صاحب !یاسین ملک کو معاف رکھیے

افضل گورو کی اچانک پھانسی کے بعدوادی میں شدید خلفشار ہے۔بھارت سرکار نے کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کے لیے کئی دن سے کرفیو لگا رکھا ہے۔ادھر کچھ سوجھ بوجھ والے لوگ افضل گورو کے مقدمے میں قانونی تقاضوں کی عدم تکمیل کی بات بھی کر رہے ہیں۔یہ رائے بھی زیرِ گردش ہے کہ بھارت سرکار نے اس پھانسی کو اپوزیشن کے خلاف تُرپ کے پتّے کے طور پر استعمال کیا ہے۔اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ چند دن اُدھر بھارتی وزیرِ داخلہ سشیل کمار شندے نے بی جے پی اور آرایس ایس کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات کر کہ ماحول کو گرما دیا تھا۔یہ پھانسی اس اشتعال کو کم کرنے کے لیے عمل میں لائی گئی۔صورتحال کی گمبھیرتا میں اس وقت اضافہ ہوا جب گورو کے اہلِ خانہ کو اطلاع دیے بغیر اُسے سولی پرلٹکا دیا گیا۔حالانکہ قانونی اور اخلاقی طور پر انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے اہل ِ خانہ سے ملاقات کا انتظام کرتے ۔لیکن ــ ایسا دانستہ طور پر نہیں کیا گیا۔29 برس پہلے اسی تہاڑ جیل میں کشمیریوں کے مقبول راہ نما محمد مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ان کی لاش بھی جیل ہی میں دفن کی گئی۔سب کچھ تلپٹ کر دینے والے ریاستی احتجاج کا خوف پیشِ نظر تھا۔زیادہ تو نہیں پر اتنا معلوم ہے کہ تہاڑ جیل کا تصور ہر کشمیری کے ذہن میں نفرت اور بغاوت کے جذبات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔افضل گورو کوئی راہ نما تو نہیں تھا۔وہ ایک عام آدمی تھا۔لیکن اس کی گرفتاری اور ٹرائل کا مبہم عمل گورو کے لیے خود بھارت میں بے شمار ہمدرد یوں کا باعث بنا ہے۔ارون دھتی رائے سمیت کئی ایک دانش وروں نے اس فیصلے پر تکنیکی جہات سے سوالات اُٹھائے ہیں۔بعض نے تو کھل کر اسے عدالتی قتل قرار دے دیا۔خیر جو بھی ہو کشمیریوں کے لیے شاید یہ معاملہ مہمیز کا کام دے۔

انڈیا کے اخبارات دیکھے تو معلوم ہوا کی افضل گورو کی اچانک پھانسی کے بعد یاسین ملک اب ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں۔یاد رہے کہ جے کے ایل ایف کے چیئر مین یاسین ملک کچھ عرصے سے پاکستان میں ہیں۔افضل گورو کی پھانسی اور جیل میں پر اسرار تدفین کے خلاف احتجاج یاسین ملک کا جمہوری تھا۔جو انہوں نے استعمال کیا۔اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے چوبیس گھنٹے تک دھر نا دیے رکھا۔مطالبہ یہ تھا کہ افضل گورو کی میٹ ان کے ورثاء کے حوالے کی جائے۔یاسین ملک کے احتجاجی خیمے میں اظہارِ یکجہتی کے لیے ہر طرح کے لوگ آئے۔اب اس صورت ِ حال میں ایسی چھلنی لگانا قرینِ عقل نہیں تھا کہ مخصوص لوگوں ہی کو رسائی دی جائے ۔یاسین ملک کے احتجاجی کیمپ میں جزوی شرکت کرنے والوں میں ملک کی چیدہ چیدہ شخصیات شامل تھیں۔بھارت میں یاسین ملک کے خلاف اشتعال اس وقت شدید ہوا جب وہ تصویر میڈیا پر آئی جس میں حافظ سعید یاسین ملک کے کیمپ میں بیٹھے دیکھے گئے۔حافظ سعید کو انڈیا کے مقتدر حلقوں نے 26/11 کے ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کرپاکستان سے ان کی حوالگی کامطالبہ کیا تھا۔جواب میں حوالگی کو ثبوتوں کے ساتھ مشروط کیا گیا۔بات جو بھی ہو حافظ سعید انڈیا کے خیال میں ان کے مطلوب مجرم ہیں۔ان کی یاسین ملک کے کیمپ میں آمدسفارتی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھی۔خیر جو ہونا تھا ہو گیا۔دکھ اس بات کا ہے کہ بھارت کے خرد مند سمجھے جانے والے بہت سے لوگ بھی اس یاسین ملک کے خلاف بطورِ تیر کے استعمال کر رہے ہیں۔یاسین ملک کا پاسپورٹ بھی منسوخ کیے جانے کی تحریک کی اطلاعات ہیں۔ادھر بی جے پی اور شیو سینا تو کچھ کر گزرنے پر تُلی بیٹھی ہیں۔

سب جانتے ہیں یاسین ملک اورحافظ سعید میں فکر کے اعتبار سے بعدُالمشرقین ہے۔کشمیر کی تحریک کے حوالے سے حافظ سعیدالگ اندازِ سے سوچتے ہیں ۔جب کہ یاسین ملک کا تحریکی نظریہ اور طریقہ کاردوسرا ہے۔وہ سب سے پہلے کشمیر کی آزادی کو دیکھتا ہے۔الحاق کے قضیۓ کو آزادی کے بعد کا معاملہ سمجھتا ہے۔یاسین ملک کا نظریاتی کعبہ تہاڑ جیل کے احاطے میں دفن شہید محمد مقبول بٹ ہے۔کہا جاتا ہے مقبول بٹ کا پہلا اور آخری عشق اس کا وطن کشمیر تھا۔اس کشمیری لیڈر کی زندگی بھی جیلوں ، ہتھ کڑیوں،عقوبت خانوں کی درد ناک داستانوں سے بھری پڑی ہے۔وہ غیروں کی کج ادائی کا شکار تو تھا ہی مگر ’’اپنوں‘‘ نے بھی اُسے گہرے گھاؤ دیے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ لیڈر’’غدّارِ مطلق‘‘ قرار دے دیا گیا۔خیر چھوڑیے یہ الگ داستان ہے۔بات یاسین ملک کی ہو رہی ہے۔تو جناب! انڈین پرنٹ والیکٹرانک میڈیا صرف ایک تصویر کی بنیاد پر منفی تبصروں کی منڈیاں لگائے بیٹھا ہے۔اگر نازک طبع پر گراں نہ ہو توآزادیٔ اظہار رائے کے علم بردار سیکیو لر ملک سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ سوامی اسیمانند نامی(حال ہی میں بھارتی وزیر داخلہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم آر ایس ایس کا بانی) آدمی کی تصاویر جو نریندر مودی کے ساتھ ہیں(مؤخر الذکر کو سیاسی شخصیت مانا جاتا ہے۔کلام مگر دونوں میں ہے)۔ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔؟فرازؔ یاد آئے ۔
کیا توقع کریں زمانے کی
ہو بھی گر جرأتِ سوال ہمیں

یہ شخص مکّہ مسجد بم حملے،سمجھوتہ ایکسپریس حملے۔اجمیر شریف ایسے ہائی پروفائل بم حملوں جیسے جرائم کے مرتکب رہا ہے۔صرف ایک تصویر کی بنیاد پر’’ڈائز شیئر‘‘ ہو جانے کا واویلا مچانے والوں کو انڈیا میں ہر اس ڈائز شئیرنگ پر اُنگلی اُٹھانی چاہیے جس میں ہندو انتہا پسند جتھّوں کے لیڈر دوسرے سیاسی ارکان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ایسا وہاں کثرت سے ہوتا ہے۔

اطلاع ہے بھارت کی ایک عدالت پردیپ شرما نامی شخص نے یاسین ملک کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ ملک کا اس پر کیا کہنا ہے بہر حال مقبول بٹ کے ساتھ جب ایسا ہوا تھا تو اس نے ایک تا ریخی جملہ کہا کہ ’’مجھے اپنی سر زمین پر چلنے کے لیے کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔‘‘ہاں سوشل میڈیا پر یاسین ملک کی ایک تصویر( جس میں اس کی آنکھوں میں تیرتا پانی واضح دیکھا جا سکتا ہے ) کے ساتھ یہ وضاحت موجود ہے۔ ''I AM NOT AN INDIAN CITIZEN.I TAKE YOUR PASSORT BECAUSE YOU DO NOT ALLOW ME TO HAVE MY
OWN .DEFAMING ME WITH NEVER CLEAN YOUR INHUMAN AND UNLAWFUL ACTS''

یاسین ملک وہ واحد لیڈر ہے جس کی ساری اسکولنگ ہی جیلوں اور ہتھ کڑیوں میں ہوئی ہے۔کب ہوئے دل تنگ ہم زنداں میں رہ کر بھی فرازؔ۔

اب کی بار نہ جانے کیوں اس کے چہرے پر مایوسی کی ہلکی ہلکی پر چھائیں دیکھنے کو ملیں۔مظفرآباد میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ’’شاید یہ مظفرآباد میں میری آخری تقریر ہو۔شاید میرا مظفرآباد کا یہ وزٹ بھی آخری وزٹ ہو۔جیل ہم کشمیریوں کا دوسرا گھر ہے۔جس طرح جرمنی میں دیواریں گر گئیں اسی طرح یہاں بھی مصنوعی سرحدوں کو گرنا ہے۔جس سر زمین پر معصوم کا خون گرے گا۔اﷲ اس کو ضائع نہیں کرے گا۔ان شاء اﷲ آر پار کشمیر کو ایک ہوناہے۔ہماری زمین ایک ہے۔ ہمارا آسمان ایک ہے ۔اسے پھرسے ایک ہونا ہے‘‘۔

یاسین ملک نے آزادکشمیر کے لوگوں سے کہاکہ جب بھی وادی میں کوئی غیر معمولی صورتِ حال پیش آئی تو آپ ہی کو آواز بلند کرنا ہو گی۔دنیا کے سفارتی حلقے آپ ہی کی صدا پر خود آئیں گے۔جو لوگ مقبوضہ کشمیر سے مہاجر ہو کر آئے ہیں اور یہاں کیمپوں میں مقیم ہیں ۔میں انھیں مایوس دیکھ رہا ہوں۔ان کی ذمہ داری آزاد کشمیر کی حکومت پر ہے۔یاسین ملک کو کون بتائے کہ آزادکشمیر کی حکومت کی کیا پوزیشن ہے۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں عوامی جذبات سے قریب تر لیڈر یاسین ملک ہی ہیں۔اگر انہیں خدا نخواستہ جیل میں ڈال دیا گیا توکاز کو فلشنگ پوائنٹ کے طور پر برقراررکھنے کے لیے کسی مدبّر لیڈر کی ضرورت ہو گی جو فی الوقت دستیاب نہیں۔ آزادکشمیر کی قیادت کو حالات سے قبل ہی ذہنی طور پر تیا ر رہنا چاہیے۔علی گیلانی گو کہ بڑے لیڈر ہیں لیکن گذشتہ تین سالوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ راہنمائی نوجوان قیادت سے لینے لگے ہیں جبکہ گیلانی صاحب کا احترام کرتے ہیں۔

آخر میں بھارت کے مشتعل دوستوں سے عرض ہے کہ یاسین ملک کو اپنے مخصوص رنگوں کی عینکیں اتار کر دیکھیں۔یاسین ملک کی یہ تردید بھی آن دی ریکارڈ آچکی ہے کہ انہوں نے حافظ سعید سمیت کسی شخص کو بھی اپنے احتجاجی کیمپ میں آنے کی از خود دعوت نہیں دی۔سب لوگ از خود آئے ہیں۔فی الوقت کشمیر کے باشندوں کے لیے مسیحا وہی ہے ۔صاحب!انصاف سے سوچیۓ اور یاسین ملک کو معاف رکھیے۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 24230 views Reading and Writing... View More