واہ کیسی یکجہتی ہے!!! شاید
ہماری یکجہتی صرف چھٹی منانے تک رہ گئی ہے لیکن اِس بات سے بے خبر کہ یہ دن
اُس مظلوم قوم کے لیے ہے جن کی صبح و شام گولہ باری اور بارود کے سائے میں
گزرتی ہے ۔جن کی ماں، بیٹیاں اور بہنوں کی عصمت محفوظ نہیں جن کے بچے خوف
کے سائے میں پرورش پا رہے ہیں، اُنہوں نے آج تک آزاد فضا میں سانس نہیں لیا
پھر بھی وہ ایک ہی نعرہ فضا میں بلند کرتے ہیں ”کشمیر بنے گا پاکستان“
افسوس کے پاکستانی قوم اِن کو بھول بیٹھی ہے۔ سنو تو ذرا سےد علی گےلانی
کےا کہتے ہےں پاکستانےو آپس میں دست و گریباں ہونا بند کرو اگر تم اسی طرح
لڑتے رہے تو کشمیر کی آواز کون اٹھائے گا۔ تاریخ کے اوراق پلٹے تو معلوم
ہوتا ہے، قیام پاکستان کے بعد آزادی جموں و کشمیر کی جدوجہد کو 65 برس ہو
چکے ہیں مگر آزادی حق کی یہ تحریک بہت پرانی ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے جب
کشمیر کو انگریزوں سے خرید کر موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تشکیل کی تو
کشمیریوں نے اپنے حقوق کے لیے ”کشمیر جمہوریہ“ تحریک چلائی۔ 1931 میں کشمیر
عوام نے اپنے سینوں میں گولیاں کھائیں، آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔ اس وقت
پاکستان کا وجود نہ تھا۔ پاکستان کے قرارداد 1940 میں منظور ہوئی تو آزادی
جموں وکشمیر کی تحریک قیام پاکستان کے بعد ایک سیاسی مسئلہ بن کر ابھری۔
کشمیریوں میں یہ احساس بہت پہلے سے موجود تھا کہ وہ ایک اسے خطے میں ایک
ریاست کے طور پر موجود ہیں۔ ان کی اپنی شناخت ایک ہے۔ 1947 میں جب پاکستان
بھارت کو آزادی حاصل ہوئی تو کشمیریوں کو بھی آزادی کی امید دکھائی دی مگر
انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے جموں و کشمیر کو متنازعہ بنا دیا گیا اور
بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ لے گیا۔ مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کی حکومتوں
نے استعمال کیا۔ 1949 میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ نے اقوام متحدہ
قرارداد پیش کی کہ اس مسئلے کو مسئلہ جموں و کشمیر کے بجائے پاکستان و
ہندوستان کے مابین تنازعہ کے طور پر سمجھا جائے۔ اِس ترمیم کے بعد بین
الاقوامی برادری نے جموں و کشمیر کو پاک بھارت کا متنازعہ مسئلہ قرار تو دے
دیا مگر ان 63 برسوں میں پاکستان کو چار ایسے ملک نہ مل سکے۔ جو بھارت کے
خلاف کشمیر کے سلسلے میں اِس قرارداد کی تائید کر سکتے۔ اقوام متحدہ کی
قرارداد کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان لائن قرار دی گئی تھی۔ دونوں ملکوں
کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوئے ،کئی عہد و پیماں ہوئے مگر مسئلہ کشمیر حل
کے بجائے مزید الجھتا چلا گیا۔ مسلمان ممالک بھی آزادی کشمیر کے لیے بھارت
پر دباﺅ ڈالتے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتے ہیں جب کہ بھارت
کے ساتھ ان کی کھربوں ڈالر کی تجارت ہے ۔پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا پھر بھی
حکمران اِس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی کے اُس مقام تک نہیں پہنچ پائے جہاں
جموں و کشمیر کی آزادی و خود مختاری ممکن ہو سکے۔ بقول طیبہ ضیاءچیمہ (کالم
نگار) وہ کہتی ہیں ”پاکستان بہت جلد ایٹم بم کی دوڑ میں برطانیہ سے آگے نکل
جائے گا، ”پڑھ“ کر پاکستان کی ”ترقی“ پر بہت حیرانگی ہوئی ہے پاکستان جو
ترقی کی دوڑ میں انڈیا سے پیچھے رہ گیا ہے بلکہ اُلٹے قدموں میں رینگ رہا
ہے مزید ایٹم بم بنا کر اس سے آگے نکل جائے گا....؟؟؟ امریکہ و اسرائیل کو
مار گرائے گا....؟ یا پھر کشمیر کو آزاد کرا لے گا....؟ پاکستان میں ہر سال
پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، عام
تعطیل ہوتی ہے، کشمیریوں کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے۔ اس طرح مسئلہ
کشمیر زندہ رہتا ہے، تاریخ تازہ رہتی ہے مگر اس روز پاکستان کی اکثریت سو
کر گزارتی ہے۔ پاکستان میں عام تعطیل کا مطلب کھانا پینا اور سونا ہے۔“
گزشتہ چند سالوں سے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں اچانک تیزی آئی ہے، مسلسل
کرفیو کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن کشمیری سڑکوں میں نہ
آئے ہوں، اسی دوران 100 سے زائد کشمیری بے گناہ شہید کر دیے گئے تھے،
وحشیانہ تشدد کی وجہ سے سینکڑوں زخمی ہوئے، ہزاروں اسیر ہوئے انڈین آرمی بے
بس ہو چکی تھی بھارت کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اِس تحریک کے خلاف کوئی فیصلہ
کن کام نہ کیا گیا تو کشمیر ہاتھ سے نکل سکتا ہے، اِس کی کڑی میں 15 ستمبر
2010 کو اے پی سی بلائی گئی لیکن وہ بے نتیجہ رہی، دراصل کانگریس اور پی جے
پی اِس تحریک سے زور بازو نمٹنا چاہتی تھی، دوسری جماعتیں ان سے متفق نہیں
تھیں لیکن وہ تحریک آخر کار پاکستانیوں کی عدم توجہ کے باعث ٹھنڈی پڑ گئی،
اگر کشمیر کی تاریخ میں 1988 کے بعد نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ 1988
سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں خون مسلم بڑا ارزاں ہے کشمیری مسلمان انسانی
جان و مال و آبرو کی غیر معمولی اور عظیم قربانیاں دے کر آزادی اور حق خود
ارادیت کی تحریک بین الاقوامی افق پر لائے۔ آج بھی یہ قربانیاں جاری ہیں،
ہندوستان کی طرف سے ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم میں کمی کے بجائے تیزی
آ رہی ہے۔ ہندوستان نے مظالم ڈھانے کے لیے وحشیانہ طریقے استعمال میں لائے
ہیں پاکستان کی عدم توجہ کی وجہ سے اب کشمیری اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے
ہیں۔ انسانی حقوق اور سیاسی جماعتوں کی عدم توجہ بھی شرمناک ہے اگر بھارتی
فوجیوں کے کشمیر میں مظالم پر نظر ڈالی جائے تو اِس کی ایک چھوٹی سی مثال
آپ کے سامنے رکھتا ہوں، جنوری 2011 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے سو پور میں
بھارتی فورسز کے ہاتھوں دہشت گردی کے دو المناک واقعات سامنے آئے جو جواں
سالہ بہنوں عارفہ اور اختر کو سفاکی سے قتل کیا گیا۔ جموں و کشمیر میں پیش
آنے والے اس واقعہ نے ہر انسان کو ہکا بکا کردیا۔ اِس واقعہ سے چند دن قبل
بھارتی فورسز نے آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دری کے بعد اُن کو سفاکانہ طریقے
سے قتل کر دیا ، کشمیریوں نے ہمیشہ پاکستانیوں کے ساتھ مثبت رویہ روا رکھا
وہاں سے آنے والے مجاہدین سے میری ملاقاتیں ہوئیں ایک مجاہد کا واقعہ میں
آپ کی نذر کر رہا ہوں جس کو سن کر میری آنکھوں سے رواں آنسو اس بات کی
گواہی دے رہے تھے کہ انشاءاللہ ایک دن ضرور ”کشمیر بنے گا پاکستان“ مجاہد
کہتا ہے کہ ہم کشمیر کے ایک علاقے میں پڑاﺅ ڈالے ہوئے تھے ہم دو بھائی تھے
ایک جنگل میں چھپ کر ریکی کر رہے تھے ہمارے پاس کھانے کے لیے خوراک ختم ہو
چکی تھی ہم نے پلان بنایا کہ رات ہوتے ہی ہم آبادی میں جائیں گے، کسی گھر
سے کھانا لے کر واپس آ جائیں گے، آدھی رات کا وقت تھا ہم نے آبادی کا رخ
کیا اور ایک گھر کادروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے زنانہ آواز آئی، ہمیں معلوم
تھا کہ یہ مسلمانوں کا گھر ہے، ہم نے اپنا تعارف کروایا، عورت نے دروازہ
کھولا ہم اندر داخل ہو گئے، اُس نے ہماری خدمت مدارت کی، اُس نے ایک ماں سے
بڑھ کر ہمارے ساتھ سلوک روا رکھا لیکن کسی مخبر نے انڈین آرمی کو ہماری
موجودگی کی اطلاع دی اورآرمی اُس عورت کے گھر آ گئی اُس نے ہمیں چھپا دیا،
انڈیا فورسز جب گھر میں داخل ہوئی اور اُس عورت سے سوال کیا کہ کہاں چھپایا
ہے، اُن آتنگ وادیوں کو تو وہ صاف مکر گئی اُس کو انہوں نے بہت ڈرایا
دھمکایا، اُس کو مارا پیٹا بھی آخر کار وہ بے بس ہو گئی، وہ بولی میں ابھی
انہیں لاتی ہوں ہم چوکس ہو گئے کہ اب شہید ہونے کا وقت آ گیا لیکن وہ عورت
ہمارے کمرے میں آنے کے بجائے دوسرے کمرے میں گئی اور اپنے جواں سالہ بیٹے
کو ساتھ لائی اور اُنہیں کہا یہ ہے مجاہد ہم دونوں کو ایک جھٹکا لگا ابھی
ہم سنبھلے ہی تھے کہ اُن سوروں نے اُس لڑکے پر فائر کھول دیے اور وہ موقع
پر شہید ہو گیا، آرمی فورسز جشن مناتے ہوئے وہاں سے نکل گئے عورت ہمارے پاس
آئی اور ہم اُس سے پہلے کہ کچھ پوچھتے، وہ بولی بیٹا تم (پاکستانیوں) کا ہم
پر بہت احسان ہے، اُس احسان کاآج ایک فی صد شاید میں اپنا قرض اتار چکی ہوں
ہم میں کچھ بولنے کی سکت نہیں تھی، اُس عورت کو اپنے بیٹے کی لاش کی کوئی
پروا نہیں تھی وہ ہماری خدمت میں لگی رہی اور رات کے آخری پہر ہم وہاں سے
نکلے شاید میں اُس ماں کو اور اُس رات کو زندگی بھر نہ بھلا سکوں یہ تھی
ایک مجاہد کی داستان جس کے ایک لفظ سے ان کشمیریوں کی پاکستانی مجاہدین سے
محبت صاف نظر آ رہی ہے۔ یہ ایک داستان ہے ایسی سینکڑوں داستانیں ہیں جس کو
سننے کے بعد آپ ششدر رہ سکتے ہیں۔ اب ذرا اُن لوگوں پر نظر ڈالتے ہیں جو
انتہائی کٹھن حالات کے باوجود بھی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں
ہم انہیں جتنا کوستے رہے لیکن اِس تلخ حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اپنی جان
کی بازی لگانے کے لیے وہ میدانوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ 1988 میں جب بھارتیوں
کے مظالم میں تیزی آئی تو پاکستان میں کچھ لوگوں نے جماعتوں کی شکل اختیار
کی، ان میں کچھ 1950 یا اس سے بھی پہلے کام کر رہی تھیں لیکن اس کے بعد وہ
منظم ہوئی ان میں لشکر طیبہ، جیش محمد، بیت المجاہدین، البدر المجاہدین،
حزب المجاہدین، تحریک المجاہدین سرفہرست ہیں۔ ذرا کچھ تلخ منظر آپ کے سامنے
لانا چاہتا ہوں کشمیر میں مائیں جب اپنے جوان بیٹوں کو گھروں سے روانہ کرتی
ہیں اور کہتی ہیں جا بیٹا آزادی کی تحریک میں اپنا خون پیش کر، جب ان کے
بیٹے شہید ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی بیٹیوں کو روانہ کرتی ہیں وہ جانتی ہیں
کہ آج پیش کیا ہوا خون کل انشاءاللہ بارگاہ الٰہی میں ضرور کام آئے گا یہ
عورتیں پھر آسیہ اندرابی کی شکل میں سامنے آتی ہیں یہ پھر امت مسلمہ کی
بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے بھی سری نگر کی سڑکوں میں نکلتی ہیں لیکن ہم
نے ان کے لیے کیا کیا؟ آج پاکستان کا جوان ذرا ایک لمحے کے لیے سوچے کے اُس
نے کشمیریوں کے لیے وقت نکالا کس پلیٹ فارم میں، اُس نے اُن کی آزادی حق
خود ارادیت کے لیے آواز اٹھائی، ذرا لال چوک میں لہراتے ہوئے پاکستانی پرچم
کا ہی مان رکھ لو یاد رکھو جوانوں ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“
وہ دن بھی یاد رکھو جب کشمیری لیڈر کو شہید کیا گیا تو کشمیر سے ا ٹھنے
والا یہ نعرہ ”تیری منڈی میری منڈی راولپنڈی راولپنڈی“ تو یہاں کے کچھ
باغیرت نوجوانوں نے اِس کا جواب دیا تھا ”تیرا نگر میرا نگر سری نگر سری
نگر“ اور ہماری حکومت آج اسی ملک کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے رہی ہے جو
ہماری شہ رگ کو کاٹنے کے عمل میں سرگرم ہے، یہ امن کی آشا پر بنے نام نہاد
فورم سے اس مسئلے کو پس پردہ لے جایا جا رہا ہے، خدارا پاکستانیوں جاگ جاﺅ
اگر اب بھی سوئے رہے تو یاد رکھو جب شہ رگ کٹ جاتی ہے تو انسان مر جاتا ہے۔
واہ کیسی یکجہتی ہے!!! شاید ہماری یکجہتی صرف چھٹی منانے تک رہ گئی ہے لیکن
اِس بات سے بے خبر کہ یہ دن اُس مظلوم قوم کے لیے ہے جن کی صبح و شام گولہ
باری اور بارود کے سائے میں گزرتی ہے ۔جن کی ماں، بیٹیاں اور بہنوں کی عصمت
محفوظ نہیں جن کے بچے خوف کے سائے میں پرورش پا رہے ہیں۔ |