کراچی کسی ایک پارٹی کا نہیں، پاکستان کا شہر ہے

روشنیوں کے شہر کراچی میں موت کا عفریت رقص جاری ہے۔فائرنگ اور پرتشدد واقعات عروج پر ہے۔ہر طلوع ہونے والا نیا دن ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان لئے ہوتا ہے۔ اب تو بڑی بڑی شاہراہوں پر سر عام فائرنگ ہورہی ہے جس کی میڈیا لائیوکوریج کررہا ہے۔ اس طرح کراچی کے حالات نے پاکستان کے ہر شہری پر ایک نفسیاتی اثرڈال دیا ہے۔ اس بدامنی کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں کراچی کا کلیدی کردار ہے، یہاں بینکوں کے ہیڈکوارٹرز ہیں، انڈسٹریزکے ہیڈ کوارٹرز ہیں، کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کا سب سے بڑا اسٹاک ایکسچینج ہے یہاں سے جو ٹیکسز جمع ہوتے ہیں جو محصولات جمع ہوتے ہیں وہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ معیشت خراب ہو رہی ہے بلکہ کراچی کے تجارت پیشہ لوگ، کراچی کے بزنس مین کراچی کو چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

یہ صورتحال حکومت کے لئے لمحہ فکریا ہے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران شہر کراچی میں بدامنی، بھتہ خوری اور قتل وغارت گری اتنی ہوچکی ہے کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ ہر روز دل دہلا دینے والے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔اس طرح شہرکی تجارتی اور معاشی سرگرمیاں تو ایک طرف، شہریوں کو کھانے پینے کی اشیاءکے حصول میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد بدامنی ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جن زیادہ تر غریب اور مزدوری کرنے والے تھے۔ یہ کشیدگی اب بھی جاری ہے۔پولیس مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ سیاسی بنیاد پر ہونے والی بھرتیوں نے اسے مکمل طور پر زنگ آلوداور ناکارہ بنا ڈالا ہے۔تنخواہ وہ حکومت پاکستان سے لیتے ہیں مگر ڈیوٹی سیاسی وابستگیوں کے لحاظ سے کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انہیں اپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ وہ انہیں سیاسی مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اپنے حلیفوں کو آزاد کروانے کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ ان حالات میں کراچی میں امن وامان کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے شہری اور حب الوطن حلقے پولیس کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ کراچی کو چونکہ پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے لہٰذا وہاں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کا خمیازہ پورے پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کاروبارتو اب دور کی بات اس شہر کے باسیوں کو اب جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ شہر کے گلے محلے میدان جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ معصوم بچے تو فائرنگ کی مسلسل گونج اور آگ اور خون کے اس گھناﺅنے کھیل میں نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب معصوم شہریوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی گئی ہو۔ لاقانونیت انتہاءکو پہنچ چکی ہے۔ بھتہ خوری، بدمعاشی اور اسلحہ بردار عناصر کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں ۔ اس صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس لئے ناکام نظر آتے ہیں۔کیونکہ شر پسند عناصر کو سیاسی پشت پناہی کی موجودگی میں کسی کا ڈراور خوف نہیں رہا۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی سالوں میں کراچی کی تین مرکزی پارٹیوں ایم کیو ایم، اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے شہر میں قیام امن کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنائی اور جس طرح کراچی کے مختلف علاقوں کو وال چاکنگ اور مختلف پارٹیوں کے پرچموں سے نجات دلائی گئی اس سے تو لگتا تھا کہ اب کراچی کے عوام شاید سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی اچھی روایت تھی کہ مذاکرات ہی بالآخر کسی مسئلے کے حل کی کنجی ہوتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چار سال سے جو غنڈہ گردی ہوئی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہونے والے نہیں۔ کم ازکم سیاسی جماعتیں جب تک نیک نیتی کا مظاہرہ نہیں کریں گی اس وقت امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

اگر حکومت واقعی کراچی میں قیام امن کے لئے مخلص ہے تو اسے تمام سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر فیصلے کرنا ہوں گے۔ اپنے کرسیوں کو بچانے کے چکر میں حکومت کہاں تک سیاسی مصلحت سے کام لیتے رہیں گے۔ویسے بھی اب موجودہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اب تو کوئی ٹھوس اقدامات اٹھا لئے جائی۔ ایم کیو ایم تو اپنے مفادات پورے کرکے حکومت سے جدا ہوگئی۔۔۔ بہرھال کراچی پاکستان کا شہر ہے اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس شہر پر صرف ان کا حق ہے تو وہ سرا سر غلطی پر ہیں۔ کراچی میں ہر پاکستانی کو کاروبار، رہائش اور آبادکاری کا حق ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت ڈنڈے کے زور پر اپنی بات منوانے پر تلی ہے تو یہ غیر فطری عمل ہے جوعوام کے دلوں میں نفرت کے سوا کچھ پید ا نہیں کرے گا۔
Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.