آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے آئینی وسیاسی زیادتی

اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ” آزاد جموں و کشمیر کونسل کی جانب سے کشمیر کونسل کے تحت چلنے والے محکموں میں بھرتیوں کے لئے سرٹیفیکیٹ باشندہ ریاست جموں و کشمیر کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔جس کے بعد غیر ریاستی افراد کو ان محکموں میں بھرتی کیا جا سکے گااور ہر وزیر امور کشمیراپنے لوگوں کو باروزگار بنا سکے گا۔آزاد حکومت صورتحال سے باخبر ہونے کے باوجود خاموش ہے۔کشمیر کونسل نے وزیر امور کشمیر کی خواہش پر ’اے جی آفس‘ انکم ٹیکس،گورنمنٹ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ میں خالی آسامیوں پر بھرتی کے لئے ریاستی باشندہ ہونے کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد وزیر امور کشمیر اور کشمیر کونسل کے بااثر بیوروکریٹس اپنے بندوں کو تینوں محکموں میں کھپا سکیں گے۔بتایا جاتا ہے کشمیر کونسل تحت کام کرنے والے تینوں محکمہ جات میں خالی آسامیوں کی تخلیق کی جائیگی تا کہ زیر امور کشمیر سیاسی بنیادوں پر اپنے حلقے کے افرادکو ایڈجسٹ کر سکیں ۔“
اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر کونسل نے ریاستی باشندہ ہونے کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کونسل نے اس بارے میں اپنے ریکروٹمنٹ رولز میں یہ ترامیم کر لی ہیں جبکہ کشمیر کونسل کو آئین کی رو سے ایسی ترمیم کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے۔آزادجموں وکشمیر کونسل کی طرف سے ریکروٹمنٹ رولز میں کی گئی ترامیم آزادکشمیر کے عبوری آئین کے منافی اور اختیارات سے تجاوز ہے۔ گزشتہ دنوںکونسل نے اپنی انہی ترامیم کو بنیاد بناتے ہوئے نصف درجن کے قریب غیر ریاستی (ریاست کشمیر) افراد کو اکاﺅنٹنٹ جنرل آفس میںتعینات کرنے کی کوشش کی ہے۔

آ زادجموں وکشمیر کونسل آئین کی دفعہ 31 کے تحت کونسل اور اسمبلی آزادجموں و کشمیر کی علاقائی حدود ، تمام باشندگان ریاست ، چاہے وہ جہاں بھی ہوں اور کونسل کے آفیسران کے بارے میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔ عبوری آئین میں سٹیٹ سبجیکٹ کی تعریف کے مطابق اس میں وہ ریاستی باشندے ہیں جو حکومت ریاست جموں و کشمیر کے نوٹیفکیشن نمبر 84/1-1 مورخہ 20 اپریل 1927 ءکے تحت ریاستی باشندے ہیں۔ یوں کونسل یہ قانون سازی تو کر سکتی ہے کہ اس معیار کے افراد سرکاری ملازمت میں آسکتے ہیں،لیکن ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی ہے کہ پاکستان کے شہری بھی کونسل یا آزادکشمیر کی سرکاری ملازمت میں آسکتے ہیں۔ چنانچہ آزادجموں و کشمیر کونسل نے جو کونسل سیکرٹریٹ ریکروٹمنٹ رولز بنائے ہیں وہ آئین سے متصادم ہیں۔ پاکستان کے صوبوں میں فیڈرل سروس کے علاوہ سرکاری ملازمتیں صوبوں کے اندر سکونتی لوگوں کو ہی دی جاتی ہیں۔ البتہ آزادکشمیر میں یہ قانون موجود ہے کہ اگر کسی پوسٹ کے لئے موزوں ریاست جموں وکشمیر کا باشندہ مہیا نہ ہو تو اس کے لئے حکومت رولز میں نرمی کرتی تھی لیکن یہ 1950-60 ءکی دہائی کی بات ہے اب آزادکشمیر میں ہر پوسٹ کے لئے موزوں ترین ریاستی باشندے دستیاب ہیں۔ یوں آزادجموں و کشمیر کونسل کے ماتحت اداروں اکاﺅنٹنٹ جنرل آزادکشمیر آفس ، انکم ٹیکس وغیرہ میں ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کی جگہ سیاسی بنیادوں پر پاکستان کے مختلف علاقوں کے منظور نظر افراد کو بھرتی کرنا ، عہدوں پر لگانے کے اقدام آزادجموں وکشمیر عبوری آئین 1974 ءکے منافی اور اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ کیلئے پاکستان کے وسیع تر مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کے باعث بھی ہیں۔ اطلاع کے مطابق پاکستان میں ریاست جموں و کشمیر کی سٹیٹ پراپرٹی کے انتظام کے لئے لاہور میں قائم ایڈمنسٹریٹو آفس میں اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً چالیس افراد بھرتی کئے گئے ہیں۔

یہاں یہ بات بیان کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان میں 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تسلیم شدہ بنیادی حقوق کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا اور اس سے ایسے اکثر موضوعات کے اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوگئے جو 18 ویں آئینی ترمیم سے پہلے وفاق کے پاس تھے۔ لیکن آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو اس قابل نہیں سمجھا گیاکہ انہیں بھی پاکستان کے صوبوں کے برابر حقوق اور اختیارات تفویض کئے جائیں۔آزادکشمیر کے عبوری آئین اور گلگت بلتستان کے انتظامی آڈرمیں ترامیم کے ذریعے کونسل کے پاس مختلف موضوعات سے متعلق موجوداختیارات آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو منتقل کئے جانے چاہئیں جو پاکستان میں 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ یوں اس وقت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے باشندگان کو پاکستان کے شہریوںکے مساوی جو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں ان میں اطلاعات تک حق رسائی (Rright to iformation ) اورزبان ، رسم الخط اور ثقافت کا تحفظ بھی شامل ہے۔ یہاں یہ بات بھی بے محل نہیں کہ جملہ وفاقی ملازمتوں میں ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کے لئے دو فیصد کوٹہ ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ۔ اگر وفاقی ملازمتوں ، جن میں تمام وفاقی محکمے اور ادارے بھی آتے ہیں ،میں ریاستی باشندوں کے لئے مختص اس کوٹے پر عملدرآمد کیا جائے تو ریاست جموں وکشمیر کا کوئی بھی شہری بے روزگار نہیںرہے گا۔لیکن ریاستی باشندوں کو وفاقی کوٹے کا حصہ دینے کے بجائے ریاستی محکموں کو سیاسی نوازشات کی چراہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔

آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی تابعدار حکومتیں بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں جو مفاداتی اور خوشامدی دوڑ میں اسمبلیوں سے پاکستان کے حکمرانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی قراردادوں میں مقید ہو کر رہ گئی ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے شہریوں کے برابر تمام بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے برابر بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ آزادکشمیر کے عبوری آئین اور گلگت بلتستان کے انتظامی حکم میں ترامیم کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں کو بھی پاکستان کے شہریوں کے مساوی تمام بنیادی حقوق مہیا کئے جائیں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی حکومتوں کو بھی پاکستان کے صوبوں کے مساوی آئینی و انتظامی اختیارات دیئے جائیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699747 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More