عوام کی حفاظت پر سیاست نہیں

کراچی بد امنی کیس کی مسلسل سماعت اور اس سے پہلے ایک فیصلہ آنے کے بعد بھی سیکوریٹی بنام عام آدمی کی سیکوریٹی پر نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے ۔ وی وی آئی پی سیکوریٹی کے بہانے پولیس اور ایف سی دستوں کے اہلکاروں اسٹیٹس سیمبل کے لئے استعمال کرنے کا رجحان گزشتہ کئی برسوں سے جاری و ساری ہے۔ اس پر ملک کی اکثر عدالتیں اور دانشور طبقہ تنقید کرتا رہا ہے لیکن گذشتہ دنوں کراچی بد امنی کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے سخت لہجہ کا استعمال کیا اور جس دو ٹوک انداز میں اس معاملہ میں اپنی ناراضگی ظاہر کی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری حکومتوں کو بھلے ہی ملک کے دیگر عام شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا نہ ہو لیکن عدلیہ عام آدمی کے تحفط کے تعلق سے فکر مند ضرور ہے۔اور یوں عوام میں اتنی تو پذیرائی ہوئی کہ کوئی ادارہ تو عوام کے لئے سوچ و فکر رکھتا ہے۔ مگر تاحال مسئلہ جوں کا توں ہے۔ عام آدمی روزانہ ہی ٹارگٹ ہو رہا ہے ۔ روزانہ ہی اسی ریشو سے لاشیں گر رہی ہیں،
جہاں تک کراچی کے نظم و نسق کی صورتحال کا تعلق ہے تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کراچی میں خواتین، بچے اور بوڑھے ہی نہیں بلکہ تمام عام شہری بھی احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ پاکستان جیسے بڑے اور ترقی پذیر ملک کے دارالخلافہ کو اب عام لوگوں کے لئے عملی اقدامات کرنے کا وقت آن پہنچا ہے مگر پتہ نہیں کیوں اس معاملے میں سبھی خاموش تماشائی کا کردار کیوں ادا کر رہے ہیں۔ ایک موقع تو کراچی میں ایسا بھی آ چکا ہے کہ جب شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا گیا مگر اس وقت بھی کوئی سخت ایکشن حکومت کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس معاملے میں حکومت کیوں خاموش ہے یہ تو وہی بتا سکتی ہے مگر سوال یہ بنتا ہے کہ حکومت شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں کیوں کمزور دکھائی دے رہی ہے؟ کیا وہ شہر میں امن کی خواہاں نہیں ہے۔کیا وہ شہریوں کو امن و سکون کی زندگی دینے میں کسمپرسی سے کام لے رہی ہے۔ کیا صرف زبانی جمہوریت کے دعوے ٰ کئے جاتے ہیں ، کیا لوگوں کے گھروں میں لاشیں پہنچنا ہی جمہوریت ہے۔ یہ تمام سوالات آج خود ایک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ظاہر ہے کہ قانون کے محافظوں اور امن کے رکھوالوں کی ناک کے نیچے جب جرائم پیشہ افراد کے حوصلے اس قدر بلند ہیں تو ملک کے دور دراز اور دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ جہاں میڈیا کی بھی بہت گہری نگاہ نہیں ہے۔

اب جب ایسے حالات میں تاجر برادری بھی محفوظ نہیں ہیں تو مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف اداروں کی جانب سے احتجاجی ریلی اور دھرنے کا پروگرام ہوتا ہے تو سیکوریٹی اداروں کی جانب سے عوام پر ہی لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں، واٹر کینن کا استعمال کیا جاتا ہے، آنسو گیس کے شیل برسائے جاتے ہیں۔ یعنی کہ ہر طرف سے عوام ہی زخم خوردہ نظر آتے ہیں۔ یعنی کہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کی حفاظت کے نام پر سیاست ہی ہو رہی ہے۔
کھا کر پولیس کی لاٹھیاں بھاگے تھے خود ہی لوگ
سرکار کی طرف سے تو کوئی کمی نہ تھی
زخمی کئی، ہلاک کئی ہو گئے مگر
افسر کے اور وزیر کے دل مین نمی نہ تھی

کراچی کے موجودہ حالات میں ہلاکتوں کی مذکورہ اعداد و شمار اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ حکومت کی نگاہ میں عام آدمی کی حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس اور مربوط پروگرام نہیں ہے بلکہ کچھ نام نہاد اہم شخصیات کا تحفظ زیادہ اہم ہے۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ تمام وی آئی پی کو دی گئی سیکوریٹی غلطت ہے، لیکن ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو صرف سیمبل اسٹیٹس کے طور پر اپنے ساتھ پولیس گارڈ رکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی سرکاری خرچ پر۔ اس صورتحال نے عام آدمی خصوصاً چھوٹے بچوں اور خواتین کو بھی عدم تحفظ و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

آج ہمارے ملک کو آزاد ہوئے پینسٹھ برس بیت گئے ہیں مگر آج بھی ہم لوگوں کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے محض نعرے ہی دیئے جا رہے ہیں ۔ پینسٹھ سالوں میں مارشل لاءسے بچے کُھچے سالوں میں ہمارے یہاں جمہوریت پروان چڑھی مگر اس میں بھی ہمیں سیاست ہی نظر آتی ہے ۔ سیاستدان محض سیاسی نعرہ ہی عوام کو دیتے ہیں عملی طور پر عوام کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا۔ بظاہر حکومت عوام کے ووٹوں سے بنتی ہے مگر بننے کے بعد عوام کی داد رسی نہیں کی جاتی بلکہ انہیں زندگی کی بنیادی ضروری سہولتیں بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ اور اب تو حد یہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے بھی نکلتے ہوئے ڈرتے ہیںکہ پتہ نہیں کب کہاں کیا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم مختلف بحرانوں، چیلنجز اور مسائل میں گھرے ہوئے ہیں مگر آج بھی مختلف سیاسی جماعتیں سب اچھا ہے کہ نعرہ لگاتی ہوئی نظر آتیں ہیں۔ اور کچھ مستقبل کی سنہرے سپنے دکھا رہے ہیں۔ ایسے سپنے جن کو اقتدار میں آنے کے بعد بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔ معیشت کے علمبرداروں نے ملکی معیشت کا جو نقشہ مختلف اوقات میں کھینچا ہے اس سے کیا ایسا لگتا ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت برسرِ اقتدار آئے گی وہ عوام کی بہتری کے لئے کچھ کر پائے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ سیٹ سے دوری پر ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں مگر جب سیٹ پر بیٹھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کانٹوں کی سیج ہے۔ اور سیٹ کے اندرونی حالات کیسے ہیں۔

ہمارے صاحبِ سیاست لوگ کب اس ملک میں ایسے حالات پیدا کر پائیں گے کہ ایک عام آدمی بھی محفوظ ہو اور اقربا پروری، کرپشن کا بازار بھی ٹھنڈا ہو جائے۔ نوکریاں میرٹ پر میسر آنے لگیں اور غریب کو تین وقت کی روٹی بھی میسر آنے لگیں۔ سندھ اسمبلی نے بچوں کی مفت تعلیم کے حق کا قانون اتفاقِ رائے سے منظور تو کر لیا ہے مگر کیا اس پر عملی جامہ بھی پہنایا جا سکے گا۔ بلاشبہ یہ بل ترقی و خوشحالی اور وقار کی سمت اہم پیشِ رفت ہے مگر اب حکومت تبدیل ہونے کو ہے اور دوسری حکومت آنے کو ہے کیا دوسری حکومت پچھلی حکومت کے کام کو آگے بڑھا پائیں گے۔ یہاں تو یہی ہوتا رہا ہے کہ پچھلی حکومتوں کا شروع کیا گیا کام نئی حکومت بند کرا دیتی ہے اور اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو تی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کیئر ٹیکر حکومت اور اس کے بعد بننے والی نئی حکومت عوام کو بنیادی ضرورتیں فراہم کر پائیں گے یا امن و امان جیسی صورتحال اور عام آدمی کو تحفظ دے پائیں گے۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ اور خدا سے دعا کہ سب ٹھیک ہو جائے۔

امن و امان کی گرتی ہوئی ساکھ سمیت اور دوسرے دیگر مسائل کے معاملہ میں عدلیہ کا رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حکومت اور پولیس کی کارکردگی سے کافی خفا ہے اور عام آدمی کے تحفظ اور سلامتی کے تعلق سے فکر مند بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کی حفاظت کے سوال پر سیاست کرنے والے کیا عدالتوں کی اس مسلسل سرزنش اور سخت رویہ کے باوجود عام آدمی کی حفاظت کا اپنا قانونی اور آئینی فرض نبھائیں گے؟
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.