قسمت کے فیصلے

جہاں تک میرا نظریہ ہے کہ آمد اور آورد صرف شاعری میں نہیں ہوتی۔آمد اور آورد نثر نگاری میں بھی ہوتی ہے اور میں ہمیشہ آمد پر کالم لکھنے کا قائل ہوں،بے شک وہ میری شاعری ہو یا کالم نگاری۔آورد میں لکھے گئے الفاظ یاتحریر میں بناوٹ یا تصنع ہوتا ہے جو کہ ساری بات کا سوا ستیاناس کر دیتا ہے۔میرے قلم یاذہن میں آمد اس وقت ضرور ہوتی ہے جب کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نظریہ پاکستان پر داغ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔پاکستان میں اس وقت جو ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔زرداری صاحب پنجاب میں اپنے نئے بلٹ پروف محل میں بیٹھ کر (جوکہ انہیں پٹواریوں کے سب سے بڑے ٹائیکون نے گفٹ کیا ہے) پنجاب کو زیر کرنے کی بھر پور تگ و دو کر رہے ہیں اور میاں نواز شریف سندھ میں سندھ، کراچی کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے میں مصروف ہیں۔عمران خان بمعہ شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی ،چوھدری برادران اور طاہر القادری صاحب کےساتھ گٹھ جوڑ کر کے اس وقت الیکشن کمیشن پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے سب کچھ داﺅ پر لگائے بیٹھے ہیں۔

حکومت وقت اس وقت مزے میں ہیں۔وزیراعظم صاحب اپنی حکومت کی کامیابی کی جھوٹی داستانیں سنانے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں ،وہ چاہے گلگت بلتستان کا اجتماع ہو یا گوجر خان کی کسی چھوٹی گلی کا معمولی سا فنکشن ہو۔الیکشن لیٹ ہونے سے موجودہ وزیر اعظم کے وارے نیارے ہو جائیں گے لیکن جلدی ہونے سے رینٹل کیس شاید ان کے مستقبل کو بھی لے ڈوبے۔وہ اور ان کے قریبی ساتھی یہی چاہتے ہیں کہ کسی حیل حجت سے الیکشن لیٹ ہو جائیں۔پروٹوکول کسے اچھی نہیں لگتی اگر کوئی میرے جیسے نکمے اور محنتی کو بھی اس کی ”لت“ ڈال دے تو شاید کل احقر بھی دس مشیروں کے قلم سے ایک کالم لکھوائے۔اللہ نہ کرے جناب!یہ عادت بہت بری ہے۔اس عادت کا اب جناب گیلانی صاحب سے ہی پتہ کرالیں۔انہیں رات کو دیر سے نیند آتی ہے اور صبح ناشتے کودل نہیں چاہتا۔لنچ اور ڈنر زبردستی کرایا جاتا ہے کہ کہیں سابقہ وزیرا عظم کی صحت نہ خراب ہو جائے۔بہت ہی پرانی ایک فلم دیکھی تھی جس میں گوندا نے راجہ صاحب کا کردار ادا کیا تھا اور وہ گھر سے تیار ہونے نکلتے تو ان کے سامنے ایک ایک سو درجن کپڑے،جوتے،انگوٹھیاں اور عینکیں تیار ہوتی تھیں پھر وہ اس میں سے ایک ایک چیز سلیکٹ کرتے اور نوکروںچاکروں کے ساتھ چھتری کے سائے میں اپنی ایک گاڑی میں سوار ہوتے۔اس سے کہیں زیادہ پروٹوکول ہمارے ”راجہ جی“ کوبھی ہے۔

عوام کو کون دیکھتا ہے ،سچ بتاﺅں تو پاکستان میں عام بندے کا جینا محال ہے۔کسی عام آدمی نے بچے کا برتھ سرٹیکفکیٹ بنوانا ہو یا ب فارم اس کے لئے ایک مہینہ اور رشوت ضرور درکار ہے۔کسی نے شناختی کارڈ بنوانا ہو اس کودو تین ہفتے ہر کام چھوڑنا پڑے گا۔بجلی کا میٹر لگوانا ہوتو دو تین مہینے کی ذلالت بمعہ رشوت ،سفارش ضروری ہے۔گیس کا میٹر دو تین سال کے بعد پچاس سے ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہونے کے بعد آپ کے گھر کی دیوار کے باہر لٹکتا ہوا نظر آئے گا۔پانچ مرلے کی زمین لینا ہو تو سب سے پہلے کسی کم کیشن لینے والے پراپرٹی ڈیلر کوتلاش کرنا ہوگا پھر کسی ایماندار پٹواری کو ڈھونڈناہوگا جوکہ تحصیل آفس میںاصل زمین کا اصل خسرہ نمبر آپ کے نام کرائے گا۔ورنہ تو یہاں پراپرٹی ڈیلر اور پٹواری مل کے کئی پڑھے لکھے لوگوں کو بھی "FAKE"زمین نام کروا کے ماموں بنانے سے باز نہیں آتے۔گھر بنانا ہو تو نقشہ پاس کرانے کے لئے کافی ذلیل ہونا پڑے گا۔اگر کسی غریب ،مسکین اور بیوہ نے پلاٹ خریدا ہے تو اس پر راتوں رات قبضہ مافیا قبضہ کر لے گا اور متاثرہ فرد یا اس کی فیملی ساری زندگی تھانہ کچہری چکر لگا لگا کر پاگل ہو جائیں گے مگر یہ مقدمہ انصاف تک نہیں پہنچے گا۔جینا تو ہمارے ہاں ہے ہی مشکل مگر آپ کا یا آپ کے خاندان کا کوئی بندہ شہر میںمر گیا ہوتو کافی رسوائی کے بعد آپ کو زمین کا ایک ٹکڑا دفنانے کے لئے ملے گا ،کفن دفن کا خرچ علیحدہ سے غریب خاندان کے لئے مسائل پیدا کرے گا۔لوگ گوشت تو درکنار سبزی فروٹ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بازار میں سر جھکاکر گزر جاتے ہیں۔

بے ایمانی ،رشوت اور سفارش کا یہ حال ہے کہ ایک نئی اطلاع کے مطابق اس وقت پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندوں نے پاکستانی کے طور پر اپنی رجسٹریشن ناجائز اور غیرقانونی طریقہ سے کرا رکھی ہے لیکن اصل پاکستانی ”ب“ فارم اور شناختی کارڈ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔اگرچہ یہ حکومت اپنی ناکام مدت مکمل کرنے کو ہے لیکن اس مدت میں نہ تو اس حکومت نے مہنگائی،بے روزگاری،غربت اور معاشی بدحالی کا کوئی حل نکالا ہے اور نہ ہی اس حکومت نے کراچی سمیت بلوچستان میں قتل عام کا ٹھیک سے نوٹس لیا ہے۔کراچی ایک قتل گاہ کے طور پر پوری عوام کے سوالیہ نشان ہے اور بلوچستان میں ملک دشمن عناصر بلوچیوں اور پاکستانیوں کے درمیان تفرقہ بازی کی لہر اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔

خارجہ تعلقات کی بات کرنا ہی فضول ہے۔امریکہ کا اتحادی بنننے پر ہمیں جو نقصان ہوا سو ہوا مزید ہونے کو ہے مگر ہندوستان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا صلہ ہندوستان کی دوغلی حکومت نے یہ دیا ہے کہ ایک کشمیری مسلمان افضل گرو جس کا محض اتنا قصور تھا کہ وہ کشمیری عورتوں کی ہندوستانی فوج کے ہاتھوںعصمت لٹنے اور مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی فوج کی موجودگی کے سخت خلاف تھا، ہندوستان نے اس کو پارلیمنٹ پر حملے کا قصوروار ٹھہرا کر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پھانسی کے پھندے پر ایسا لٹکایا گیا کہ اس کی آخری خواہش کے مطابق اسے اس کے گھر والوں سے بھی نہ ملنے دیا گیا اور نہ ہی اس کی میت اس کے خاندان والوں کے حوالے کی گئی۔ہندوستان نے ہماری سرحدوں پرہمارے کئی فوجی اپنی اشتعال انگیز فائرنگ سے شہید کر دیئے ۔ان کی منافقت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہندوستان والے ہمیشہ اپنے قیدی گناہ گار جاسوسوں کو زندہ سلامت پاکستان سے واپس لینے کے عادی ہیں۔ہمارے کھلاڑی ان کے ملک میں کھیلنے چلے جاتے ہیں مگر ہندوستان والے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتے اور اپنے کھلاڑیوں کو ہمارے ملک کی طرف بھیجنے کا نام نہیں لیتے۔اس پر ہماری حکومت اور ہماری این جی اوز کی خاموشی بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ؟

ہم اور ہماری حکومتیں کہاں کہاں ناکامی کا شکار ہیں یہ ایک الگ اور بہت بڑی بحث ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانی پچھلے 65سالہ تاریخ میں ہم لوگ ایٹم بم،موٹروے اورمیٹرو بس سروس منصوبے دینے والے مزید لوگ تیار کیوں نہیں کر سکے ۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس الیکشن میں مخلص لوگوں کو عوامی خدمت کے لئے تیار کریں ورنہ ایسے وقت دوبارہ پانچ یا دس سال بعد موقع دیتا ہے اور اگر ہم یہ موقع کھو دیا تو جمشید دستی جیسے جعلساز،بینکوں کی رقم ہڑپ کرنے والے،مشرف جیسے ڈکٹیٹر،رینٹل کیس ملزمان اور سوئس میں دولت اکٹھے کرنے والے پجاری ہی ہماری قسمت کے فیصلے کریں گے۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 67070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.