وہ کوئی آرمی یا نیوی سے تعلق
نہیں رکھتے ، اور نہ ہی قابلِ احترام سائنسدان ہیں ، وہ جس جائداد کے مالک
ہیں اگرچہ وہ ایک اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ کی ہیں لیکن اس کے بہت
بڑے حصے کا تعلق ان کے سسرال یا ان کی مر حومہ اہلیہ سے ہے ،جبکہ خود ان کا
تعلق سندھ کے ضلع نوابشاہ سے ہے 1983 میںوہ ڈسٹرکٹ کونسل نوابشاہ کا انتخاب
بھی ہارچکے تھے ان کے والد کی نوابشاہ میں زرعی زمین ہے ،والد تو اللہ کو
پیارے ہوچکے ہیں (لیکن والد صاحب مرحوم وہ آدمی تھے جو قائد اعظم سے نہ صرف
نالاں تھے بلکہ ایک ویڈیو میں جو سوشل میڈیا پر اب بھی موجود ہوگی میں قائد
اعظم محمد علی جناح کے بارے میںالٹی سیدھی گفتگو کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں)۔
بہرحال یہاں اس شخصیت کی جو اس وقت پاکستان کے دوسرے امیر آدمی ہیں کے بارے
میں بات کی جارہی ہے ۔ کراچی میں ان کے والد کاسینما تھا اور یہ ہی ٹاکیز
ان کا کراچی سے رشتہ کا باعث بنا تھا۔ 1960 کی دہائی میں جب فلم انڈسٹری
کراچی میں تھی تو انہوں نے ایک فلم میں (Child Star)کی حیثیت سے اداکاری
بھی کی تھی۔لیکن وہ فلم انڈسٹری کے نامور اداکار نہیں بن سکے تاہم ان میں
فنکارانہ صلاحیتیں اب بھی موجود ہیں۔ جس کے باعث وہ فی زمانہ بہترین سیاست
دان مانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلیمی کئیریر بھی واضع نہیں ہے بلکہ یوں سمجھیں
پرسرار ہے ۔ ان کی اپنی بائیو گرافی کے مطابق نوعمری میں انہیں پولو اور
باکسنگ سے لگاﺅ تھا سنا ہے کہ وہ اب بھی اس کا شوق رکھتے ہیں۔ ، اب وہ
سیاست کے میدان میں ”گھوڑے دوڑا تے اور باکسنگ “ کرتے ہیں۔بائیو گرافی میں
ہے کہ انہوں نے 1972 میں کیڈٹ کالج پٹارو سے گریجویٹ کیا ۔ جبکہ
،1973-74میں سینٹ پیٹرک ہائی اسکول سے وابستہ رہے ، ویکیپڈیا کے مطابق
اسکول کلرک کا کہنا ہے کہ وہ فائنل امتحان میں فیل ہوگئے تھے ۔مارچ 2008
میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے لندن اسکول آف بزنس اسٹیڈیز سے 1970میں
بیچلر ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی ۔ان کی بائیو گرافی میں یہ بھی لکھا ہے کہ
انہوں نے پیڈنٹن اسکول برطانیہ سے بھی تعلیم حاصل کی لیکن یہ بات بھی ثابت
نہیں ہوسکی۔ شادی کے بعد ان کی زندگی ہی بدل گئی ،وہ زمیندار کے بیٹے سے
اچانک ایک نامور سیاسی شخصیت کے شوہر بن چکے تھے۔وہ اور اس کے دوست یہ سب
ایک خواب سمجھ رہے تھے لیکن یہ وہ حقیقت ثابت ہوئی جس نے اس جذباتی آدمی کو
ملک کا صدر تک بنادیا۔آج آصف زرداری رنڈوا کی زندگی گذاررہے ہیں لیکن شادی
شدہ سے زیادہ خوش نظر آتے ہیں۔ مرحومہ بے نظیر بھٹوکی زندگی میں ان صاحب کو
وہ کچھ نہیں ملا تھا جو ان کی وفات کے بعد ملا ہے اور مل رہا ہے۔محترمہ نے
انہیں اپنی ” حدود “ میں رکھا ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ وفاقی وزیر سے
زیادہ کچھ بھی نہیں رہے۔
گذشتہ جمعہ کو آصف علی زرداری لاہور کے بحریہ ٹاﺅن میں تعمیر کئے جانے والے
بلاول ہاﺅس پہنچے ان کی یہاں آمد کسی شہزادے یا بادشاہ سے کم نہیں تھی ۔وہ
لاہور ائیر پورٹ سے براہ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے محل نما اپنی نئی رہائش
گاہ پہنچے ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے ہمراہ تھے لیکن اس
ساری شاہانہ صورتحال میں بھٹونظریہ اسی طرح بیچ میں دب کر رہ گیا جس طرح
بلاول بھٹو زرداری کے نام میں لفظ بھٹو سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ سینڈوچ ایک
کھانے کی چیز ہے لیکن بہت لوگوں کو شکوہ ہے کہ موجودہ پیپلز پارٹی خصوصاََ
آصف علی زرداری کے اس” مادر پدر آزاد “ دور میںبھٹو کے نام کو بھی کسی
سینڈوچ کی طرح ہی استعمال کیا جارہا ہے۔
کلفٹن کراچی کے بلاول ہاﺅس سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بے انتہا محبت تھی وہ
اپنی زندگی میں متعدد بار اس کا اظہار بھی کرچکی تھیںلیکن پھر کیا وجہ ہے
کہ اس بنگلے کے ہوتے ہوئے آصف زرداری نے نئے گھر کی تعمیرات کرائی بلکہ
ہنگامی بنیادوں پر کرائی ؟آٹھ ماہ کی محدود مدت کو ہنگامی مدت نہیں تو اور
کیا کہا جائے گا۔اطلاع ہے کہ بلاول ہاﺅس کلفٹن کو بے نظیر میوزیم بنایا
جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی بی نے کبھی اس طرح کی کوئی خواہش ظاہر کی
تھی؟اور اس سے بڑھ کر کیا کبھی انہوں نے سندھ سے اپنی ذاتی رہائش گاہ اور
پیپلزپارٹی کے یہ اہم مرکز کو ”صوبہ بدر “ کرنے کا سوچا تھا؟خدشہ ہے کہ
مستقبل قریب میں پیپلز پارٹی کا ہیڈ کوارٹر کراچی سے لاہور میں نئے بلاول
ہاﺅس میں منتقل کردیا جائے گا؟
ایسا کیا گیا تو اس میں سیاسی حکمت عملی سے زیادہ ذاتی خواہشات اور چند اور
معاملات کار فرما ہیں۔مجھے پیپلز پارٹی کے مرکز کی منتقلی سے کوئی لینا
دینا نہیں ہے لیکن میری دلچسپی ان وجوہات میں ہیں جس کے باعث لاہور میں ایک
سوبیس کنال اراضی پر یہ عالیشان بلاول ہاﺅس بنایا گیا ہے، جہاں ہیلی پیڈ
بھی موجودہیں اور یہ بلٹ پروف نہیں بلکہ بم پروف ہے ۔شائد امریکہ کے سابق
اور موجودہ صدور کی ذاتی رہائش گاہیں بھی بم پروف نہ ہو۔لیکن بلاول یا ان
کے والد کے لیئے ایک ایسا ہی گھر چاہیے تھا جہاں بم بھی اثر نہ کرے ، چاہے
ملک بھر میں دھماکے ہوتے رہیں بم پھٹتے رہیں لیکن پیپلز پارٹی کی مرکزی
قیادت مکمل محفوظ رہے۔مجھے اس بات سے بھی دلچسپی ہے کہ پانچ ارب روپے کی
لاگت کے اس محل کو ملک ریاض نامی ٹائیکون نے کن وجوہات کی بناءپر آصف
زرداری اور ان کے خاندان بطور تحفہ دیا ہے؟اور کیا اس کی اراضی تمام قانونی
تقاضوں کی تکمیل کے بعد خریدی گئی تھی ؟ کیا اس کی تعمیرات میں ملکی قوانین
کو ملحوظ رکھا گیا ہے؟کیا اس تعمیرات سے آس پاس رہنے والے عام شہریوں کی
ذات کو تو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔؟
کالا دھن کو سفید کرنے کے لیئے تحفے تحائف کی لین دین عام بعد ہے۔پا نچ ارب
روپے مالیت کی کوٹھی کا گفٹ ایک دوست نے دوسرے دوست کا دیدیا اور قوم تماشہ
دیکھتی رہی۔۔۔کمال ہے؟ ۔۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ صدر صاحب کو گفٹ لینے اور ریاض
ملک کو دینے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ کیسی دوستی ہے جو ملک اور قوم کی محبت سے
زیادہ عزیز ہے؟ریاض ملک کے معاملات متنازعہ ہیں اور صدر صاحب ان سے تحفے لے
رہے ہیں ۔۔۔۔کیا یہ بات مہذب معاشرے میں درست سمجھی جائے گی؟
کیا اس سے یہ تاثر نہیں ملے گا کہ ریاض ملک جو بھی ہیں کسی کو بھی کسی بھی
وقت خرید سکتے ہیں؟کیا آزاد عدلیہ اس دوستانہ ڈیل کا نوٹس لے گی؟جس ملک میں
مہنگائی بڑھ رہی ہو،معاشی حالات خراب ہورہے ہوں ، بجلی اور امن وامان کی
صورتحال کے باعث جی ڈی پی شرح نمو چار فیصد سے کم رہنے کا خدشہ پیدا ہوگیا
ہو، کیا اس ملک کے صدر کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک پاکستانی سے اربوں روپے
لاگت کی جائداد گفٹ کی مد میں اپنی ذات کے لیئے وصول کرلے؟ریاض ملک پہلے ہی
متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں ایسی شخصیت سے پیپلز پارٹی کے رہنماءکے براہ راست
تعلقات ” کیا پاکیزہ “ تعلقات ہیں؟ذرا کوئی یہ تو معلوم کرلیں کہ یہ تعلقات
کب سے اور کیوں قائم ہیں؟چلیں چھوڑیں اب ہم بات کرتے ہیں کہ ایسا کیا ہونے
جارہا تھا کہ آصف علی زرداری کو اپنی چہیتی اہلیہ کی پسندیدہ رہائش گاہ کو
چھوڑنا پڑرہا ہے؟
ان سوالوں کے جواب کے لیئے ہمیں ماضی کی طرف دیکھنا ہوگا جب کراچی میں
امریکی قونصل خانہ سابقہ مقام سے منتقل کرکے مائی کلاچی روڈ پر منتقل کیا
جارہا تھا۔جی ہاں، اس وقت ہی کسی سطح پر یہ فیصلہ کیا جاچکا تھا کہ قونصل
خانہ کے قرب و جوار سے تمام اہم تنصیبات اور دفاتر منتقل کردئیے جائیں گے
تاکہ امریکی قونصل خانہ کے راستے ہمیشہ صاف رہیں۔بلاول ہاﺅس کو بھی اسی وقت
کلفٹن کراچی سے منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا اور بعد ازاں اسے میوزیم
کا درجہ دینے پر اتفاق کیا گیا۔
انتخابات کے قریب یا پہلی جمہوری حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے موقع
پر پیپلز پارٹی کے مرکزی دفتر بلاول ہاﺅس کی منتقلی بظاہر پارٹی کا دائرہ
پنجاب میں مزید مستحکم کرنا اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کا گراف گرانا
ہے لیکن اطلاعات کے مطابق عالمی قوتوں کی خواہشات بھی اس سارے معاملے کے
پشت پر ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس موقع پر کراچی سے
منتقل ہورہی ہے جب پہلے ہی سے پیپلز پارٹی کا گڑھ لیاری اس سے ناراض
ہے۔ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کو مستقبل قریب نہ صرف کراچی بلکہ سندھ سے
بھی ہدف کے مطابق نشستیں ملنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گی۔ |