اب گلی میں سبزی بیچنے والا اگر
آواز لگائے کہ آلو،گوبی،بیگن،گاجر ،پالک لے لو تو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ
بھی حکمرانوں کی آواز بول رہا ہے اور سبزی کی بجائے جمہوریت فروخت کررہا ہے
،لیکن بدقسمتی سے جمہوریت فروخت کرنے والوں کے بچے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم
حاصل کرتے ہیں اور سبزی فروخت کرنے والوں کے بچے کسی ہوٹل یا ورکشاپ پر
مزدوری کرتے ہیں ۔ آج میرے وطن کے کسی ایک ادارے میں بھی جمہوریت کا وجود
محسوس نہیں ہوتا لیکن جمہوریت کا بازار گرم ہے ،ہرطرف جمہوریت کی ریل پیل
ہے ۔آخر یہ نام نہاد جمہوریت ہے کس مرض کی دوا؟انسان کو زندگی گزارنے کے
لیے جن اہم چیزوں کی ضرورت ہے ان میں جمہوریت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے
جمہوریت ہو یا آمریت انسان کو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے با
عزت روزگار کی ضرورت ہوتی ہے ۔باعزت روزگار یعنی بھیک مانگے بغیرْاپنی
ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی آبروکومحفوظ رکھتے ہوئے ۔ایسی مزدوری جو مزدور اور
اس کے خاندان کا پیٹ پال سکے ۔لیکن جس دور میں انسان کی کوئی قیمت نہ ہووہ
دورجمہوری ہو یا آمرانہ ہو کچھ فرق نہیں ۔کچھ ایسی جمہوریت اس وقت وطن عزیز
میں بھی رائج ہے ۔مسائل گننے کا وقت بھی اب ختم ہو چکا اب تو اگر کوئی
بہتری باقی ہے تو اس کی بات ہونی چاہیے ۔غریب عوام تو پچھلے 65برس سے
مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ آج کل عام آدمی کی مشکلات میں کمی کی بجائے ان
میں اور بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔عام عوام کی مشکلات کیا ہیں ۔روز بروز
بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بد امنی،بے روز گاری،وسائل کم ہونے کی وجہ سے صحت
وتعلیم کے حصول سے دوری،بجلی و گیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ جس کی وجہ سے
بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔مہنگائی کی اس وادی میں 2ہی چیزیں
عام اور مفت کی حد تک سستی ہیں ۔آپ جاننا چاہیں گے کہ کون کون سی ہیں وہ
2چیزیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہیں جمہوریت اور غریب کی جان ان دونوں
کی کوئی قیمت نہیں باقی تو دورجدید میں سانس لینے کے لیے آکسیجن بھی مفت
نہیں ملتی۔عام آ دمی کی زندگی میں اس کے علاوہ بھی بہت سی مشکلات ہیں ۔افسوس
کہ جن کو عوام کی مشکلات کاحل نکا لنا تھا وہ سب مل کر جمہوریت بچانے کی
جنگ لڑرہے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاست دان پچھلے 65سال سے
جمہوریت کا رونا رو رہے ہیں لیکن عوام نہیں جانتے کہ جمہو ریت کس چڑیا کا
نام ہے ۔قارئین آپ ابھی اپنے قریبی بازار چلے جائیں اورلوگوں سے سوال کریں
کے جمہوریت کیا چیز ہے ۔جمہوریت کا کیا مطلب ہے۔تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا
کہ سومیں سے دو یا چار لوگ ہی جمہوریت کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں باقی کو
جمہوریت کے بارے میں کچھ علم نہیں یہ بات اتنی حیران کن بھی نہیں جب لوگوں
کو دن رات محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے دو
وقت کا کھانا دستیاب نہ ہو ۔جب مائیں اپنے بچوں کو اسکول کی بجائے صرف اس
لیے کسی ہوٹل یا ورکشاپ میں ڈال دیں کہ ان کے بچوں کووہاں دووقت کا کھانا
مل جائے گا اور ان کے بچے بھوک سے تڑپ ترپ کر مرنے سے بچ جائیں گے ۔تب
لوگوں کا دماغی توازن درست نہیں رہتا لوگ پاگل ہوجاتے ہیں ۔اورپاگلو ں کو
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان کے ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت ان کوتو اچھے
معالج کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے سے اچھا معالج بھی تب تک کسی مریض کا علاج
نہیں کرسکتا جب تک مریض کے پیٹ میں اچھی غذا نہ جائے ۔آج کی سائنس بھی یہی
کہتی ہے کہ جب انسان کے جسم کو پوری غذایت دستیاب نہ ہو تو انسان کا جسم
اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے ۔بڑے ہی دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج
میری قوم کاحال بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔ایسے میں قوم کو کسی نئے حکمران کی
نہیں بلکہ کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔اس کا تعلق چاہے کسی جمہوری پارٹی سے ہو
یا نہ ہو۔حکمران کہتے ہیں عالمی ماحول کچھ سازگار نہیں ہیں ۔جمہوریت کوپٹری
سے کسی صورت نہیں اترنے دیں گے۔جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔عام آدمی
کوحکمرانوں کی کسی بات سے کچھ لینا دینا نہیں اسے تو روٹی ،کپڑا
اورسرچھپانے کے لیے چھت چاہیے۔اُسے تو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور بہتر
مستقبل کے لیے بہتر روزگار کی ضرورت ہے ۔جو بے روزگار ہے ،جوبھوکا ہے،جس کے
تن پرکپڑے نہیں ۔جس کے بچے صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،جس
کے بوڑھے والدین کی آنکھیں خراب ہیں اوروہ دس سالوں سے 20۔25 ہزار روپے جمع
کرکے ان کا آپریشن نہیں کروا سکا،جس کی جوان بیٹیاں غربت کی وجہ سے گھر
بیٹھی بوڑھی ہورہی ہوں ،جس کے پاس اپنی بیٹیوں کو جہیز دینے کے لیے کچھ نہ
ہوں ،جس نے اپنے بچوں کو اپنا خون بیچ کر پڑھایا ہواور وہ نوکری کی تلاش
میں دھکے کھاتے پھررہے ہوں،وہ جوسارا دن مزدورں کے اڈے پر بیٹھ کر رات کو
کھالی ہاتھ گھر لوٹتاہو، وہ جو مزدوری مانگنے جائے تو لوگ اُسے بیکاری سمجھ
کر کہیں معاف کروبابا،جس کی قوت خرید سے سبزی،دال ،آٹا،دودھ،پھل،گھی،مرچ ،نمک
اور دیگر روز مرہ کی ضروریات زندگی باہر ہوں،مختصر کہ ہر طرح کی محرومیاں
اُس کے دامن میں ہوں اور وہ پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالامال ملک کا
شہری ہو، حکمرانوں وہ کیا کرے تمہاری جمہوریت کا؟جمہوریت عام آدمی کے درد
کی دوا نہیں عام آدمی کی ضروریات میں سے کوئی ایک بھی پوری نہیں کرتی یہ
جمہوریت ۔آج ہر پاکستانی کہہ رہا ہے۔حکمرانوں خُدارااپنی جمہوریت لے لو
باعزت روزگار دے دو،جمہوریت لے لو بجلی دے دو،جمہوریت لے لو گیس دے
دو،جمہوریت لے لو جینے کاحق دے دو،جمہوریت لے لوامن وامان دے دو،جمہوریت لے
لوانصاف دے دو،اپنی جمہوریت لے لو یاپھر ہماری سانسیں بھی لے لو۔جبکہ سیاست
دان آواز لگا رہے ہیں کہ عزت دے دوجمہوریت لے لو،غیرت دے دوجمہوریت لے
لو،رہی سہی سانسیں دے دو جمہوریت لے لو۔ہر سیاست دان کے پاس اپنی علیحدہ
رنگ برنگی جمہوریت ہے ۔آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ جمہوریت توبہت اچھی ہوتی
ہے لیکن ہم وطنوں آؤ مل کر
ایسی جمہوریت کو وطن سے نکال دیں
جس جمہوریت میں جمہوریت نہیں |