خود مختاری یا الحاق ۔۔۔۔؟

حضرت محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں ایک دن حضرت عمر بن خطابؓ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے ایک کھردرا کُرتا پہننے لگے۔ جونہی وہ کُرتا ہنسلی کی ہڈی سے نیچے ہوا تو اُنہوں نے فوراً ایک دعا پڑھی۔ پھرلوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے یہ دعا کیوں پڑھی؟ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ آپ بتائیں تو ہمیں پتہ چلے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ایک دن میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھا آپﷺ کے پاس نئے کپڑے لائے گئے جنہیں آپﷺ نے پہنا پھر یہ دعا پڑھی۔ پھر فرمایا اِس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا! جس مسلمان بندے کو اﷲ تعالیٰ نئے کپڑے پہنائیں اور وہ اپنے پرانے کپڑے کسی مسکین مسلمان بندے کو صرف اﷲ کے لئے پہنا دے تو جب تک اس مسکین بندے پر ان کپڑوں کا ایک دھاگہ بھی باقی رہے گا اس وقت تک یہ پہنانے والا اﷲ کی حفاظت ، پناہ اور ضمانت میں رہے گا۔ چاہے زندہ ہو یا مر کر قبر میں پہنچ جائے۔ پھر حضرت عمرؓ نے اپنے کرتے تو پھیلا کر دیکھا تو آستین انگلیوں سے لمبی تھی تو حضرت عبد اﷲؓ سے فرمایا اے میرے بیٹے! ذرا چوڑی چھری لانا وہ کھڑے ہوئے اور چھری لے آئے۔ حجرت عمرؓ نے آستین کو اپنی انگلیوں پر پھیلا کر دیکھا تو جو حصہ انگلیوں سے آگے تھا اِسے اس چھری سے کاٹ دیا۔ ہم نے عرض کیا اے امیر المومنین! کیا ہم کوئی درزی نہ لے آئیں جو آستین کا کنارہ سی دے۔ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ بعد میں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ کی اس آستین کے دھاگے ان کی انگلیوں پر بکھرے ہوئے تھے اور وہ اُنہیں روک نہیں رہے تھے۔

قارئین! کشمیر اِس خطہ ارضی پر موجود وہ سلگتا ہوا داغ ہے کہ جس کی زد میں آ کر 65سالوں میں سات لاکھ سے زائد کشمیری انسان شہید ہو چکے ہیں اور اِس کی بھڑکتی ہوئی آگ کے اندر اب یہ خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ جوہری طاقت کی چنگاریاں شامل ہو کر پوری دنیا کو خاکستر کر سکتی ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کاحل انتہائی آسان ہے جب برصغیر کی تقسیم کا عمل ہو رہا تھا تو اُس وقت معاہدے میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں موجود تمام خودمختار ریاستیں یہ اختیار رکھتی ہیں کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کریں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ اِس ایک فقرے کے اندر آزادی ، خودمختاری سے لے کر وہ تمام سنہرے موتی موجود ہیں جو انسان کی آزادی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کو جان بوجھ کر اُلجھایا گیا ہے اور معذرت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو اُلجھانے میں دشمنوں نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ اُنہوں نے کیا ، دوستوں نے بھی کوئی کمی نہ کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا یہ سٹیٹمنٹ بغیر کسی ریفرنس کے Quote کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتے تھے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اِس کے برعکس بانی نظریہ خودمختار کشمیر و بانی صدر جموں کشمیر محاذ رائے شماری عبد الخالق انصاری ایڈووکیٹ سے راقم نے سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ جب ایک انٹرویو کیا تو اُن کا یہ کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کشمیرکی خودمختاری کے حامی تھے اور وہ دل سے یہ یقین رکھتے تھے کہ مسئلہ کشمیرکا صرف اور صرف ایک حل ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دیا جائے۔ عبد الخالق انصاری ایڈووکیٹ نے اِس تاریخی انٹرویو میں یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی کئی محفلوں میں اُن سے اِس بات پر اتفاق کر چکے تھے کہ کشمیر کے مسئلے کا خودمختاری کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ عبد الخالق انصاری نے یہ بھی بتایا کہ کشمیریوں نے مہاراجہ کے دور میں شخصی غلامی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ورنہ ریاست اُس وقت خودمختار تھی لیکن مطلق العنانیت کی وجہ سے شخصی غلامی کی زنجیریں اِس قدر سخت تھیں کہ ایک عام کشمیری کا جینا دو بھر ہو چکا تھا۔ عبد الخالق انصاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عاقبت نا اندیش پالیسی سازوں نے ناجانے کس کے اشاروں پر کھیلتے ہوئے کشمیر کیس کو اِس حد تک خراب کیا ہے کہ ایک قوم کی آزادی کے مسئلے کو دو ممالک کا سرحدی تنازعہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ عبد الخالق انصاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ سے لے کر ذو الفقار علی بھٹو تک تمام قائدین مسئلہ کشمیر کا حل خودمختاری اس لیے سمجھتے تھے کہ 1947ء سے قبل بھی کشمیری قیادت میں یہ بات واضح تھی کہ اگر کشمیری ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو ریاست کی اکثریتی مسلمان آبادی مضطرب رہے گی اور اگر پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت بنتی ہے تو ہندو سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیت پریشانی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ تھی کہ کشمیر کے مسئلے کو یہ دونوں ممالک اپنی انا کا مسئلہ بنا سکتے ہیں۔ قارئین! اگر غور کیجئے تو گزشتہ65سالوں سے ایسا ہی ہوا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ سے منسوب ایک ایسی بات کو جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی اُس کو اتنی مرتبہ دوہرایا کہ وہ درست لگنے لگی کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہی کام بھارت کے اندر انتہا پسندوں نے کیا کہ ہندوستان میں برسرِ اقتداربظاہر سیکولر جماعت کانگرس سے لے کر انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی تک اپنے سیاسی منشور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے لگے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سات لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ دو جوہری قوتوں کے درمیان کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے اور اس ساری اناء کی جنگ میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیری قوم کا پیدائشی حق حقِ خود ارادیت کہیں پسِ منظر میں چلا گیا ہے۔ بقول ساغر صدیقی
راہ گزر کے چرا غ ہیں ہم لوگ
آپ اپنا سراغ ہیں ہم لوگ
جل رہے ہیں نہ بجھ رہے ہیں دوست
کسی سینے کا داغ ہیں ہم لوگ
خود تہی ہیں مگر پلاتے ہیں
مے کدے کے ایاغ ہیں ہم لوگ
دشمنوں کو بھی دوست کہتے ہیں
کتنے عالی دماغ ہیں ہم لوگ
چشمِ تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں
دامنوں کا فراغ ہیں ہم لوگ
ایک جھونکا نصیب ہے ساغرؔ
اس گلی کا چراغ ہیں ہم لوگ

قارئین!کشمیری قوم کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ مقبول بٹ شہید نے بانی نظریہ خود مختار کشمیر عبد الخالق انصاری ایڈووکیٹ کی قیادت میں جموں وکشمیر محاذ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے جب خود مختاری کی بات کی اور عملی جدوجہد کرتے ہوئے عسکری ونگ قائم کیا اور ایک موقع پر ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے بھارتی گنگا طیارہ اغواء کیا تو پاکستان کے بیوقوف عاقبت نااندیش پالیسی سازوں نے جن کا تعلق عسکری قیادت سے بھی تھا اور سیاسی قیادت سے بھی انہوں نے مقبول بٹ شہید اور اُن کے تمام ساتھیوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا اور خود مختاری کی بات کرنے والوں کو ظلم وستم کانشانہ بنایا۔ دوسری جانب بھارت نے ان لوگوں کوپاکستانی ایجنٹ کہا اور مقبول بٹ شہید سے لے کر ڈاکٹر افضل گورو شہید تک سات لاکھ سے زائد کشمیری آزادی مانگنے کے اسی جرم میں شہید کر دیئے گئے۔

پاکستانی پالیسی سازوں سے ہم یہی گزارش کرتے ہیں کہ پالیسیاں بناتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کے متعلق کچھ تو سوچ لیا کریں۔آج بھی پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خودمختاری کی بات کرنے والوں کو غدار کہتے ہیں۔ حالانکہ بین الاقوامی منظر نامے کو دیکھیں تو عالمی برادری کشمیری قوم کی آزادی کے ایشو کو تو اہمیت دیتی ہے لیکن دو ممالک کے سرحدی تنازعے کو ذرا برابر وقعت نہیں دیتی۔

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے
’’جج نے ملزم سے کہا ۔ سزا دینے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ بتائیں کہ آپ عدالت کے سامنے کچھ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔‘‘
ملزم نے معصوم سا چہرہ بنا کر کہا۔
’’نہیں حضور اب میں کچھ بھی پیش نہیں کر سکتا جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب کا سب میں وکیل صاحب کی نذر کرچکا ہوں۔‘‘

قارئین!پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے اور بڑا بھائی بھی ہے۔ کشمیری اگر آزادی حاصل کرنے کے لیے سات لاکھ جانیں قربان کر چکے ہیں تو وکیل کو بھی چاہیے کہ وہ کچھ تو خیال کرے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337105 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More