ان دنوں فلسطینی صدر محمود عباس
پاکستان کے دورے پر ہیں۔ اتوار کی صبح جب فلسطینی صدر محمود عباس اسلام
آباد میں نور خان ائر بیس پر اترے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔پاک فوج
کے چاق و چوبند دستوں نے فلسطینی صدر کو سلامی دی۔صدر زرداری نے فلسطینی
صدر کے استقبال کے لیے آنے والے اپنے وفد کے ارکان سے ان کا تعارف کرایا۔
فلسطینی صدر نے اپنے وفد کے ارکان سے صدر کا تعارف کرایا۔ بعد میں دونوں
صدور نے فلسطینی سفارتخانہ کی بنیاد کی نقاب کشائی کی۔ حکومت پاکستان نے
اسلام آباد میں فلسطینی سفارتخانے کی تعمیر کے لیے دس لاکھ ڈالر دینے کی
پیشکش بھی کی۔ پاکستان اور فلسطین نے سیاسی تعاون کا دائرہ معیشت، زراعت،
بینکاری، تعلیم اور سماجی اور ثقافتی شعبوں تک بڑھانے کے لیے دونوں ممالک
کے وزراءخارجہ پر مشتمل مشترکہ کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔ محمود عباس
کااقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کو نان ممبر آبزور اسٹیٹ کا درجہ ملنے کے
بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے اور مجموعی طور پر پاکستان کا تیسرا دورہ
ہے۔ اس سے قبل فلسطینی صدر نے دوہزار پانچ اور دو ہزار نو میں پاکستان کا
دورہ کیا تھا۔
ایوان صدر میں فلسطین کے صدر محمود عباس کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا جس
میں متعدد اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی۔ ظہرانے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام
کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا
کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام کو ان کے حق خودارادیت سے مسلسل انکار
کے سبب مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے خطوں میں عدم استحکام کا خطرہ موجود
ہے۔ پاکستان فلسطینی کاز کے لیے ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرتا رہے گا جس
طرح اس نے جنرل اسمبلی کے 67 ویں اجلاس میں کیا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی
مکمل رکنیت کے لیے بھی پاکستان کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔ انہوں نے اقوام
متحدہ میں فلسطین کو غیر رکن مبصر ملک کا درجہ ملنے پر مسرت کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ پاکستان نے اس عمل میں اہم کردار ادا کیا جس سے فلسطینیوں کے
حقوق کا اعتراف ہوا۔ فلسطین کی مبصر کی رکنیت میں پاکستان کا اہم کردار تھا
،فلسطین جلد اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرے گا،ہمیشہ فلسطینی عوام کا
ساتھ دیں گے۔
فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے میں اسرائیل کے منفی ردعمل پر افسوس
کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے عالمی حقوق کی خلاف ورزی کی
ہے، انسانی حقوق اور انصاف کے چیمپئن محض تماشا دیکھتے رہے۔ اسرائیل کی
جانب سے بین الاقوامی قانون کو تسلیم نہ کرنا عالمی برادری کے منہ پر
طمانچہ ہے۔ پاکستان مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر
کی شدید مذمت کرتا ہے۔ عالمی برادری جنوبی اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کی
جانب نئی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیل کو روکے۔ اگر ان بستیوں کی تعمیر جاری
رہی تو دو ریاستی حل کو شدید نقصان پہنچے گا۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے
لوگوں کو ان کے ناقابل تردید حق خودارادیت نہ دینے کے سبب مشرق وسطیٰ اور
جنوبی ایشیاءکے خطوں میں عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ دونوں تنازعات کو حل کرنے
کے لیے عالمی اتفاق رائے کو حاصل کریں۔ پاکستان اور فلسطین کے درمیان گہرے
قریبی اور تاریخی تعلقات ہیں جن کی بنیاد دونوں ممالک کے عوام کے دلی جذبات
پر قائم ہے۔ پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں کے دکھ میں شریک ہے۔ پاکستان کا
قیام مسلمانوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، جلد الگ ملک کے لیے فلسطین کا خواب
بھی پورا ہو گا۔ 18 کروڑ پاکستانی اسرائیل کے غیر قانونی قبضہ کے خلاف ان
کے ساتھ ہیں اور پاکستان حق خودارادیت کے حصول تک فلسطینی عوام کا ساتھ دے
گا۔فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی پاکستانیوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہی ہے۔
فلسطینی عوام گزشتہ 65 برس سے فلسطین کی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
اسرائیل فلسطینیوں کی آزادی کو کچلنے کے لیے جو بھی اقدامات کر رہا ہے
پاکستان اس کی مخالفت کرتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی بھائیوں کے موقف
کی حمایت کی ہے۔ پاکستان اور پی ایل او کا ہمیشہ سے ایک گہرا تعلق رہا ہے۔
پاکستانی فلسطینی بھائیوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں کیونکہ خود پاکستانیوں
نے آزادی کے حصول کے لیے بڑی تکالیف برداشت کی ہیں۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں
کو حق خود ارادیت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب برصغیر کے
مسلمانوں کی طرح فلسطینی بھی آزادی حاصل کرلیں گے۔ پاکستانی عوام فلسطینی
بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اور استعمار سے
فلسطینی مسلمانوں کو آزادی ملے گی۔ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے
اقدامات کرے۔ اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی لمحہ
فکریہ ہے۔ 1974ءمیں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں
بھی فلسطین کو آزاد مملکت کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس فروری
1974ءمیں منعقد ہوئی تھی اور آج فلسطینی صدر فروری میں پاکستان کے دورے پر
آئے ہیں۔
فلسطینی عوام بہت ہی بہادر اورجی دار ہیں، اسرائیل کی تمام تر زیادتیوں اور
جبر کے باوجود فلسطینی عوام اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے
ہیں۔صدر محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرکے وہاں کے عوام
کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ اسرائیلی فلسطینیوں کی زمین پر غیر قانونی
تعمیرات کر رہا ہے اس کی کوشش ہے کہ مقبوضہ بےت المقدس کا نقشہ تبدیل کر
دے۔ فلسطین 65 سال سے آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے اور جدوجہد آزادی اور
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی تک لڑتا رہے گا۔پاکستان کے عوام
اور فلسطین کے عوام کے درمیان محبت اور اخوت کا رشتہ ہمیشہ سے قائم ہے اور
قائم رہے گا۔ پاکستان کے اصولی مو قف اور مخلصانہ عزم پر فلسطینی عوام اور
حکومت کی جانب سے دلی تشکر کا اظہار کیا۔ عالمی فورموں پر فلسطین کے لیے
پاکستان کی حمایت کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین آزادی کے
اپنے حق کے لیے کام کرتا رہے گا۔ فلسطینی عوام غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمہ
اور بیت المقدس کی ہیئت میں تبدیلی کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ اسرائیلی
حکومت کو غیر قانونی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینی علاقوں کا غیر قانونی
قبضہ جاری رکھنے اور دیرپا امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ انہوں
نے پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لیے دعا کی اور اس امید کا اظہار کیا
کہ وہ صدر آصف زرداری کا فلسطین میں خیرمقدم کریں، جہاں دونوں صدور مسجد
اقصیٰ میں اکٹھے نماز ادا کریں گے۔ صدر محمود عباس نے قبلہ اول کا ذکر کرتے
ہوئے قرآن کریم کے پندرہویں پارے کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی جن کا مفہوم
ہے ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ
تک۔“فلسطینی صدر کا دورہ پاکستان اور پاکستانی صدر کا ان کا ساتھ دینے کا
عہد کرنا یقیناً بہت خوش آئند بات ہے۔فلسطینی عوام ایک لمبے عرصے سے
اسرائیل کے جبر تشدد کو برداشت کررہے ہیں، اس کے باوجود اپنے حق کے حصول کے
لیے کمر بستہ ہیں، فلسطین کے بچے بھی اسرائیل کے گولا ،بارود سے کبھی نہیں
ڈرے۔اپنی استقامت اورہمت کی بدولت ایک دن ضرور وہ یہود مردود کو صفحہ ہستی
سے مٹا دیں گے، انشاءاللہ۔ |