پانچ فروری کو کشمیر سے یکجہتی
کا دن منایا جاتا یے - ماضی میں یہ یوم کشمیر کے طور پر منایا جاتا تھا-
کشمیر کی جنت نظیر واد ی جسکے متعلق کہا جاتا ہے " گر فردوس بر روئے زمین
است ہمیں است ہمیں است و ہمیں است -
اس سرزمین پر جہاں مسلم اکثریتی آبادی رہایش پذیر ہے - مختلف حیلے حوالوں
سے مسلمانوں کا جینا دو بھر بلکہ محال کردیا گیا - آنکے حقوق خود ارادی کے
تمام دروازے بند کرکے ظلم و جبر کی ہر صورت روا رکھی گئی- خواتین پر زیادتی
اور تشدد کی ناگفتہ بہ کہانیاں ہیں اور یہ بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا
ایک گھناؤنا چہرہ ہیں- ہزاروں مسلمان خواتین پر انکے اہل خانہ کے سامنے
جنسی زیادتی کی گیئ دنیا میں مغلوب اور مقہور قوموں میں کشمیری ایک ہیں اور
جو نام نہاد اقوام متحدہ اور استصواب راۓ کے چکر میں اس بری طرح الجھا دئے
گئے ہیں کہ کہیں فرار کی صورت نہیں نظر آتی-
تو مجھے بھی کچھ سال پہلے کا واقعہ یاد آیا یہ 90 کی دہائی تھی جب کہ جہاد
کشمیر اور بھارتی ظلم و ستم زوروں پر تھا ہم لوگ دامے درمے سخنے مدد میں
لگے ہوئے تھے لیکن کچھ ایسے تھے جنکے جگر گوشوں نے جام شہادت نوش کر لی تھی
جھاد کے متوالوں کو ایک کھلا راستہ بلکہ ایک نصب العین میسر تھا ایک طرف
افغانستان دوسری طرف کشمیر وارے نیارے تھے- جان دینا ، جان وارنا اور جان
ہتھیلی پر رکھ کر پھرنا یہ سارے محاورے انکے جذبوں کے آگے ہیچ تھے- اس
سلسلے میں ہم ایک کانفرنس کر رہے تھے اور ایک ایسی ماں کو لانے کی ذمہ داری
مجھے سونپی گئی جنکا بیٹا ابھی حال ہی میں کشمیر میں شہید ہوا تھاانکا سوچ
سوچ کر مجھے اپنی نانی یاد آرہی تھیں میرے اکلوتے ماموں 1948 کی جنگ میں
کشمیر کے محاظ پر شہید ہوئے تھے اور میری نانی اسکے بعد کشمیر کا نام بھی
سننا بھی گوارہ نہیں کرتی تھیں
میری ساتھی شاکرہ کہنے لگیں" باجی میں آپکو لے جاؤنگی مجھے جگہ معلوم ہے
گلشن اقبال کے ایک بلاک میں گلی در گلی ہوتے ہوےئ ایک مکان پر پہنچے - دو
منزلہ مکان تھا دو لڑکے باہر نکلے کہنے لگے ابھی وہ آنے والی ہیں آپلوگ
اندر آئیے-کمرے میں ہر طرف گدے بستر لگے ہوئے تھے اور چھوٹے چھوٹے بیگز میں
سامان رکھا ہوا تھا - شاکرہ کہنے لگی " باجی یہ سب مجاہد ہیں" لڑکا ہمارے
لئے چائے اور بسکٹ لایا " میں نے کہا آپ نے بہت اچھی چائے بنائی ہے پھر
تھوڑی باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ انکا پہلا کیمپ ہے یہاں پر امیدواروں
کا انتخاب ہوتا ہے پھر انکو ٹریننگ کے لئے بھیج دیا جاتا ہےاتنے میں ایک
ٹرک آیا اس سے کافی سارے لڑکے اترے بانور چہرے ، ہلکی ہلکی داڑھیاں کسی اور
دنیا کی مخلوق لگ رہے تھے میرے پرس میں جو رقم تھی وہ میں نے اس لڑکے کو دی
وہ رقم کی رسید لے آیا اتنے میں ایک سوزوکی سے اماں آن پہنچیں کافی ہشاش
بشاش لگ رہی تھیں -ہم روانہ ہوئے، میں نے انکو اپنے ساتھ والی سیٹ پر
بٹھایا شاکرہ پیچھے بیٹھیں- انکے بیٹے کی شہادت کا ذکر ہوا تو کہنے لگیں ،"
مجھے مبارکباد دیں شہید کی ماں ہوں" سبحان اللہ میں انکا جذبہ دیکھ کر دنگ
تھی ر انکے بیٹے کی شھادت سوپور کے مقام پر ہوئی تھی کہنے لگیں ایک بیٹا
اللہ کی راہ میں بھیج دیا اور میں ان سب کی اماں بن گئی یہ لوگ مجھے اپنے
ٹرک میں بٹھاکر کیمپ میں لے جاتے ہیں سب میرے بچے ہیں انکے لئے کھانے بناتی
ہوں انکے کپڑے دھوتی ہوں انکی خریداری کرتی ہوں انکو جوش اور ولولہ دلاتی
ہوںانہون نے بتایا کہ پہلے انکا بیٹا افغانستان میں لڑنے گیا تھا واپس آیا
تو گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا اسلئے کہ وہ پانی بہت کم پیتا
تھا- جب صحت یاب ہوا تو اسنے کشمیر ہر جانے کی ٹھانی ، جاتے ہوئے کہنے لگا
اماں اس دفعہ میری شہادت لکھی ہےدوسرے بیٹے کی ویڈیو کی دکان ہے وہ اسکو
بہت منع کرتا اور لڑتا کہ تم ہمارے دشمنوں کے ویڈیو دکھاتے ا ہواور اسکی
کمائی کھاتے ہودونوں بھائی بالکل مختلف تھے- ہم دم بخود ہوکر انکی باتیں
سنتے رہے پھر انہوں نے بتایا کہ جس روز اسکی شہادت ہوئی وہ انکو خواب میں
آیا بہت ہی شاندار لباس مین اور انتہائی خوش وخرم تھا وہ کہنے لگیں کہ مجھے
یقین ہوا کہ وہ شہید ہوچکا ہے اس صبح جب اسکا بھائی اپنے سٹور میں گیا تو
اسنے دیکھا کہ سارے انڈیئن کیسٹ ٹوٹے پڑے ہیں جبکہ دوکان بند تھی( اس بات
کا مجھے تو یقین نہیں آرہاتھا ) لیکن میں نے انکو ٹوکا نہیں، لیکن وہ بیٹا
پھر اس پیشے سے تائب ہوگیاہ انہون نے کیمپوں کا بتایا جہاں پر ٹریننگ ہوتی
تھی اور ان مجاہدوں کی خوراک سوکھی روٹی کے ٹکڑے ، بھنے چنے اور گڑ کی
ڈلیاں - روٹی کو پانی یا برف میں بھگو کر نرم کرکے کھاتے-تھے اور یہی انکی
خوراک تھی اسی کو تھیلون میں بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے -سبحان اللہ
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں نظر میں اذان سحر میں
دل مرد مومن کو پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کی سی نعرہ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
--
لیکن ان سب قر بانیوں سے کیا حاصل ہوا یا سب لا حاصل چلا گیا بظا ہر تو
کوئی انجام نظر نہیں آتا-؟ |