت بھارتی مسلم رہنماﺅں کےلئے بھی رہی اور انھیں
ہمیشہ شک کے دائرے میں کھڑا کیا۔ڈاکٹر حنیف شہاب کہتے ہیں کہ بھٹکل فسادات
کی تحقیقات کرنے والے جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں سنگھ پریوار کے وکلا ءمجھ پر
جرح کرتے ہوئے یکدم مجھ سے تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے تعلق پر سوال
کربیٹھے تو میں نے کہا کہ "وہ لوگ بےوقوف تھے جو یہاں سے نکل گئے ، یہاں
ہمیں اس کا عذاب بھگتنا پڑ رہا ہے" تو اس نے دوسرا سوال کیا کہ "تو تم
ہندوستان مین ہی رہ کر ہندوستان کا اسلامائز یشن کرنا چاہتے ہو ، جیسے کہ
مولانا آزادکا منصوبہ تھا"۔
بھارت میں ہندو دہشت گردی کے کرتا دھرتاﺅں کا مشن یہی ہے کہ بھارت کے کونے
کونے میں یہ تاثر پیدا کردیا جائے کہ مسلمان اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں
اور روئے زمین پر ان سے بڑا خطرہ کوئی نہیں ہوسکتا ، لہذا انھیں نیست و
نابود کرنا ہی "دیش بھگت"کا اصل مشن ہونا چاہیے۔بھارت میں ان ہی فسطائیت
نظریات کے تحت روزانہ مسلمانوں کو "پاکستان"یا 'قبرستان"بھیجنے کےلئے غیر
مسلموں کو اکسایا جاتا ہے۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے امرتسر پنجاب میں "پروین
توگاڑیا"کے حوالے سے آیا تھا کہ "مسلمانوں کو ہرسطح پر نوکریوں سے محروم
رکھا جائے اور انھیں اس حد تک فاقہ کشی پر مجبور کیا جائے کہ ان کےلئے "پاکستان"چلے
جانے کے سوا کوئی چارہ نہ بچے۔"
"گو رکھشا " کے نام پر مسلمانوں کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس
کی مثال بھی نہیں ملتی ، سنگھ پریوار کے مسلح افراد کاگائے کی رکھوالی کے
نام ، پولیس کی طرح ناکہ بندی کرنا یا چیک پوسٹ قائم کرکے تاجروں کو زدو
کوب کرناایک معمول کی بات بن گئی ہے اور بے حال مسلمان تاجروں کو پولیس کے
حوالے کرکے مقدمات قائم کرنا بھی ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ شرمناک بات یہ
ہے کہ پولیس اس پورے عمل میں برابر کی شریک ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے مسلمان
مالی اور جسمانی نقصان کے باوجود بھی سارا خسارا برداشت کرکے یا تو خاموش
رہ جاتا ہے یا پھر قانونی چارہ جوئی کے صبر آزما دور سے گذرتے ہوئے نفسیاتی
طور پر بھی تباہ ہوجاتا ہے۔آر یس ایس اور کانگریس کے کردار پرجب بھی تقسیم
ہند کے حوالے سے مباحث سامنے آتے ہیں تو ان کے پاس اس بات کا جواب نہیں
ہوتا کہ 1925ءسے 1947ءتک بھارت کی آزادی کے حوالے سے برٹش راج کے ساتھ
قربتیں اکھنڈ بھارت کے کس تصور کے تحت تھی؟۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی بڑی
سیاسی جماعتیں ، جب متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے بات کرتی ہیں تو
اس تقسیم کی تمام ذمے داری محمد علی جناح اور مسلم لیگ پرڈال دیتی ہیں۔محمد
علی جناح یقینی طور پر ہندو ذہنیت کو پڑھ چکے تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ
ہندو ، اپنی سینکڑوں برس کی غلامی اور مسلم حکمرانوں کا دہلی تخت پر بیٹھنے
کا بدلہ جمہورےت کے نام پر موجودہ مسلمانوں سے لیں گے اس لئے ان کی تمام تر
توجہ اس بات پر تھی کہ پاکستان ایسی مسلم مملکت معرض الوجود میں آجائے جو
مسلمانوں کے حقوق کےلئے عالمی برادری میں موثرآواز اٹھا سکے۔پاکستان ،
محمدعلی جناح کے خوابوں کی تعبیر تو نہیں بن سکا اور اکھنڈ بھارت کا خواب
دیکھنے والوں نے پاکستان میں تفرقے ،صوبائیت ، فرقہ وارےت وارےت اور نسل
پرستی کو اتنا فروغ دیا کہ پاکستان کے مسلمانوں کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے
بجائے اپنے شہریوں کی بقا اور سلامتی کے مصائب لاحق ہوچکے ہیں۔بھارتی
مسلمانوں کو پاکستان بننے کے بعد سے مسائل کا سامنا ہے اور ان کی حب الوطنی
پر شک کی بنیادی وجہ بھارتیوں کا اندرونی ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ماضی
کی روایتوں کی طرح پھر مسلمان ان پر حکمرانی کرنے کے قابل ہوسکیں اس لئے
مسلمانوں کی ذہنی و جسمانی حالت اتنی پسماندہ کردی جائے کہ قوم موسی کی طرح
ان میں خوئے مردانگی ہی ختم ہوجائے۔پاکستان میں امن کی آشا کے نام پر مقتدر
حلقے کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی تمام تر کوششیں لائن آف کنٹرول پر ایک
گولی چلنے سے ہی رائیگاں چلی جاتی ہے۔
ویزا پالیسی اور تجارتی معائدوں کو ختم کرنے ،ہاکی کھلاڑیوں کو واپس کرنے ،
ادب سے وابستہ اور فنکاروں کو طے شدہ پروگراموں میں شرکت سے روکنا ،سمیت
چھوٹے چھوٹے واقعات اس کے علاوہ ہیں لیکن سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ بھارتی
حکومت ،صرف اپنے حب الوطن مسلم شہریوں یا پاکستان سے ہی خوفزدہ نہیں ہے
بلکہ وہ معصوم خواتین کرکٹرز سے بھی اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھیں اپنی سرزمیں
پر برداشت نہیں کر پارہے اور ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستانی خواتین
کرکٹرز کے خلاف ملک کے کونے کونے سے مظاہرین کو اکھٹا کیا جارہا ہے۔ بھارت
اتنا خوف زدہ ہوچکا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز کو ہوٹل میں سہولےات اور قیام
دینے کے بجائے اسٹیدیم میں رہائش کے لئے مجبور کردیا ہے۔ ان پاکستانی
شیرنیوں پر آفرین ہے کہ تمام تر دباﺅ کے باوجود ، دہمکیوں کو نظر انداز
کرتے ہوئے اسٹیڈیم میں طعام و قیام پر راضی مند ہوکر بھارت سرکار کی جانب
سے سیکورٹی مہیانہ کرنے پر کمزور حکومت کا چہرہ پوری دنیا میں بے نقاب
کردیا ۔ ارب آبادی والا ملک ، ایٹمی طاقت کا غرور ، دنیا کی بڑی عسکری قوت
کا دعویدار ، محض چند بے ضرر لڑکیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا ۔ نام نہاد
ہندو قوم پرست اپنی مردانگی دکھانے کے لئے خواتین کو اپنی قوت سے خوفزدہ
کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں جیسے یوں کہا جائے کہ سورمابھارت جو لڑکیوں سے
بھی ڈر گیا۔ |